نیا بجٹ اور مہنگائی
مالی سال 2024-25ء کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا،کچھ بھی نیا نہیں لگا، وہی کچھ محسوس ہوا جو گزشتہ 77 برسوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے، وہی اپوزیشن کی نعرے بازی اور حکومت کے ماضی جیسے ہی دعوے اور وعدے کہ ’یہ کر دیا گیا‘ ’وہ کر دیا گیا‘ یا ’یہ کر دیا جائے گا‘ ’وہ کر دیا جائے گا‘ ’فلاں چیز کی قیمت کم کر دی گئی ہے‘ ’فلاں کے نرخ بڑھا دیے گئے ہیں‘ ’فلاں ٹیکس لگا دیا گیا ہے‘ ’فلاں ٹیکس پر دی گئی چھوٹ ختم کر دی گئی ہے‘ ’فلاں شعبے کو ٹیکس والے شعبے میں شامل کر لیا گیا ہے‘ ’فلاں کو ٹیکس فری قرار دے دیا گیا ہے‘ سچ بتائیے ہر بجٹ ایک جیسا ہی نہیں ہوتا؟ ایسا ہی نہیں ہوتا جیسا میں نے بیان کیا ہے؟
بجٹ میں گریڈ ایک تا سولہ کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 25فیصد اضافے کی تجویز دی گئی ہے۔ مہنگائی کی موجودہ صورتحال کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ ایک معقول اضافہ ہے، اگر حکومت مہنگائی کو مزید کنٹرول کرے اور وعدے کے مطابق اسے سنگل ڈیجٹ میں لے آئے تو اس سے لوگوں‘ خصوصی طور پر تنخواہ دار طبقے کو اچھا خاصا ریلیف ملے گا۔ اسی طرح پنشنوں میں 22 فیصد اضافہ بھی ایک معقول فیصلہ ہے۔ اس سے ان لوگوں کو کچھ حوصلہ ملے گا جن کی گزر بسر پنشن کی رقم پر ہے۔ بجٹ میں کم سے کم ماہانہ تنخواہ یا معاوضہ 32 ہزار روپے سے بڑھا کر 37 ہزار روپے کر دیا گیا ہے۔ یہ اگرچہ ایک اچھا فیصلہ ہے لیکن ضروری ہے کہ اس پر عمل درآمد کو یقینی بھی بنایا جائے‘ کیونکہ جب بیروزگاری بڑھتی ہے تو لوگ اس سے کم معاوضے پر بھی کام کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں اور سرمایہ دار اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے سولر پینلز کے خام مال کی درآمد پر رعایت کا اعلان خوش آئند ہے۔ اس سے سولر انرجی کے سیٹ اپ لگانے کے عمل کی حوصلہ افزائی ہو گی‘ جو وقت کی ضرورت بھی ہے۔ اس سے توانائی کے بحران پر قابو پانے میں مدد ملے گی اور جو لوگ سولر پینل لگا لیں گے ان کو آئی پی پیز کی مہنگی بجلی سے نجات مل جائے گی، لیکن اس کے ساتھ حکومت کو اس بات کا اعلان بھی کرنا چاہئے کہ سولر سیٹ اپ پر فکسڈ ٹیکس عائد نہیں کیا جائے گا، کیونکہ جب سے یہ خبر سامنے آئی ہے کہ سولر سیٹ اپ پر ٹیکس عائد کرنے کے بارے میں سوچا جا رہا ہے‘ اس سیکٹر میں مایوسی پیدا ہو گئی ہے۔ اسی طرح یہ خبر بھی عوام نے افسوس کے جذبات کے ساتھ پڑھی اور سنی کہ طاقت ور شعبوں کو فراہم کی جانے والی ٹیکس استثنا کی مقدار ہر سال بڑھتی جا رہی ہے اور مالی سال 2023-24ء میں یہ لاگت تین اعشاریہ نو ٹریلین یعنی 3900 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے‘ جو پچھلے سال میں 2.23 ٹریلین روپے تھی۔ اس طرح ٹیکس استثنا میں 27 فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا۔ 