آئین،قانون،محنت،دیانت، صداقت کی کارکردگی کا ہفتہ منایا جائے
ملک کی 22 کروڑ کثیر انسانی آبادی میں اگر کئی لوگ غلط کار، قانون شکن، بددیانت، بدعنوان اور اپنے فرائض کی انجام دہی میں غفلت اور لاپروائی کی عادت میں مبتلا ہیں تو اُن کی مذکورہ بالا کوتاہیوں اور خامیوں کی بنا پر سرکاری دفاتر اور پرائیویٹ روابط کے باہمی معاملات میں کئی جرائم، خرابیوں اور سماجی نا انصافیوں کے حالات وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ اِس رجحان سے ملکی معیشت، سیاسی استحکام اور باہمی عزت و مفاہمت کے امور میں قومی اور ذاتی قانونی حقوق و مفادات کو مختلف نوعیت کے نقصانات سے دو چار ہونے کے واقعات ملک بھر میں شب و روز ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں رونما ہونے کی خبریں پڑھنے اور سننے میں آتی رہتی ہیں، جبکہ ذرائع ابلاغ میں ایسے کئی تکلیف دہ اذیت ناک واقعات کی اطلاعات اور رپورٹس شائع یا نشر ہونے میں نہیں آتیں کیونکہ وہاں صحافی حضرات یا دیگر ایسے ذرائع قرب و جوار میں موجود نہیں ہوتے یا مذکورہ بالا انداز کے واقعات کے متاثرین انہیں کسی وجہ سے دیگر افراد اور ذرائع ابلاغ کو ظاہر کرنا پسند نہیں کرتے۔ اس طرح دیگر ایسے بے شمار غیر قانونی واقعات اور جرائم کے معاملات منظر عام پر نہیں آتے یا کسی مصلحت کاری سے انہیں خفیہ رکھنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔
سطور بالا کے کوائف تحریر کرنے کا بڑا مقصد یہ ہے کہ ہم اہل وطن، سیاسی قائدین اور دیگر اہم شعبوں کے رہنما خواتین و حضرات کو ملکی مفاد اور عوام کے قانونی حقوق و مفادات کے جلد حصول اور تحفظ کے لئے اپنے فرائض اور ذمہ داریاں حتی المقدور خصوصی توجہ، محنت، دیانت اور صداقت کے صحیح اصول و ضوابط پر عمل کر کے لوگوں کے مسائل اور مشکلات پر قابو پانے کی تگ و دو کی جائے۔ اِس بارے میں اہل فکر و نظر کو بھی وطن عزیز کی پسماندگی اور زبوں حالی سے نجات حاصل کرنے کی اپنی کاوشیں، جرات و ہمت سے جاری رکھنا اور عزم صمیم سے آگے بڑھانے پر سرگرم اور گامزن رہنے کی ضرورت ہے۔
اِن حالات میں ہمارے سیاسی رہنماؤں کو عام لوگوں کو راہ راست پر رکھنے اور دیگر کو گمراہ ہونے سے بچانے کے لئے اپنا عمل و کردار مذکورہ بالا غلط کاریوں اور غیر قانونی حرکات سے پاک ہونا چاہئے۔ ہمارے قومی قائدین اور نمائندے ہونے ملک کی کثیر آبادی میں اگرچہ غلط کار افراد بھی ہیں لیکن اِس کے ساتھ نیکی کرنے قانون کی پاسداری پر عمل کو ترجیح دینے اور غیر آئینی اور غیر قانونی، حرکات و عادات سے گریز و اجتناب کرنے والے لوگوں کی بھی کمی نہیں۔ اُن کی تعداد بیشک غلط کار عناصر سے کم ہی کیوں نہ ہولیکن ان کی مثبت کارکردگی سے ہمارے ملک و معاشرے کے کئی علاقوں اور مختلف شعبہ حیات میں قانون شکنی اور بدعنوانی کے کئی واقعات رو نما ہونے سے محفوظ ہوتے رہتے ہیں تاہم ابھی تک وطن عزیز میں کئی لوگوں کی خود غرضی اور ذاتی مفادات کے بہر صورت حصول کی روش کی بنا پر ملک بھر میں روزانہ ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں چوریاں، ڈاکے، اغواء، سرکاری امور میں کروڑوں اور اربوں روپے کی خورد برد اور لوٹ مار کی بد عنوانیاں، خواتین کی بے حرمتی، کمزور و بے بس لوگوں کی املاک، مکانات اور زیورات وغیرہ پر زور و زبردستی سے قابض ہونے کے واقعات اور بینکوں سے دیگر افراد کے کروڑوں روپے، نوسر بازیوں اور طاقت کے اندھے استعمال سے نکالنے اور ہتھیارنے سے قومی اور مقامی اخبارات کے بیشتر صفحات پھیلے ہوتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو اخبارات میں جگہ کم ہونے کے باعث خبریں رپورٹ ہونے سے بھی رہ جاتی ہیں۔ بعض اوقات پاکستانی چینلوں پر لوٹ مار اور بداعمالیوں کی رپورٹیں اتنی دلدوز اور المناک ہوتی ہیں کہ اُن کو سننے اور دیکھتے رہنے سے حساس لوگ پریشان و رنجیدہ ہو کر وہ چینل کو ہی تبدیل کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اِن واقعات کے حالات اِس قدر پریشان کن اور افسوس ناک ہوتے ہیں کہ اکثر ناظرین اُن کی تفصیل سنتے رہنے کی تاب نہیں رکھ سکتے۔
کے اہم منصب اور وزارتوں پر فائز ہوتے ہیں اور اقتدار چونکہ مختلف ادوار میں مختلف جماعتوں کے رہنماؤں کی کو حاصل رہتا ہے اس لئے وطن عزیز کے لوگ ان سب مقتدر یا سابق ایسے نمائندوں سے امید واثق رکھتے ہیں کہ وہ اپنا عملی کردار غیر آئینی اور غیر قانونی حرکات اور بدعنوانیوں سے حتی المقدور صاف اور پاک رکھیں گے تاکہ ہمارا وطن مذکورہ برائیوں اور خامیوں سے محفوظ کیا جائے۔ اقتدار کے حصول کی جدوجہد آئین و قانون، محنت دیانت اور صداقت کے مسلمہ اصولوں کے تحت کی جائے۔ حریف لوگوں کی بلا جواز کردار کشی، بدنامی اور مخالفت ذاتی دشمنی کی حد تک نہ کی جائے تاکہ ملکی معیشت پر حکومت ملک گیر سطح پر جلد بہتری کے اہداف حاصل کر سکے اور ملک خود انحصاری کا مقام حاصل کر سکے۔