سپریم کورٹ کا شکریہ
سپریم کورٹ کا شکریہ کہ اس نے فروری 2008ء کے انتخابات کے بعد تشکیل پانے والی پارلیمنٹ کو مکمل کرنے میں اپنا کردار ادا کیا کیونکہ انتخابات کے بعد سے اب تک سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کا قضیہ چل رہا تھا جس کے سبب خیبرپختونخوا اسمبلی اور سینٹ مکمل نہیں تھیں اور یوں دنیا بھر کو ایک پیغام جا رہا تھا کہ پاکستان مسلسل سیاسی بحران کا شکار ہے اس لئے وہاں طویل المدت سرمایہ کاری نہیں ہونی چاہئے۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ یہ بھی بتاتا ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ نے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا ہے کہ عوام کی ایک بڑی تعداد نے پی ٹی آئی کو اپنا مینڈیٹ دیا ہے جس کو تسلیم کیا جانا ضرور ہے،چونکہ فروری کے انتخابات سے قبل اور بعد میں ہماری اسٹیبلشمنٹ کے اندر ایک مخصوص فضا موجود تھی جس کی بنا پر پی ٹی آئی کو اپنا وجود تسلیم کرانے میں دقت پیش آرہی تھی تاہم جس طرح خیبرپختونخوا کے عوام اور ان کے منتخب نمائندے عمران خان کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے رہے ہیں اس کا نتیجہ نکلا ہے آج سپریم نے Complete Justiceکا اصول اپناتے ہوئے پی ٹی آئی کو ایک سیاسی جماعت کے طور پر تسلیم کیا اور اس کے آئینی و قانونی حقوق کو یقینی بنایا ہے۔
سپریم کورٹ نے جمعہ کے روز مخصوص نشستوں کے معاملے پر اپنا فیصلہ سنایا۔ عدالت عظمیٰ کی جانب سے پانچ آرڈر شیٹس جاری کی گئیں۔سپریم کورٹ کے فیصلے میں جج صاحبان کے فیصلے 4 گروپوں میں تقسیم ہیں۔ آرڈر آف دی کورٹ کے نام سے جاری حکم نامہ عدالت کا مجموعی حکم ہے، جس میں شروع میں لکھا ہے سنی اتحاد کونسل کی اپیلوں کا فیصلہ 8 ججوں کی اکثریت نے کردیا ہے۔
دوسرا حکم نامہ 8 جج صاحبان کی طرف سے جاری ہوا، جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس جمال مندوخیل نے مل کر ایک الگ حکم نامہ جاری کیا، اس تیسرے حکم نامے میں بھی مخصوص نشستوں پر پی ٹی آئی کے حق سے انکار نہیں کیا گیا اور پی ٹی آئی کو پارلیمانی جماعت بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ تاہم یہ نشستیں بنا مانگے پی ٹی آئی کو دینے کی مخالفت کی گئی ہے،اس فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ کسی سیاسی جماعت کی سہولت کاری نہ کی جائے۔
جسٹس ییحیٰ آفریدی نے اپنا الگ فیصلہ دیا جس میں انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن تمام فریقین کو سن کر مخصوص نشستوں کا فیصلہ کرے، انہوں نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ الیکشن کمیشن کو واضح احکامات جاری کرنا قانونی طور پر مناسب نہیں ہو گا۔
باقی دو ججز، جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم اختر نے اپنا ایک الگ حکم نامہ لکھا جس میں انہوں نے اتنا لکھا کہ سنی اتحاد کونسل کی پٹیشنز مسترد کی جاتی ہیں اور پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا جاتا ہے۔
پہلے تین حکم ناموں میں پی ٹی آئی کو بطور سیاسی جماعت تسلیم کیا گیا۔ جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم اختر کے مختصر آرڈر میں اس پر بحث نہیں کی گئی۔تین حکم ناموں میں پی ٹی آئی کو نشستیں دینے پر اختلاف ہے۔ تاہم چوتھے حکم نامہ کو بنچ کی اکثریت نے تحریر کیا ہے پی ٹی آئی کو نشستیں دینے کے حوالے سے واضح احکامات دیتا ہوا اور اس ضمن میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے ایک لائحہ عمل بھی تجویز کرتا ہے جس پر آئندہ آنے والے دنوں میں عمل درآمد ہوگا۔
ملک کے سیاسی، قانونی اور صحافتی حلقوں میں ایک بحث یہ عام تھی کہ حکومت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی مدت ملازمت میں توسیع کا منصوبہ رکھتی ہے اور پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں نہ ملنے سے اسے آئین میں ترمیم کے لئے دو تہائی اکثریت بھی حاصل ہو گئی ہے اس لئے سپریم کورٹ کے فیصلے نے ایسے کسی بھی منصوبے کا راستہ بند کردیا ہے، حالانکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اس ضمن میں پہلے ہی اپنا ذہن دے چکے تھے کہ وہ اپنی مدت ملازمت میں توسیع کے طلب گار نہیں ہیں اور اس کی تصدیق اٹارنی جنرل آف پاکستان کے علاوہ موجودہ وزیر قانون بھی کر چکے ہیں۔ دراصل چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کا راستہ اپنایا ہے جن کی مدت ملازمت کے آخری دنوں میں پانامہ مقدمے نے سر اٹھایا تھا۔ تب ایڈووکیٹ نعیم بخاری تحریک انصاف کی وکالت پر مامور تھے اور ماضی کے مختلف عدالتی فیصلوں کے نان آپریٹو پیراگراف پڑھ پڑھ کر عدالت کو مطمئن کرنے کی کوشش میں تھے کہ پانامہ کا مقدمہ سپریم کورٹ کو براہ راست سننا چاہئے اور اس پر کوئی انکوائری کمیشن نہیں بننا چاہئے۔ تب جسٹس انور ظہیر جمالی نے بھی اس معاملے پر کوئی فیصلہ صادر کرنے سے گریز کرتے ہوئے ریٹائرمنٹ کو ترجیح دی تھی،ایسے جج صاحبان ہوتے ہیں جو کسی کھیل کا حصہ بننے کی بجائے اپنے کام سے کام رکھتے ہیں اور عہدوں سے چمٹے رہنے کے قائل نہیں ہوتے۔ چنانچہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تو 25اکتوبر کو ریٹائر ہو جائیں گے، ان کے بعد اصل امتحان جسٹس منصور علی شاہ کا شروع ہوگا جو موجودہ اکثریتی فیصلہ تحریر کر کے اس امتحان میں کسی حد تک پاس ہو گئے ہیں کیونکہ نون لیگی حلقوں کی جانب سے ان پر انگلیاں اٹھائی جانے لگی ہیں، کچھ کا کہنا ہے کہ ان سے مایوسی ہوئی ہے کیونکہ وہ تو صائب بات کرنے والے جج تھے۔تاہم اس ضمن میں مزید کچھ کہنے کا ہمیں یارا نہیں ہے، وہ جانیں اور وہ جانیں!
ہم تو ایک بات جانتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو پارلیمنٹ میں مثبت کردار ادا کرنے کے لئے ایک موقع فراہم کیا گیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے ’میں نہ مانوں‘ اسٹائل کو جاری رکھتی ہے یا پھر مفاہمت کے بادشاہ جناب آصف زرداری کا راستہ اپناتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کے ٹرک کو آگے گزرنے دیتی ہے۔ جہاں تک نون لیگ کا تعلق ہے تو وہ مریم نواز پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