62.881 ٹریلین روپے (223.86 بلین ڈالر) قرضوں کی دلدل میں دھنسے ہوئے ملک میں جہاں کل آبادی کا 40 فیصد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہا ہو‘ ملک کی متمول اور با وسائل آبادی پر یہ عنایت سمجھ سے بالاتر ہے،جو سبسڈی عوام کو ملنی چاہئے تھی تاکہ ان کے لئے بڑھتی ہوئی مہنگائی خصوصاً کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کی رجحان کو برداشت کرنا ممکن ہو چکے، وہ اس طبقے کے منہ میں ڈالی جا رہی ہے جو پہلے ہی باوسائل ہے۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کے انکم ٹیکس میں اضافہ کر دیا گیا ہے، یعنی ایک طرف تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا ہے اور دوسری جانب ٹیکس کی شرح بڑھا دی گئی ہے۔ بجائے اس کے لئے ان لوگوں پر ٹیکس لگایا جائے جو روزانہ لاکھوں کماتے ہیں، بار بار اسی طبقے پر بوجھ بڑھایا جاتا ہے،جو پہلے سے ہی ٹیکس دے رہا ہے۔ وفاقی بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں تو اضافہ کیا گیا ہے تاہم نجی شعبے کے ملازمین کی تنخواہیں بڑھنے کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ ماضی میں بھی یہی کچھ ہوتا رہا ہے۔ کیا نجی شعبے کے ملازمین کے لئے مہنگائی نہیں بڑھتی؟ کیا ان کے ساتھ پیٹ نہیں لگے ہوئے؟ شاید اسی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف نے وفاقی بجٹ 2024-25ء کو زہرِ قاتل بجٹ کا نام دے دیا۔ پی ٹی آئی کے مطابق وفاقی بجٹ تضادات کا مجموعہ ہے۔ اس پارٹی کا کہنا ہے کہ بجٹ عوام، روزگار اور معاشی ترقی کے خلاف ہے، حالیہ بجٹ آئی ایم ایف کا بجٹ ہے جس میں حکومت کی کوئی منشا شامل نہیں، چونکہ جگہ کی کمی پیش نظر ہے اس لیے مختصر ترین الفاظ میں بجٹ کو درج ذیل سطور میں سمویا جا سکتا ہے:
بجٹ کا مجموعی حجم 188 کھرب روپے سے زائد ہے۔ گریڈ 1 تا16 کے سرکاری ملازمین کے لئے تنخواہوں میں 25 فیصد اضافہ کیا گیا جبکہ گریڈ 17 سے 22 کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 22 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ سرکاری ملازمین کی پنشن میں 22 فیصد اضافے کی تجویز سامنے آئی ہے۔ ٹیکس ریونیو کا ٹارگٹ 12970 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے۔ سکوک بانڈ، پی آئی بی اور ٹی بلز سے 5142 ارب روپے کا ریونیو اکٹھا کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ دفاع کے لئے 2122 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ سود کی ادائیگیوں کے لئے 9775 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ سبسڈی کی مد میں 1363 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ وفاقی ترقیاتی بجٹ کے لئے 1400 ارب روپے ، انجن کپیسٹی کے بجائے گاڑی کی قیمت کی بنیاد پر ٹیکس لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ موبائل فونز پر یکساں ٹیکس عائد کرنے کی تجویز سامنے آئی ہے‘ جبکہ ہائبرڈ اور لگژری الیکٹرک گاڑیوں کی درآمد پر دی جانے والی رعایت ختم کی جا رہی ہے۔
اب اس بجٹ کے ملک کی معیشت پر اور عوام پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں، یہ تو آنے والے مہینے ہی بتائیں گے، لیکن جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ ملک اور قوم کے ہر فرد پر قرضہ چڑھا ہوا ہے اور ہمیں آئی ایم ایف سے بار بار بیل آؤٹ پیکیج لینا پڑ رہے ہیں، عالمی اقتصادی ادارے کی شرائط کے تحت نئے ٹیکس لگانے پڑ رہے ہیں اور چیزیں مہنگی کرنا پڑ رہی ہیں تو سوچتا ہوں کہ حالات کو اس نہج تک پہنچانے کا ذمہ دار کون ہے؟ جب بھی پورا بجٹ یا منی بجٹ آتا ہے تو ایسے ہی خیالات ذہن میں آنے لگتے ہیں، سو اب بھی آ رہے ہیں۔