عہدہ واختیار، ایک آزمائش

  عہدہ واختیار، ایک آزمائش
  عہدہ واختیار، ایک آزمائش

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میں کسی کام سے ایک سرکاری افسر کے دفتر میں بیٹھا تھا اور بھی کچھ لوگ موجود تھے، اتنے میں ایک صاحب داخل ہوئے،عمر60سے اوپر ہو گی،انہیں دیکھ کر کرسی پر بیٹھے ہوئے افسر کھڑے ہو گئے۔آیئے آیئے سر، کیسے آنا ہوا۔ انہوں نے کہا بتاتا ہوں پہلے سانس تو ٹھیک کر لوں، پھر انہوں نے چائے کی فرمائش کی، جو جلد ہی آ گئی اور اُن کی وجہ سے مجھ سمیت دو تین اور لوگوں کو بھی مل گئی۔اُن صاحب نے اپنا ایک کام بتایا اور کہا یہ ابھی کروا دو مجھے یہاں سے لاہور جانا ہے،کرسی پر  بیٹھے ہوئے حاضر سروس سرکاری افسر نے کام کے بارے میں جانا، فائل دیکھی تو کہا سر اس کے لئے تو وقت درکارہو گا۔نیچے سے رپورٹ منگوانی پڑے گی،پھر دوسرے محکمے سے اپنی این او سی لینا پڑے گا۔کم از کم تین چار دن تو لگ جائیں گے یہ سن کروہ صاحب جلال میں آ گئے۔آپ مجھے سمجھا رہے ہیں،میں سب جانتا ہوں،اپنے وقت میں ایسے کام چٹکیوں میں کر دیتا تھا۔آپ اپنے لیول پر یہ فائل نکال دیں، ضلع کے سربراہ ہیں،نیچے سے رپورٹیں منگوانے کی کیا ضرورت ہے۔ سرکاری  افسر نے کہا سر آپ کے دور میں اتنے اختیارات ہوں گے،آج کل ایسی سہولت حاصل نہیں، پروسیجر مکمل  کرنا پڑے گا۔یہ جواب اُن صاحب کے لئے غیر متوقع تھا انہوں نے چائے کا کپ زور سے پیالی میں رکھا،چہرے سے ناخوشگواری کا اظہار کیا اور فائل اُٹھا کر یہ کہتے چلے گئے، کس قدر زوال آ گیا ہے، بیورو کریسی آج بالکل ناکارہ ہو گئی ہے۔سرکاری افسر نے انہیں روکنے کی زحمت بالکل گوارا نہیں،بعد میں انہوں نے بتایا یہ فیڈرل سیکرٹری ریٹائر ہوئے ہیں۔ ڈی ایم جی گروپ سے تعلق ہے یہ خود پچھلے تیس پینتیس سالوں میں جو کرتے رہے ہیں اب چاہتے ہیں آج کے افسر بھی ویسا ہی کریں۔یہ بھلا کیسے ممکن ہے۔ میں نے کہا جناب اگر یہی اس وقت فیڈرل سیکرٹری کے منصب پر ہوتے اور اسلام آباد سے اپنے اس کام کے لئے آپ کو فون کرتے تو کیا پھر بھی آپ انکار کر دیتے۔ انہوں نے سچ بولتے ہوئے کہا نہیں میں انکار نہیں کر سکتا تھا،پھر میں ابن کا ماتحت ہوتا اور ماتحت کو اس نظام میں رہنے کے لئے حکم ماننا پڑتا ہے۔اس پر میرے ساتھ بیٹھے ہوئے سرکاری افسر کے ایک پُرتکلف دوست نے کہا تو اس کا مطلب ہے، کرسی گئی تو بندہ صفر ہو گیا۔کہنے لگے ایسا ہی ہے،کچھ عرصہ گزرے گا تو بعض افسر اِن کا اپنے دفتر میں داخلہ بھی ممنوع قرار دیدیں یا کم از کم اپنے نائب قاصد کو کہیں گے جب یہ صاحب آئیں تو کہہ دیں صاحب میٹنگ میں ہیں اور انہوں نے کسی کو بھی اندر آنے سے روک دیا ہے، میں نے کہا یہ تو بڑی غلط روایت ہے۔کل کو آپ نے بھی ریٹائرہونا، سوچئے آپ کے ساتھ یہ ہو گا تو کیسا لگے گا۔ کہنے لگے اچھا لگے یا بُرا، ہو گا تو یہی، اس کے لئے تیار رہنا چاہئے۔

