اوہ بے بی! یہ آپ نے کیا کردیا؟
پبلک سکول میں زِیر تعلیم بچہ انتہائی حساس تھا، ہم عمر کزن سرکاری اداروں میں زیر تعلیم تھے،بچے کے والد تعلیم سے زیادہ اہمیت تربیت کو دیتے تھے،یہی وجہ انتہائی مہنگے سکول میں داخلے کا باعث بنی، لیڈی ٹیچر نے کہا ”اوہ بے بی! یہ آپ نے کیا کردیاہے؟“ بچہ گھبرا گیا، سٹ پٹا گیا، کچھ سمجھ نہ پایا، خاتون نے فرش سے ٹافی کا ریپر اٹھایا، طالب علم کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا۔ نہایت پیار سے سمجھایا،”بیٹا ڈسٹ بن کے باہر ریپر پھینکنا بیڈ مینرز ہیں“ طالب علم کے مینرز پر تما م عمر والدین کو ناز رہا۔ نوجوان خاندان کا اثاثہ ثابت ہوا۔پیشہ ور صلاحیتوں اور صلہ رحمی میں ہمیشہ، نام کمایا۔ ٹیچر کی صحیح طریقے سے صحیح وقت پر سمجھائی گئی ایک بات عمر بھرکے لئے سبق سکھا گئی۔یہ ”مار نہیں پیار“ سے پہلے کا ”وقوعہ“ ہے۔ان دِنوں سرکاری سکول کے چند اساتذہ ”پیار نہیں مار“ مار بھی لگاتار،کر وار بیشمار“ کے سنہرے اصول پر کاربند تھے۔چند ایک ہیڈ ماسٹر صاحبان بسا اوقات گن گناتے پائے جاتے تھے،آسمان سے اتاریں گئی چار کتابیں،ساتھ اتارا گیا ڈنڈا۔ ڈنڈے کی برکت سے کئی نسلیں پڑھ گئیں۔جوان ہو کر کچھ لوگ سرکاری سکولو ں میں بطور اساتذہ بھرتی ہو جاتے تھے۔ ”ڈنڈے“کی فیوض و برکات کا سلسلہ چلتا رہا، حتیٰ کہ مار نہیں پیارکا سلوگن سرکاری سکولوں میں بھی لاگو کر دیا گیا۔ ورنہ پہلے تو،اوہ بے بی! یہ آپ نے کیا کر دیاہے؟ کی سہولت انتہائی محدود تعلیمی اداروں میں چنی ہوئی مخلوق کو ہی میسر تھی۔بے بی کی تربیت مدر نیچر تو کرتی ہی ہے، لیکن نئی نسل کی تر بیت کی اصل ذمہ داری والدین،معاشرہ اور ریاست کی ہے۔
دنیا کسی بھی دور میں ”اُلو کے پٹھو ں“سے خالی نہیں رہی۔ ایک صاحب اپنے جاننے والوں کے ہا ں گئے۔ میزبان نے خاطر تواضع میں کوئی کمی نہ چھوڑی، سونے کا وقت ہوا تو ایک کمرے میں لے گئے، کہنے لگے ”یہاں آرام کیجئے نیند نہ آئے تو ساتھ بے بی کا کمرہ ہے وہاں تشریف لے جائیے گا“۔ صاحب گھوڑے بیچ کر سوئے۔ صبح ناشتے کی میز پر ایک انتہائی خوبصورت کمسن دو شیزہ سے ملاقات ہوئی۔ اُس نے پوچھا، جناب میرانا م بے بی ہے آپ کون؟ فٹ منہ سے نکلا“بے بی میں الو کا پٹھا ہوں“۔ سوشل میڈیا کے ظہور، پر فتور سے پہلے والدین اچھی طرح جانتے تھے کہ کون اُلو کا پٹھا ہے اور کون انسان کا بچہ۔ بچوں کو کس سے ملانا ہے اور کس سے بچانا ہے۔ سوشل میڈیا والدین کے لئے پُل صراط ثابت ہوا ہے۔ہمار ے معاشرے میں والدین کی اکثریت نئی نسل کو جدید ترین تعلیم سے روشناس کروانا چاہتی ہے، وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کے بچے ترقی یافتہ ممالک میں جا کر تعلیم حاصل کریں۔ المیہ یہ ہے کہ ان کی اپنی اکثریت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کی بابت انتہائی واجبی علم رکھتی ہے۔ہم اپنے بچوں کی دُنیا تو ضرور سنوارنا چاہتے ہیں، مگر آخرت کی قیمت پر بالکل بھی نہیں،ہم پاکستانی، عالمگیریت کے رد مذہب کے رویے کو بالکل پسند نہیں کرتے۔ ہمیں اپنی پاکستانیت اور اسلام پسندی پر سچے دِل سے ناز ہے۔ ارشادِ خداوندی کا مفہوم ہے ”اے ایمان والوں! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھروالوں کو اُس آگ سے بچاؤ، جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں اور جس پر تندخو اور سخت مزاج فرشتے مقر رہیں،جو ارشادِ اللہ تعالیٰ اِن کو فرماتا ہے وہ اُس کی نافرمانی نہیں کرتے،جو حکم اُن کو ملتا ہے وہ اُسے بجا لاتے ہیں“۔ رحمت اللعالمین ؐکے ارشاد کا مفہوم ہے ”تم میں سے ہر ایک اپنی رعیت کا ذمہ دار ہے اوراُس سے اُس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا“۔ بچے بالغ ہونے تک والدین کی رعیت ہی ہوتے ہیں۔بچوں کو دین اور دُنیا کی بہترین تعلیم دینا والدین کا افضل ترین اور بنیادی فریضہ ہے، لیکن افسوس،صد افسوس ”اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے“ والدین کو خودسوشل میڈیا سے فرصت نہیں ملتی۔ہمارے ہاں عالمگیریت کے اثرات کی وجہ سے پرُانا خاندانی نظام مسائل کا شکار ہے، طلاق اور خُلع کی شرح بڑھ رہی ہے،سوشل میڈیا کے دور میں اولاد کی صحیح تربیت اتنا بڑا امتحان ہے کہ اکثر والدین ناکام ہو رہے ہیں۔ سنگل پیرنٹ کی مشکلات کا اندازہ آپ خود لگا لیں۔ شوہر حضرات اکثر اوقات نان ونفقہ نہیں دیتے۔ مقدمات بہت طول پکڑ تے ہیں۔ خواتین تن تنہا معاشرے سے کتنا لڑ سکتی ہیں؟ اکثر اوقات ماں اور بچے کو واحد پناہ گاہ سوشل میڈیا دیکھائی دیتا ہے مگر یہ پناہ گاہ نہیں۔قتل گاہ ہے۔جہاں ہر وقت گدھ گھات میں ہیں۔ نوجوان بچے بچیوں میں خودکُشی کی بڑھتی ہوئی شرح کا ایک بنیادی سبب ڈیجیٹل قاتل ہیں۔ایک تحقیق کے مطابق سوشل میڈیا کا استعمال کر نے والے دس سے انیس سال کے نوجوانوں میں سگر یٹ نوشی، شراب نوشی اور منشیات کے ا ستعمال کی شرح سوشل میڈیا استعمال نہ کر نے والوں کی نسبت بہت زیا دہ پائی گئی۔
اسلام تدریج کا مذہب ہے۔ نماز کی فرضیت کا حکم بھی سات سالہ بچے کے لئے کچھ اور ہے دس سالہ بچے کے لئے کچھ اور کئی مہذب معاشرے ناعمر لوگوں کو قتل جیسے جرائم بھی معاف کر دیتے ہیں۔سوشل میڈیا ایک ایسا بے رحم سمندر ہے جو اپنے تیراک کی عمر سے کو ئی سروکار نہیں رکھتا۔ شاعر نے بالکل بجا کہا تھا ”بپھرے دریا کو صرف اپنی طغیانیوں سے کا م ہوتا ہے کشتی کسی کی پار ہو یا ڈوبے، دریا کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔پاکستان کی بقاء اسلام سے جڑی ہے۔اسلام جنسی معاملات میں کسی رو رعا یت کا قائل نہیں۔اللہ تعالیٰ واضح الفاظ میں حکم دیتے ہیں کہ مسلمانوں کو بے حیائی کی باتوں سے دُور رہنا چاہئے۔ سوشل میڈیا بچوں کے لئے ایک ایسی آگ ہے جو ان کو جنسی طور پر کسی بھی وقت جلا کر راکھ کر سکتی ہے۔ معاشرے نئی نسل کی درست خطوط پر تربیت کے بغیر قائم نہیں رہ سکتے۔انارکی پھیل جاتی ہے،جہاں اپنی نسلوں کو بے لگام چھوڑ دیا جائے، وہا ں حیوانیت ننگا ناچ ناچتی ہے،ایسا معاشرہ کچھ بھی ہو سکتا ہے اسلامی معاشرہ نہیں۔اسلامی قوانین کے مطابق ہر شخص اپنے دائر ہ کار میں ذمہ دار ہے ہر شخص سے اس کی ذمہ داری کے متعلق پوچھ گچھ ہو گی۔ وقت کا حکمران ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں سوال کیا جائے گا ہر آدمی اپنے گھر والوں کا ذمہ دار ہے، اس سے بھی اس کی ذمہ داری کے متعلق باز پرس کی جائے گی اور ہر عورت اپنے خاوند کے گھر میں ذمہ دار ہے اور اس سے بھی اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ روزِجزا ہم سے اپنی اولاد کی تربیت کے بابت سوال کیا جائے گا۔بخاری ومسلم میں مرقوم ہے ”جس شخص کو اللہ تعالیٰ ذمہ دار اور نگران بناتا ہے پھر وہ آخری دم تک اپنی رعیت سے دھوکہ کر تا رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت کو حرام کر دیتا ہے۔آئیے!اپنی اولاد کواسلامی اقدار کے مطابق سوشل بنائیں، سوشل میڈیا کا قیدی نہ بنائیں۔ بچوں کو دکھ درد بانٹنا سکھائیں۔ ڈیجیٹل قاتلوں سے بچائیں۔ اپنا فرض نبھائیں۔ خطرات سے لبریز،سوشل میڈیا سے پرہیز، میں ہی ہماری بقاء ہے۔آئیے! پہلا قدم اٹھائیں،اپنے بچوں کو ٹیکنالوجی کا صحیح استعمال سکھائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔
٭٭٭٭٭
=