آئی ایس آئی چیف، بلوچستان اور تین اسلامی جمہوریے

     آئی ایس آئی چیف، بلوچستان اور تین اسلامی جمہوریے
     آئی ایس آئی چیف، بلوچستان اور تین اسلامی جمہوریے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 دنیا کی چار اسلامی مملکتوں میں سے تین کی سرحدیں الحمدللہ باہم متصل ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان، اسلامی جمہوریہ ایران اور اسلامی جمہوریہ افغانستان وہ تین نامور ممالک ہیں جو دستوری طور پر اسلامی مملکتیں ہیں۔ ان تینوں میں سے پاکستان کو فوقیت حاصل ہے۔ کیا اس لئے کہ میرا وطن ہے، ہرگز نہیں۔ یہ تینوں ممالک میرا وطن ہیں۔ ہر ملک ملک ماست کہ ملک خدائے ماست۔پاکستان کی برتری کی وجہ میرے نزدیک اس کا متوازن آئین ہے۔ افغانستان کے تمام چھ سات دساتیر کا تقاضا رہا ہے کہ کوئی قانون فقہ حنفی کے منافی نہ بنایا جائے۔ یوں افغانیوں نے اہل تشیع، اہل حدیث و غیر ہم کو قومی دھارے سے باہر کر دیا۔ ایران کے 1906ء اور حالیہ دونوں دساتیر کا تقاضا رہا کہ کوئی قانون فقہ اثنا عشریہ کے منافی نہ وضع کیا جائے۔ ایرانیوں نے گویا تمام اہل ِ سنت کو نکال باہر کر دیا۔ ادھر پاکستانی آئین کا تقاضا ہے کہ کوئی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں ہو سکتا۔ ہم ہی وہ شرمندہ ساحل ہیں جو اُچھل کر بے کراں ہوتے ہوتے ہندی و خراسانی اور افغانی وتورانی سب کے لئے سینہ وا کیے ہوئے ہیں۔

ہمارے صوبے بلوچستان کی بلوچ اور پختون آبادی ان تینوں ممالک میں پھیلی ہوئی ہے۔ بلوچستان میں دہشت گرد اور علیحدگی پسند عناصر دونوں پڑوسی ممالک سے تقویت حاصل کرتے ہیں۔ ایران بھی پاکستان پر یہی الزام عائد کرتا رہا ہے کہ اس کے علیحدگی پسندوں کا کھرا پاکستان سے جا ملتا ہے۔ افغانستان کے الزامات کی نوعیت مختلف ہو کر بھی کم و بیش ایسی ہی رہی ہے۔بدقسمتی یہ رہی کہ تینوں اسلامی جمہوریاؤں کے سکیورٹی و سفارتی ادارے پست الزامی سطح سے اوپر کبھی اٹھ ہی نہیں سکے۔ دیگر دو ممالک کے موجودہ ریاستی تانے بانے کا مجھے تفصیلی علم نہیں ہے، لیکن یہ واضح ہے کہ اس وقت تینوں ممالک کے تمام ریاستی ستون مکمل طور پر اسلام دوست ہیں۔ مان لیا کہ پاکستان میں یہ کیفیت ہمارے ماضی کے اعتبار سے دیگر دو ممالک جیسی نہیں ہے، لیکن اب اس کے تمام ریاستی ستون کروٹ لے چکے ہیں۔ وفاقی حکومت، مقتدرہ اور آئی ایس آئی کی موجودہ افتاد طبع (mind,set) نہایت حوصلہ افزا رخ پر ہے۔ یہی وہ وقت ہے کہ بلوچستان کے مسائل کو پنساری کی الزامی سطح پر لینے کی بجائے وسعت قلبی کے ذریعے تزویراتی (strategic) انداز میں انہیں از سر نو پڑھا دیکھا جائے۔

ریاستی تعلقات بنانے میں دفتر خارجہ اور خفیہ اداروں کا کردار کلیدی ہوا کرتا ہے۔ دفتر خارجہ کا کام تو عامتہ الناس دیکھ لیتے ہیں،لیکن خفیہ اداروں کے کام تو کبھی  سامنے نہیں آتے۔ تاہم ان کے نتائج البتہ واضح ہو جاتے ہیں۔ موجودہ حکومت اور اس کے ماضی کے  تسلسل میں یہ خواہش بخوبی ظاہر ہو رہی ہے کہ امریکی شکنجے سے نکل کر اب اپنے دائیں بائیں تعلقات قائم کیے جائیں۔ دفتر خارجہ گزشتہ دو سالوں سے انہی خطوط پر کام کرتا نظر آرہا ہے۔ آئی ایس آئی چیف کو میں نہیں جانتا، لیکن ان کے والد صاحب کو میں بالواسطہ طور پر خوب جانتا ہوں۔ یہ چیف جنرل عاصم منیر کا انتخاب ہیں۔ وزیراعظم کا تامل بھی مجھے پڑھنے سننے کو نہیں ملا۔ مستزاد یہ کہ اخباری رپورٹوں کے مطابق جنرل ملک بلوچ امور کے ماہر ہیں۔ چنانچہ ان تمہیدی کلمات کے بعد میرے لئے یہ کہنا آسان ہے کہ یہی وہ وقت ہے کہ جب پاکستانی ریاست الزامی خارجہ تعلقات سے بلند ہو کر دونوں پڑوسی ممالک کو ساتھ لے کر چلے۔افغانستان حنفیوں کا ملک ہے، بھلے ہوتا رہے۔ ایران شیعوں کی ریاست ہے، ہوتی رہے کہ یہ ان کا ائینی تقاضا ہے۔

لیکن ہمارا آئین اور قومی مزاج ان دونوں ممالک سے کہیں بڑھ کر ہم سے وسعت قلبی کا تقاضا کرتا ہے۔ آئینی طور پر پاکستان حنفی یا شیعہ ہونے سے قبل مسلمان ملک ہے، چنانچہ اگر ہمارے اس الزام میں سچائی ہے کہ بلوچ علیحدگی پسند اور دہشت گرد ان دو پڑوسی ممالک سے غذا لیتے ہیں تو ہمیں چاہئے کہ ہمارے دفتر خارجہ اور خفیہ ادارے کے صرف نچلی سطح کے افسران اس مسئلے سے نمٹا کریں۔ ہمارے سکیورٹی ادارے ٹوٹی کمر والے چند سو شرپسندوں اور ورغلائے گئے چند ہزار نوجوانوں سے بخوبی نمٹ سکتے ہیں، لیکن ریاست، دفتر خارجہ اور خفیہ ادارے کو اس پست سطح سے کہیں بلند ہو کر مآل کار (مستقبل) پر نظر رکھنا ہو گی، پاکستان ان دونوں ممالک سے بڑا اور طاقتور ہے، لیکن اب پاکستان کو بڑا ملک نہیں، بلکہ اپنی آئینی حیثیت کے عین مطابق بڑا بھائی بننا ہوگا۔ ننھے منے بچوں کو کینڈی ٹافی کے اندر پوشیدہ غذائیت سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ وہ اپنے پسندیدہ رنگ کی طرف لپکتے ہیں۔ دونوں اسلامی ممالک کو شیعہ اور حنفی رنگ کی طرف لپکنے دیجیے۔ ہم نے اسلام کے مغز، اس کی روح اور اس کی غذائیت کو عام کرنا ہے۔ اپنے ننھے منے بھائیوں کو اسی طرف لانا ہے۔ ذرا بڑے ہوتے ہی وہ رنگوں کو بھول کر ہماری بات سمجھ جائیں گے۔

بزعم خود حذاقت یافتہ اور دانشور قارئین اس بات کو خندہ استہزا سے اُڑا دیں گے۔ یاد کیجئے کم و بیش وہ تمام کردار ابھی زندہ ہیں، جنہوں نے 90ء کی دہائی میں موٹر وے کی شروعات پر غل غپاڑا مچا کر اسے ناممکن العمل ثابت کیا تھا، لیکن آج کسی نئی موٹروے کا خاکہ سامنے آتے ہی وہی لوگ اب یوں غوغا نہیں مچاتے کہ موٹروے کا راستہ بدل کر اسے فلاں قصبے سے ضرور گزارا جائے (جہاں ان کی سسرال ہے یا جورو کا بھائی مقیم ہے) منزل پچھواڑے میں ہو یا ہزاروں کوس دور ہو، پہنچنے کے لئے چند قدم بوجھل ہوتے ہیں۔ پھر طبیعات کا قانون   lawofinertia)) ہم سفر بن کر منزل تک پہنچا دیتا ہے، رہے دانشور اور حذاقت گزیدہ لوگ تو وہ غبار راہ بن کر راہی کا پیچھا کرتے ہیں۔ بتائیے اسی کٹے پھٹے، مفلوک الحال اور نوزائیدہ پاکستان نے ایک دمڑی غیر ملکی امداد کے بغیر پانچ ملین پناہ گزینوں کو اپنے دامن میں سمویا تھا یا نہیں؟ لنگڑے، لڑکھڑاتے ہی نہیں دولخت اور وسائل سے خالی پاکستان نے محض دو عشروں میں ایٹم بم بنایا یا نہیں۔

احتیاط اور بصیرت کے ساتھ ہمارے ان دونوں اداروں کو اب یہ بوجھل پتھر اٹھانا ہوگا۔ بلوچستان کے داخلی مسائل یقینا ذرا با انداز دگر ہی حل ہوں گے۔ یہاں ہمیں مقامی وسائل اور مقامی طریقے درکار ہوں گے، لیکن انہی مسائل سے جڑے اور سلگتے تزویراتی تقاضے صوبائی حکومت اور سکیورٹی اداروں کی بجائے اپنے خفیہ ادارے اور دفتر خارجہ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ خوش قسمتی سے فی الوقت تینوں ممالک میں اسلامی جمہوریائی سوچ بتدریج پنپ چکی ہے۔ اب اسے صرف عمل کا رخ دینا باقی ہے۔پاکستان کی حد تک یہ سوچ اس وقت اپنے جوبن پر ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے حالیہ اجلاس میں ہمارے دونوں مذکورہ ادارے اس سوچ کو بھی پیش نظر رکھیں۔ان تینوں اسلامی ممالک کے بڑے اس اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔

 آج نفس مضمون کا اصولی و نظری پہلو پیش کیا گیا ہے۔ اللہ نے توفیق دی تو اگلی چند نشستوں میں عملی تجاویز پیش کی جائیں گی۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -