کرکٹ کا المیہ، الگ تجویز اور مشورہ!
یہ کوئی نئی بات تو نہیں،لیکن خاص ضرور ہے کہ ہماری کرکٹ ٹیم نے خود اپنے ہی گھر میں ایک تاریخ ساز میچ ہرا دیا اور انگلینڈ کو بھرپور موقع دیا کہ وہ80 سال کے بعد پھر ایک نیا ریکارڈ بنا سکے،انگلینڈ نے آسٹریلیا کے خلاف 900 رنز بنائے تھے اور اب80سال بعد ملتان میں 823 رنز بنا ڈالے ان کی صرف سات وکٹیں گریں۔ انگلینڈ کی اس اننگز کی مزید تاریخ ساز بات چوتھی وکٹ کی ریکارڈ پارٹنر شپ تھی کہ جو رؤٹ اور ہنری بروکس نے454رنز مل کر بنائے، جو روٹ تو ڈبل سنچری کے بعد تھک سے گئے لیکن ہنری بروکس 317رنز بنا کر300 کے کلب میں شامل ہو گئے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کی یہ بھی بدقسمتی کہ اس نے پہلے کھیلتے ہوئے556رنز بنائے اور ہمارے دوستوں نے اسے رنز کا پہاڑ قرار دے کر جیت کی پیش گوئی کر دی،لیکن یہ خواب ہی رہا اور ہماری کرکٹ ٹیم کو ایک اننگز اور47رنز کا خسارہ اٹھانا پڑا اور یہ بھی ایک ریکارڈ ہو گیا۔اس میں کپتان شان مسعود کا ریکارڈ بھی ہے وہ چھ ٹیسٹ میچ مسلسل ہارنے والے پہلے کپتان بن گئے پوری قوم سوگوار ہے اور تجزیہ نگار ماہرین کھل کر تنقید کر رہے ہیں یہ سب کھیل کی محبت میں ہے کہ ٹیم کمزور تو ہوئی تھی لیکن اس حد تک نہیں کہ556کا ”پہاڑ“ کھڑا کر کے بھی ہار جائے۔
اس میچ پر کرکٹ کے سابق کھلاڑی اور ماہرین اپنی اپنی رائے دے چکے اور دُکھ کا اظہار بھی کیا گیا،میرے لئے بھی یہ ایک تعجب خیر مرحلہ ہے کہ ٹاس اور پہلی اننگز کی زبردست پرفارمنس کے بعد باؤلنگ اٹیک انگلینڈ کے کھلاڑیوں کو متاثر کرنے میں ناکام رہا،ہنری بروکس اور جو روٹ نے جم کر پٹائی کی اور اپنی ٹیم کو فتح سے ہمکنار کر دیا۔
میں نے ملکی حالات سے ہٹ کرکٹ کا ذکر کیا کہ یہ بھی میرے ہی ملک کی عزت کا سوال ہے۔
اس شکست اور ویمن ٹی20 کرکٹ ورلڈکپ کے حوالے سے ماہرین اپنی اپنی ماہرانہ آراء سے مستفید فرماتے چلے آ رہے ہیں، میں آج کرکٹ کے زوال پر ایک دوسرے تصور و خیال سے بات کروں گا۔میں کسی کھلاڑی کو بھی غلط یا برا کہنے سے گریز کرتے ہوئے تمام ذمہ داری کرکٹ بورڈ اور اس کے چیئرمین حضرات پر سمجھتا ہوں، موجودہ اور اس سے پہلے چیئرمین اپنی کسی ذاتی خوبی کے باعث اس مقام پر نہیں پہنچے اور نہ ہی ہر دو کرکٹ ایکسپرٹ ہیں،دونوں عام کاروباری اور سیاسی حضرات ہیں اور اسی حوالے سے اس عہدے پر فائز ہوئے اور فائز ہیں۔ہمارے کرکٹ بورڈ کے کرتا دھرتا حضرات نے کبھی بھی کھلاڑیوں کی نفسیات کو نہیں سمجھا۔یہ حضرات ہمیشہ ان کو ”ملازم“ ہی تصور کرتے ہیں کہ کنٹریکٹ کے عوض ان کو ماہانہ رقم ملتی اور این او سی کی صورت میں کمائی ہوتی ہے۔سابقہ محترم نے گروہ بندی اور بلیک میلنگ جیسے الزام لگائے اور موجودہ صاحب نے این او سی کو مسئلہ بنا لیا،بورڈ بہت مالدار ہے اس لئے یہ دولت قومی امانت سمجھنے کی بجائے اسے خرچ اور تقسیم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔کبھی بورڈ کے اکاؤنٹس کا مکمل آڈٹ کرا کے عوام کے روبرو پیش نہیں کیا گیا، اور نہ ہی آج تک شائقین کو علم ہے کہ بورڈ میں ملازمین کی تعداد اور ان کے ماہانہ مشاہرے کیا ہیں۔بورڈ سونے کا انڈہ دینے والی مرغی ہے، جو ایک بار اِس میں گھس جائے وہ باہر آنے کا نام نہیں لیتا اور اِس وقت کی انتظامیہ نے تو ٹیم بنانے میں اتنی دلچسپی نہیں لی جتنی تعمیرات میں لی ہے۔ چیمپئن ٹرافی کے حوالے سے سٹیڈیم اُدھیڑ کر رکھ دیئے گئے اور ایک نئے سٹیڈیم کی تعمیر کا بھی اعلان کر دیا گیا، حالانکہ موجودہ کراچی، لاہور اور راولپنڈی سٹیڈیم کے لئے تھوڑی تزئین سے کام چل سکتا تھا، اگر کوئی کام کرنے والا تھا تو یہ ہے کہ عوام کو پریشانی سے بچانے کے لئے ابتداء میں لاہور اور کراچی سٹیڈیم کے نواح میں ہوٹل بنائے جائیں اور پھر بتدریج آگے بڑھا جائے۔ بہرحال جو ہو رہا اس سے اندازہ ہوتا ہے نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری، نہ موٹی رقوم ہوں گی نہ ملازموں کو تنخواہ اور کھلاڑیوں کو کنٹریکٹ مل سکیں گے۔
اب میں اِس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں جس کی وجہ سے یہ موضوع چھیڑا ہے۔وہ یہ ہے کہ ماضی سے اب تک ہمارے بورڈ نے پسند نا پسند کی وجہ سے کھلاڑیوں کے مستقبل خراب کئے،کئی اچھے کھلاڑی مختلف وجوہ کی بناء پر کھڈے لائن لگا کر ان کا کیریئر ختم کیا گیا اور اب بھی متعدد کھلاڑی نشانے پر ہیں۔ شاہین شاہ آفریدی،شان اور بابر اعظم اس کی زندہ مثال ہیں،کپتان بننا اور تبدیلی کوئی معنی نہیں رکھتی، دنیائے کرکٹ میں بڑے بڑے کھلاڑی قیادت سے ہٹ کر کھلاڑی کی حیثیت سے کھیلے اور کھیل رہے ہیں۔ان کھلاڑیوں کی نامزدگی اور تبدیلی اس طریقے سے نہیں ہوئی کہ نامزدگی کے وقت کئی کھلاڑی اپنا حق غصب ہوتے محسوس کریں اور جب ان کو اتارا جائے تو وہ بے عزت ہوں۔میں زیادہ دور نہیں جاتا، سرفراز احمد،بابر اعظم، شاہین شاہ آفریدی اور اب شان کی بات کرتا ہوں،ان کی تقرری متنازعہ تھی تو ان کو ہٹایا بھی غلط طریقے سے گیا۔سرفراز کو ہٹایا گیا تو بہت اعتراض ہوئے اور جب بابر اعظم کو ہٹایا گیا تو پھر بھی واضح طور پر محسوس ہوا کہ زیادتی ہوئی ہے اس طرح شاہین شاہ آفریدی اور شان کو قیادت سونپنا جلد بازی تھی تو پھر شاہین کو ہٹاتے وقت بھی دِل شکنی کی گئی،اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ شان مسعود کو ٹیسٹ کپتان بنایا گیا تو اسے حیرت انگیز قرار دیا گیا تھا اِس لئے میرا استدلال یہ ہے کہ خود بورڈ کو اپنا رویہ درست کرنا ہو گا اور ریوڑیاں بانٹتے وقت مشاورت کا بھی خیال رکھنا پڑے گا۔ میرے خیال میں نہ تو سابقہ سلیکشن کمیٹی میں مشاورت اور میرٹ کا لحاظ تھا اور نہ اب ہے۔
بات نکلی تو اور بھی دور تک جائے گی،میں اب یہ عرض کروں گا کہ کھلاڑیوں کے نفسیاتی تجزیے کی بات کئی بار کی گئی،مگر عمل نہ ہوا،حالانکہ اس کی بہت ضرورت ہے۔ میری تجویز اور مخلصانہ مشورہ ہے کہ بابر اعظم اور شاہین شاہ آفریدی کو رضا کارانہ طور پر ٹیم سے الگ ہو کر کچھ عرصہ آرام کرنا چاہئے۔شاہین تو ماشاء اللہ ایک بچے کے باپ بن چکے ہیں وہ اپنی فیملی لائف انجوائے کریں اور بابر اعظم شادی کرا کے ہنی مون منائیں۔یہ دونوں کھلاڑی دنیائے کرکٹ کے بہترین اور ریکارڈ ہولڈر ہیں اور ان کے سامنے کئی ریکارڈ پڑے ہیں جن کو یہ توڑ سکتے ہیں۔بابر اعظم تو آؤٹ آف فارم ہو کر کوہلی کو پچھاڑتے پچھاڑتے خود ہی کمر زمین سے لگا چکے ہیں،ایسا ہی کچھ شاہین شاہ آفریدی کے حوالے سے بھی ہے کہ وہ بہترین سوئنگ فاسٹ باؤلر ہے، جس میں آل راؤنڈر بننے کے جراثیم موجود ہیں، اس کو اپنی فارم بحال کرنے کے لئے ریسٹ کی ضرورت ہے،باقی کھلاڑیوں کا ایک ایک کر کے ذکر ممکن نہیں،اتنا عرض ہے کہ ہر کھلاڑی کا نفسیاتی تجزیہ ہونا لازم ہے اور آئندہ کے لئے میرٹ پالیسی اور بلاتعصب کام ہونا چاہئے۔
٭٭٭٭٭