آج کچھ کرکٹ کے بارے!
ہمارا بابا آدم ہی نرالا ہے۔ اول تو ہم کوئی کام کرتے ہی نہیں،اگر کر گذرتے ہیں تو اس میں ڈھنگ نہیں ہوتا،اس کے ساتھ ہمارے تمام ادارے بھی لاجواب ہیں، ان کے سربراہوں کا سلسلہ بھی عجیب ہے، اکثر آسمان سے نازل ہوتے ان کو مقرر پہلے کیا جاتا اور توثیق بعد میں کرائی جاتی ہے اور پھر وہ صاحب بھی کلی اختیار کے مالک بن کر سب فیصلے اپنی مرضی سے کرتے ہیں۔
پاکستان اپنے یہاں کے کھیلوں میں اہمیت کا حامل تھا، ہاکی، کشتی، کبڈی اور سکوائش جیسے کھیلوں میں دنیا میں اول پوزیشن تھی،جبکہ بدیشی کھیل کرکٹ کو اپنایا تو اس میں نام پیدا کیا،پھر زوال شروع ہوا تو سب کھیلوں کو باری باری دوسروں کے حوالے کرتے چلے گئے،ہاکی پر اس قدر زوال آیا کہ ہم کسی ٹورنامنٹ کے براہِ راست کھیلنے کے اہل نہ رہے،سکوائش کی بادشاہت چھن گئی،کشتی میں یورپین آگے بڑھ گئے۔یوں ہم آگے بڑھتے واپس آ گئے،پھر سنبھالا، اور اب حالات بہتر ہیں۔ہاکی کے نوجوان کھلاڑیوں نے خود کو منوا لیا،اب ضرورت اِس کھیل کی درست سرپرستی کی ہے اور یہ بھی کہ فیڈریشن والے راست پر رہیں اور ٹانگ کھینچ پروگرام کو معطل کر دیا جائے۔ سکوائش میں نوجوان نسل نے برتری ثابت کی تاہم کرکٹ جسے عروج ملا زوال پذیر ہو گئی،اِس کی شاید یہ وجہ ہو کہ اس میں پیسہ بہت ہے، کھلاڑیوں کو ملک کے لئے کھیلنے پر معاوضہ ملتا ہے تو وہ لیگز کھیل کر بھی بہت کماتے ہیں،یوں یہ کھلاڑی جلد امیر بھی ہو جاتے اور پھر آپے سے باہر ہو جاتے ہیں،جس کا نتیجہ ہم بھگت رہے ہیں۔
کرکٹ میں پیسے ہی کے کھیل کے باعث رال ٹپکتی ہے اور مختلف حضرات کے درمیان کشمکش ہوتی ہے،گروپنگ ہو چکی اور ہر گروپ کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ بورڈ کے اہم عہدوں پر براجمان ہو کر مفاد اٹھائے، لہٰذا سازش بھی اسی حوالے سے ہوتی، حالیہ ٹیم نے ٹی 20 ورلڈکپ میں جس ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کیا اس نے پوری قوم کو رُلا دیا تھا،اس ٹیم کی یہ ناقص کارکردگی سابق چیئرمین کے دور میں شروع ہو چکی تھی انہوں نے بورڈ کے اجلاس میں بات کرنے کی بجائے دبئی ہی میں کھلاڑیوں کو لتاڑ دیا اور کہا تھا کہ کھلاڑیوں میں گروپ بندی ہے اور بابر اعظم کا گروپ آٹھ اہم کھلاڑیوں پر مشتمل ہے۔ یہ کھلاڑی ایک کمپنی سے بھی روابط رکھتے ہیں جو کھلاڑیوں کو لیگز کے کنٹریکٹ دلاتی ہے، مسٹر ذکاء اشرف نے اس پر اکتفا نہ کیا، واپسی پر بابر اعظم سے کپتانی چھین لی اور شاہین آفریدی کو نیا کپتان بنا دیا،اس سے حالات بہتر تو نہ ہوئے،لیکن کھلاڑی کھیلنے پر مجبور تھے اور رہے،خیال تھا کہ حالات بہتر ہوں گے نہ ہو سکے۔ذکاء اشرف محترم کے فیصلے بھی یکطرفہ اور حقائق سے عاری تھے یوں گروپنگ تو ختم نہ ہوئی،بلکہ مزید بڑھ گئی۔پسند نہ پسند یہ تھی کہ انضمام الحق سے پھڈا ہو گیا اور اُن کی طرف سے ہتک عزت کا نوٹس بھیجنے کا اعلان کیا گیا اگرچہ تاحال کوئی دعویٰ دائر نہیں ہوا،اس اثناء میں ذکاء اشرف جیسے آئے ویسے چلے گئے اور ان کی جگہ محسن نقوی نے یہ منصب سنبھال لیا،ان کا انتخاب بھی اسی طرح ہوا کہ پہلے چیئرمین اور انتخاب بعد میں۔بہرحال اُس وقت ورلڈکپ سر پر تھا، تیاری ضروری تھی اور فہم و ادراک والی بات یہ تھی کہ کسی تبدیلی کے بغیر ٹیم کو بہتری پر مائل کیا جاتا اور قیادت کا معاملہ بعد پر اٹھا کر رکھ دیا جاتا،لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہوا،بلکہ ذاتی پسند کا برملا اظہار کر کے بابر کو پھر سے سفید بال کرکٹ کا کپتان بنا دیا یہ غیر مناسب قدم تھا اس سے شاہین آفریدی متاثر فریق کی وجہ سے دِل برداشتہ ہوئے تاہم ان کے سسر شاہد آفریدی چپ نہ رہے اور انہوں نے بہت کچھ کہہ ڈالا۔محسن نقوی صاحب نے بھی بہتری کی بہت باتیں کیں،لیکن عملی طور پر یہ سب جلد ہونے والا نہیں تھا،چنانچہ ٹیم تین مختلف گروپوں کے ساتھ گئی،شاہین آفریدی کو پسند کرنے والے تھے تو قیادت کے ایک اور امیدوار شاداب خان مایوس ہوئے اور ان کے ساتھ عماد وسیم شامل ہو گئے، ورلڈکپ میں ایک میچ عماد وسیم کی وجہ سے ہار گئے اور ایک میچ افتخار نے بزعم خود اوپننگ کر کے ہار دیا اور یوں ٹیم کے ورلڈکپ سے باہر ہونے کا معقول انتظام ہو گیا، قوم نے تو مایوس ہونا ہی تھا، چیئرمین بھی مضطرب ہوئے کہ وہ بلند و بانگ دعوے کرتے چلے آ رہے تھے تاہم ان کی پاور مضبوط اور جانے کی فکر نہیں،بلکہ وہ تو بڑے شاہین ہیں کہ نگران وزیراعلیٰ سے سینیٹر اور پھر اہم ترین وزارت داخلہ کے وزیر بھی بن گئے تھے ان کو کوئی فکر نہیں تھی، اسی لئے فیصلے بھی کئے اور نتیجہ ٹیم کی واپسی کی صورت میں ہوا اور اب میجر آپریشن کا اعلان کر کے لوگوں کو فارغ کرنا شروع کیا ہے، بظاہر سابقہ کھلاڑیوں سے تحفظات کے بغیر مشورہ کیا اور فیصلے اپنے نافذ کرنا شروع کر دیئے اور اس پر توجہ نہ دی کہ اختلاف کے کون کون سے پرانے اور نئے دروازے کھل گئے ہیں، اور کپتانی کی دوڑ شروع ہو گئی یوں بھی کارروائی کا انداز غیر مناسب ہے،وہاب ریاض اور عبدالرزاق لیجنڈ چیمپئن شپ میں مصروف ہیں کہ ان کو یہاں سے نکال باہر کیا گیا، حالانکہ بہتر عمل یہ ہوتا کہ وہ پہلے واپس آ جاتے اور ماضی کی طرح نئی سلیکشن کمیٹی کا اعلان ہوتا اور ان کے نام نہ ہوتے، ان دونوں کی عدم موجودگی میں یہ اقدام شکست کا بوجھ ان پر لادنے کا سبب بن گیا ہے حالانکہ پوری ٹیم اور انتظامیہ کو بُلا کر ایک ساتھ فیصلے کئے جاتے، نئی سلیکشن کمیٹی بنا کر اسے اختیار ہوتا، پھر جن کو پہلے فارغ کرنا تھا،ان کا تو انتظار کیا جا رہا ہے اور چھری وہاب اور ریاض پر پھر گئی ہے۔
مجھے کسی انتظامی معاملے سے کوئی غرض نہیں،میں بھی عام پاکستانیوں کی طرح ٹیم کی بہتری چاہتا ہوں کہ ملک کا نام روشن ہو،لیکن عرض کروں گا کہ اگر میرٹ پر عمل نہیں کرنا تو میرٹ کا نام نہ لیا جائے،میرے تحفظات کھلاڑیوں کی تلاش اور تربیت سے ہیں،بورڈ سے بہتر تو لاہور قلندر کا طریقہ کار جس نے کئی کھلاڑی ملکی کرکٹ کو دیئے۔لاہور قلندر نے تربیت کا فرض بھی ادا کیا،یہاں اکیڈمی تو ہے لیکن تربیت کا طریق ہی غلط ہے،پھر بورڈ کے اکاؤنٹس کا فرانزک آڈٹ ضروری ہے، جو بوجوہ نہیں ہو رہا اور اب موجودہ انتظامیہ نے بورڈ کا خزانہ ایسے خرچ کرنا شروع کیا کہ بورڈ بھی ہاکی فیڈریشن بن جائے گا۔وفاقی حکومت کو توجہ دینا ہو گی۔ہاکی، سکوائش اور پہلوانی سے کبڈی تک پر توجہ دینا اور معاونت کرنا ہو گی،جبکہ کرکٹ بورڈ کے تمام معاملات بھی دیکھنا اور ان پر نظر رکھنا ہو گی کہ عام لوگوں کے خیال میں ضرورت قذافی سٹڈیم کی حدود میں ہوٹل تعمیر کرنے کی تھی اور ہم نے بورڈ کی خوبصورت عمارت کو گرا کر نئی بنانا شروع کر دی ہے،حالانکہ پہلے سے موجود عمارت میں ترمیم کے ذریعے بہتر بنا کر بہت سرمایہ بچایا جا سکتا تھا۔