اس پر مجھے عہد ساز مصنف قدرت اللہ شہاب کی ایک بات یاد آ گئی،جو مجھے معروف افسانہ و  ناول نگار طارق محمود نے سنائی تھی،انہوں نے کہا جب وہ سول سروس میں آئے تو ایک بار جب ڈی سی تھے،اُن کی ملاقات قدرت اللہ شہاب سے ہوئی۔ وہ ریٹائر زندگی گزار رہے تھے۔البتہ ادبی حوالے  سے اُن کی بڑی قدر و منزلت تھی۔”میں نے جب انہیں یہ بتایاکہ میں سول سرونٹ ہوں اور افسانے بھی لکھتا ہوں توانہیں بڑی خوشی ہوئی“۔اس موقع پر قدرت اللہ شہاب نے انہیں جو نصیحت کی اُس کا خلاصہ یہ تھا کہ کبھی اپنے عہدے پر بھروسہ نہ کرنا یہ بڑی عارضی شناخت اور عزت ہوتی ہے،جو منصب چھیننے کے ساتھ ہی چھن جاتی ہے۔آپ خود کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے حوالے سے منوانے اور شناخت بنانے کی کوشش کریں،عہدے کی معیاد ختم ہو جائے گی،تخلیقی شناخت تا زندگی بلکہ بعداز زندگی بھی جاری رہے گی۔ طارق محمود بتاتے ہیں کہ اُن کی اِس بات نے انہیں بہت متاثر کیا،انہوں نے اسے پلے باندھ لیا،قدرت اللہ شہاب آج زندہ ہیں اُن کے عہد اور بعد میں آنے والے ہزاروں بیورو کریٹس وقت کی گرد میں گم ہو کر اپنی شناخت کھو چکے ہیں،سچی بات یہی ہے عہدے اور اختیارکی عمر بہت مختصر ہوتی ہے،جو لوگ انہی کو سب کچھ سمجھ کر زندگی گزارتے ہیں،انہیں ریٹائرمنٹ کے بعد شناخت کے اس بحران کا سامنا کرنا پڑتا  ہے، جو بہت اذیت ناک ہوتی ہے۔میرے ایک جاننے والے ایس ایس پی کے عہدے سے ریٹائر ہوئے،اُن کی گاڑی جب آفس کی حدود میں داخل ہوتی تھی تو ایک ہلچل مچ جاتی،ان کے کروفر کا عالم یہ تھا کہ سیدھے منہ بات نہیں کرتے تھے، اپنے ماتحتوں کو جھاڑ پلانا تو معمول تھا، گالم گلوچ سے بھی باز نہیں آتے تھے۔ اب ظاہر ہے وہ عہدے پر متمکن تھے اور اُن کی کرسی اُن کے ہر عمل کا دفاع کر رہی تھی۔وہ اپنی سروس کے آخری سال میں تھے،مگر اُن کی شاہی عادات اُسی طرح موجود تھی،پھر ایک دن آیا وہ ریٹائر  ہو گئے۔یہ میرا چشم دید واقعہ ہے کیونکہ میں اُن دِنوں ملتان رینج پولیس کے جریدے پولیس میگ کا ایڈیٹر  تھا اور میرا دفتر ایس ایس پی آفس ہی میں موجود تھا،ریٹائرمنٹ کے کچھ دنوں بعد وہ اُسی دفتر میں آئے جہاں آتے ہی انہیں سلیوٹ پڑتے اور ہٹ بچو کا ماحول پیدا ہو جاتا،میں اپنے کمرے میں تھا کہ مجھے باہر سے  شور کی آوازیں آئیں،باہر نکل کر دیکھا تو وہی ایس ایس پی وہاں کھڑے تھے اور منتری انہیں اندر نہیں جانے دے رہا تھا،وہ غصے میں کہہ رہے تھے الو  کے پٹھے کل تک تم مجھ سلیوٹ مارتے تھے،میری جوتیاں چاٹتے تھے، آج مجھے اندرجانے سے روک رہے ہو اور وہ کہہ رہا تھا۔ مجھے حکم ہے سو آپ کو اندر نہیں آنے دینا۔مجھے دیکھا تو کہنے لگے،پروفیسر صاحب یہ کیا ہو رہا ہے،میرے ساتھ اتنی بدتمیزی،میں نے کہا آپ میرے دفتر میں آ جائیں،اس بے چارے نے تو وہی کرنا  ہے جو اسے حکم دیا جائے۔آپ کے حکم کی بھی تو تعمیل کرتا تھا، وہ غصے میں ناک بھوں چڑھاتے میرے دفتر میں آ گئے،میں نے انٹر کام پر ایس ایس پی سے بات کی اور بتایا سابق ایس ایس پی ملنے آئے ہیں انہوں نے کہا آپ کام پوچھ لیں،ابھی میں میٹنگ میں ہوں،کچھ دیر لگ جائے گی۔میں سمجھ گیا کہ یہ صاحب مکافاتِ عمل کا شکار ہو گئے ہیں اور اب شاید یاسی لت انہیں باقی عمر بھر اٹھانی پڑے۔

یہ جو افسران عہدوں پر براجمان ہو کر اُن کے اسیر ہو جاتے ہیں اور بندے کو بندہ نہیں سمجھتے انہیں ریٹائرمنٹ کے بعد زندگی میں ایڈجسٹ ہونے کے لئے بہت مشکل پیش آتی ہے۔عہدہ اگر آپ کی عزت و توقیر کا باعث نہ بنے اور صرف اُس  کی آڑ آپ کو جھوٹی شان و شوکت اور عزت دے تو پھر اس کے لئے تیار رہنا چاہئے کہ وقت آپ کو رگڑا دے گا،ہمارے ایک سینئر پروفیسر دوست اعجاز رسول چشتی کہتے ہیں جو عہدوں اور مناصب کو زندگی مجھ لیتے ہیں وہ ریٹائرمنٹ کے بعد جلد مر جاتے ہیں۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -