ہلال عید، حسد نہیں غور و فکر کی ضرورت!
رمضان المبارک کے آخری عشرے کے شروع ہی میں رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مولانا عبدالخبیر آزاد نے از خود محکمہ موسمیات کی علمی تحقیق کا ذکر کیااور بتایا کہ رمضان المبارک 29 روزوں پر مشتمل ہوگا اور 9 اپریل کو ملک میں چاند نظر آ جائے گا اور عید 10 اپریل بروز بدھ ہو گی۔ یہ خلاف معمول تھا کہ اس سے قبل محکمہ موسمیات کے حوالے سے ایسی پیش گوئی کی جاتی تھی لیکن اس مرتبہ یہ فریضہ خود رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین نے ادا کیا۔ اس حوالے سے پہلے جب کبھی ایسی خبر شائع ہوتی تو رویت ہلال کمیٹی کی طرف سے ہی ہدایت کی جاتی تھی کہ قیاس آرائیوں سے گریز کیا جائے، لیکن اس مرتبہ تو خود چیئرمین نے بخوشی اطلاع فراہم کر دی تھی۔
عید اور رمضان المبارک کے چاند سے میرا تعلق طالب علمی کے دور سے رہا۔ انہی سطور میں، میں چاند کی چاند کی تلاش کا تفصیلی کر چکا ہوا ہوں کہ دور ایوبی میں جب میں روز نامہ امروز میں تھا تو لاہور سے اوکاڑہ اور واپس لاہور کا سفر کیا تاکہ دو عیدوں سے بچا جا سکے اور اللہ نے مدد کی جب ہم اوکاڑہ سے چاند کی شہادت حاصل کر کے واپس لاہور پہنچے تو حضرت علامہ ابوالبرکات کی اقتدا میں وہاں موجود سب حضرات سحری کھا کر روزہ رکھے ہوئے تھے حضرت امین الحسنات سید خلیل احمد قادری (مفتی اعظم ابوالبرکات کے بھتیجے) نے اہم گواہوں کی موجودگی شہادت دی تو پھر عید کا اعلان کیا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب ہمارے علماء کرام جدید مواصلاتی ایجادات سے گریز کرتے تھے۔ علامہ ابوالبرکات تو ٹیلیفون نہیں سنتے تھے اور نہ ہی تصویر اترواتے تھے۔اب دور تبدیل ہو گیا۔ ہمارے رہبر دین بھی جدید مواصلاتی رابطوں کو نہ صرف تسلیم کر چکے بلکہ مستفید بھی ہو رہے ہیں۔ مولانا عبدالکبیر آزاد بھی انہی میں سے ایک ہیں چنانچہ انہوں نے اس مرتبہ محکمہ موسمیات کا کریڈٹ بھی سمیٹ لیا صرف یہی نہیں مجھے تو ان کا یہ بیان بھی بہت پسند آیا جس میں انہوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ سال مبارک اور خوشی کا ہے جب نہ صرف اسلامی ممالک بلکہ مغربی ممالک میں بھی ایک ہی روز عید منائی گئی اور یوں اتفاق کا تاثر ہوا، ان کا یہ بیان بھی حقیقت پر مبنی ہے اور اگر دیکھا جائے تو مبارک بھی ہے کہ دنیا بھر کے زیادہ تر ممالک میں عید الفطر ایک ہی روز ہوئی۔
اس سلسلے میں میری گزارش اب بھی یہی ہے کہ مسلمان بھائیوں کو جدید سائنس کی حقیقت کو دل سے تسلیم کر لینا چاہئے کہ سورج اور چاند کی گردش معمول کے مطابق جاری رہتی ہے اور آج کی خلائی سائنس نے اس گردش کا لمحہ کے ہزارویں اور کروڑویں حصے کا بھی حساب نکال لیا ہوا ہے اور اسی علم کی وجہ سے خلائی سفر بھی ہوتا اور سیٹلائٹ بھی زمین کے دائرہ کشش میں گھومتے پائے جاتے ہیں جن کی بدولت آج دنیا سکڑ کر رہ گئی اگر اسے گلوبل ولیج کہا جاتا ہے تو اس کی وجہ بھی یہی مواصلاتی سیارے ہیں۔
جہاں تک میری گزارشات کا تعلق ہے تو میرے یقین کے مطابق پوری دنیا میں ہجری (قمری) مہینوں کا آغاز اور اختتام ایک ہی جیسا ممکن ہے اس کے لئے ضرورت ہے کہ تحفظات کو بالائے طاق رکھا جائے مکہ المکرمہ کو مرکز مان کر تقویم اسی کے مطابق ہو اور پوری دنیا تسلیم کر لے اگر تھوڑا سا غور کریں تو یہ کوئی راز نہیں کہ سعودی عرب میں جدید مواصلاتی علم کے حوالے سے تقویم کا نظام ہے جسے شرعی ضرورت کے ساتھ بھی منسلک کیا گیا کہ شہادت کا اہتمام کر کے اعلان صرف چیف جسٹس کرتے ہیں۔ سعودی عرب نے جدید مواصلاتی نظام کے حوالے سے سال بھر کا کیلنڈر تیار کرایا ہوا ہے جو سو فیصد درست ہوتا ہے۔ اب اگر مکہ المکرمہ کو مرکز مان لیں تو دور جدید ہی کے مطابق سعودی عرب سے دنیا بھر کے ممالک کے درمیان وقت کا فرق دو گھنٹے سے سات گھنٹے تک بنتا ہے، اس حوالے سے سعودی عرب کے مغرب میں واقع ممالک کا وقت پہلے اور مشرق کے رخ والے ممالک کا بعد میں ہوگا (چاند کے حوالے سے ورنہ سورج کے حوالے سے اس کے الٹ ہو گا) چنانچہ یہ سہولت موجود ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ ہی ہجری مہینہ شروع اور ختم ہو، یوں دنیا بھر میں دینی تہواروں میں یکسانیت ہو گی اور یہ جھگڑا بھی نہیں ہوگا کہ ہم مکہ المکرمہ کے مطابق ہی روزہ رکھیں اور عید منائیں گے۔
یوں یہ تنازعہ احسن طریقے سے ختم ہوگا۔ قارئین آپ میں سے اکثر کو یہ علم ہوگا کہ سعودی عرب نے سالانہ تقویم کے حوالے سے گھڑی بھی تیار کرا رکھی ہے جو کمپیوٹرائزڈ نظام سے منسلک ہے۔ اس کے مطابق پوری دنیا کے ممالک اور ان کے بڑے بڑے شہروں کے نماز الاوقات فیڈ ہیں، آپ دنیا کے جس ملک اور شہر میں ہوں اس کے مطابق گھڑی کو ایڈجسٹ کر لیں تو آپ کو سال، تاریخ اور وقت نماز بھی مل جائے گا اور اگر اس گھڑی کو عربی زبان سے منسلک کریں تو 24 گھنٹے کے وقت کے علاوہ تمام نمازوں کے اوقات ا ور ہجری مہینے کے ساتھ تاریخ بھی ملے گی۔ یہ جدید دور کی بدولت ہے، اس سے محض اس لئے انکار نہیں کرنا چاہئے کہ یہ غیروں کی ایجاد ہے اگر آپ دور جدید کے مطابق خود کو نہیں ڈھال سکے اور ان ایجادات کے بانی نہیں بن سکے تو اس میں علم اور خصوصاً سائنسی علم کا کیا قصور ہے؟ یہ تو آپ خود ہیں جو جدت سے فرار حاصل کرتے اور نہ صرف ماضی میں زندہ رہتے بلکہ قرآن میں بھی غور نہیں کرتے۔
ذرا توجہ فرمائیں تو قرآن پاک کی سورہ الرحمن میں ہی اللہ کا یہ فرمان مل جائے گا ”سورج اور چاند ایک حساب مقرر سے حرکت میں رہتے ہیں“ اگر قرآن کا یہ واضح فرمان ہے تو ہم کیوں تسلیم نہیں کرتے درحقیت ہم نے اللہ کے اس ہدایت نامہ پر غور نہیں کیا اور عمل سے عاری رہے بلکہ جب اغیار نے علم سائنس سے حقائق کا ذکر کیا تو ہم تسلیم کرنے سے انکار کرتے رہے کیا یہ بھی حقیقت نہیں کہ حضرت عمرؓ نے خطبہ کے دوران جب (فرمایا) ”اے ثاریہ پہاڑ کی جانب دیکھو توجہ دو“ کہیں دور جہاد میں مصروف مجاہدین نے اس آواز کو سنا اور عمل کر کے شکست سے بچ گئے اور پھر کیا واقعہ معراج النبیؐ کے بیان میں وقت اور فاصلوں کے سمٹ جانے کا ذکر نہیں اور رفتار کی حدود کو پھلا نگنے کا سبق نہیں کیا تعلیمات اسلامی کے مطابق انسانی اعضاء روز حساب کے وقت گواہی نہیں دیں گے؟ یہ سب قرآن حکیم میں بیان کیا گیا آج کی سائنس تصدیق کرتی ہے کہ آوازیں خلاء میں موجود رہتی ہیں، سائنس ہی سے علم ہوتا ہے کہ انسان کے بال، دانت اور لکیریں تک شہادت ہیں تو پھر اے مسلمانو! بتاؤ کہ تم نے ان دینی تعلیمات پر عمل کیوں نہ کیا اور قرآن میں غور کیوں نہ کیا؟ الٹا اگر غیروں نے سائنس کی بدولت ترقی کی اور ساتھ ہی ساتھ اس علم سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ قرآن حق ہے اور جو کچھ بتایا گیا وہ عملی بھی ہے تو آپ لوگ ان پر اعتراض کرتے ہو۔ حالانکہ ہمیں اپنی اس کمزوری اور کم ہمتی کے علاوہ کم علمی پر بھی معذرت خواہ ہونا چاہئے۔
قارئین تفصیل بہت ہے اس موضوع پر اور بھی بہت کچھ کہا اور وضاحت کی جا سکتی ہے اللہ نے ایک سے زیادہ کائناتوں کا ذکر کیا۔ ابھی تک سائنس اس کائنات ارضی کی وسعتوں میں گم ہو کر تلاش جاری رکھے ہوئے ہے اور اس سے باہر نہیں نکل سکی تو پھر اللہ کی ودیعت دوسری کائناتوں اور جنت و دوزخ تک رسائی کیسے حاصل کر لیں گے۔
میری گزارش ہے کہ مسلمان اب بھی کھلے دل سے اپنی کوتاہی کا اعتراف کریں اور قرآن ہی کے زیر سایہ علم سائنس کی طرف توجہ دیں اور سورہ الرحمن کی اس تنبیہ پر بھی غور کریں کہ جو زمین میں ہے اسے ایک روز فنا ہونا ہے اور فقط اللہ کی ذات ہی باقی رہے گی۔ (وما علینا الالبلاع)