بیلی رضا حمید وی سانوں چھڈ گیا جے!
بابوں کا فرمانا تھا ”دشمن مرے تے خوشی نہ کریئے، سجناں وی مر جانا“ یہ تو بہت بڑی حقیقت ہے،اس پر عمل بھی کرنا چاہئے،لیکن سجناں کی پکی جدائی کے حوالے سے بابوں نے یہ کہہ کر ہی کنارہ کر لیا، ”جا سجناں حوالے رب دے“ اور میں نے منگل کی سہ پہر اپنے بیلی کو رب ہی کے حوالے کر دیا، میرا پرانا ساتھی رضا حمید بھی ہمیں چھوڑ کر چلا گیا۔روزنامہ ”امروز“ میں ہم سب کا جو وقت گذرا وہ ایسا یاد گار ہے کہ بھلائے نہیں بھول سکتا،اس اخبار میں گو رنگ برنگے حضرات تھے لیکن سینئر کا طے کیا گیا ماحول ایسا تھا کہ ماسوا کام کے باقی ہر معاملے میں ماحول دوستانہ تھا، میں ایک دو بار عرض کر چکا ہوں کہ میرا صحافتی کردار1963ء میں روزنامہ ”امروز“ مرحوم ہی سے شروع ہوا تھا۔ اس ادارے میں جو میاں افتخار الدین(مرحوم) نے قائم کیا تھا، روزنامہ ”پاکستان ٹائمز“ اور ماہنامہ ”لیل و نہار“ بھی تھے۔ میں جب اس ادارے کی ٹیم میں شامل ہوا تو یہ ایوبی دور تھا اور ایوب خان کے جنرل مجیب الرحمن کی ”مہربانی“ سے ادارہ بھی نیشنل پریس ٹرسٹ کا حصہ بن چکا تھا اور اس وقت ایڈیٹر ظہیر بابر تھے۔مجھے عبداللہ ملک، سید اکمل علیمی، حمید جہلمی اور احمد بشیر جیسے ادیبوں اور صحافیوں کے زیر سایہ کام کا اعزاز حاصل ہوا، اس ادارے کا ماحول اتنا دوستانہ تھا کہ بڑے چھوٹے حضرات محفل میں بے تکلف شریک ہوتے۔ ایک بار امروز کے چیف فوٹو گرافر خواجہ عبدالقیوم کی رہائش پر محفل تھی،میں ان دِنوں سگریٹ پیتا تھا لیکن احترام کے باعث استاد محترم سید اکمل علیمی اور ظہیر بابر وغیرہ کی موجودگی میں پرہیز کرتا تھا، اس محفل میں گریز پا تھا کہ عبداللہ ملک کو احساس ہوا وہ سگریٹ نوش نہیں تھے لیکن کبھی کبھار شوق فرما لیتے تھے،ان کی طرف سگریٹ کا پیکٹ آیا تو انہوں نے سگریٹ سلگا کر میری طرف بڑھادیا،جب میں ہچکچایا تو انہوں نے ایک بہت ہی سخت بات کہہ کر مجھے سگریٹ سلگانے پر مجبور کر دیا اور کہا کہ اکمل ہے تو پھر کیا ہوا۔
یہ تو ماحول کی عکاسی کے لئے عرض کیا کہ ایسے ہی ماحول میں ہم رپورٹروں کے ساتھ رضا حمید بھی شامل ہوا تھا وہ کھیلوں کا رسیا اور ماہر بھی تھا ابھی گزشتہ روز اسلم ملک نے ایک طویل پوسٹ میں ذکر کیا ہے کہ رضا کس محافل میں شریک رہتا تھا، پرانی انار کلی والی محفل میں مجھے بھی کئی بار شرکت کا موقع ملا اور دوستوں میں اضافہ بھی ہوا۔رضا کی آمد سے قبل میں کرکٹ کی کوریج کر لیا کرتا تھا تاہم اس کے آنے کے بعد کھیلوں کی ذمہ داری اس کے سپرد ہو گئی اور پھر اس نے اس بیٹ اور فیلڈ میں ایسا نام کمایاکہ استاد مانا گیا، ہم رپورٹر حضرات بھی محفل جماتے اور عموماً یہ لکشمی چوک میں بھیا ٹکیوں والے کی دکان کے باہر جمتی یا پھر کبھی کبھار تنویر زیدی،عالم نسیم اور دوسرے اخبارات کے کرائمز رپورٹر مزنگ چونگی(قرطبہ) چوک میں بیٹھتے اور پراٹھے آملیٹ چاء سے شغل صبح تک جاری رہتا، میں اور رضا حمید اس محفل میں کبھی کبھار ہی شریک ہوتے تھے تاہم دفتر اور لکشمی چوک کا ساتھ مسلسل جاری رہتا۔
ہم سب کا تعلق مرتے دم تک رہا، اب میں یہ عرض کرنے سے گریز کروں گا کہ اس ادارے کی وابستگی اور تعلق والے کتنے لوگ باقی ہیں،انگلیوں پرگنے جا سکتے ہیں لیکن میں ان کے نام نہیں لوں گا کہ کہیں فرشتہ اجل کو ان میں سے کسی کا نام یاد ہی نہ آ جائے، باقی جو بچے۔اگرچہ تیار ہیں،لیکن دُعا ہے کہ ان کو اللہ طویل عمر عطاء کرے۔ امروز کے بابوں میں سے بھی بہت لوگ یاد ہیں، تاہم رپورٹنگ میں ساتھ ہوتے دوستیاں مختلف تھیں۔رضا حمید اپنی وضع کا خود ہی تھا، نرم لہجے میں گفتگو کا عادی تھا اور فقرہ چست کرنے میں بھی ماہر تھا۔حالیہ دِنوں میں میرا اور اس کا رابطہ فون اور ایپ پر رہتا تھا اور اس کے دلچسپ تبصرے محظوظ کرتے تھے۔رضا حمید پر اللہ نے کرم کیا اُس کے دونوں صاحبزادے بروقت سیٹ ہوگئے، چھوٹا بیٹا یو اے ای میں ہے اور رضا اس کے پاس بھی ہو آتا تھا اور پھر آ کر وہاں کے اصول کا بھی ذکر کرتا،جب رضا کے بڑے صاحبزادے نے ہاؤس بلڈنگز فنانس کارپوریشن سوسائٹی (ڈیفنس) میں اپنا گھر بنایا تو اس نے اس گھر کی تصایر بڑے فخر سے شیئر کی تھیں وہ اکثر وہاں بھی دن گزارتا تھا اگرچہ اہلیہ کے ساتھ ٹمپل روڈ پر رہتا اس علاقے سے اُسے یوں بھی لگاؤ تھا کہ یہاں وارث روڈ تالاب کے عقب میں وہ گراؤنڈ ہے جہاں رضا کی کوشش سے لدھیانہ جمخانہ (کرکٹ)کلب کا قیام عمل میں آیا وہ اس کا بانی تھا اور دلچسپی بھی لیتا تھا۔
حالیہ دِنوں میں دو چار ماہ پہلے وہ میرے دفتر بھی آیا اور دیر تک ہم ماضی میں کھوئے رہے،میں نے اُس سے پوچھا کہ واپسی کے لئے سواری ہے یا میں انتظام کروں تو اس نے بڑے فخر و عجز سے بتایا کہ وہ گاڑی پر آیا ہے جو اُس کے بڑے صاحبزادے کی ہے، اب اسلم ملک نے اس کا جو راز فاش کیا ہے تو اس نے مجھے بھی نہیں بتایا تھا صرف یہی کہا کہ بیمار رہا ہوں، لیکن اس پوسٹ سے معلوم ہوا کہ وہ پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلاہوا اور صحت یاب بھی ہو گیا تھا، لیکن موت سے کس کو رستگاری ہے۔ آج اس کی اور کل میری باری ہے،ہمارے پرانے ساتھیوں میں نواب جاوید یوسف بھی ہیں۔انہوں نے میرے بعد کورٹس رپورٹنگ میں اپنا سکہ جمایا تھا۔ وہ اکثر فون پر بات کر لیتے ہیں،یوں تو وہ امروز کے بعد نوائے وقت میں چلے گئے تھے اور میں روزنامہ ”پاکستان“ میں آ گیا کہ پی پی ایل (امروز+پاکستان ٹائمز) ہمارے اشرافیہ والے رہنماؤں نے بند کر دیا تھا اور سینکڑوں لوگ بے روزگارہوئے۔ان میں سے میرے سمیت کئی حضرات پھر سے صحافتی پیشے سے وابستہ ہوگئے تھے۔ رضا سے آخری دِنوں تک رابطہ رہا، سب کا ذکر ہوتا تو نواب جاوید یوسف کے فون کی بات ہوتی، اگلی بات رضا بتاتا کہ اس کی نواب صاحب سے بات ہو گئی تھی۔
میں اپنے دفتر میں مصروف تھا کہ فیس بُک پر زاہد مقصود کی پوسٹ پر نظر پڑی اس میں رضا کی وفات کی اطلاع دی گئی تھی لیکن یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ جنازہ کہاں سے اُٹھے گا اور نمازِ مغفرت کہاں ہو گی،میں نے اسی پوسٹ کے حوالے سے زاہد مقصود سے پوچھا تو انہوں نے بتا دیا کہ نمازِ عصر کے بعد ہاؤس بلڈنگز فنانس کارپوریشن سوسائٹی میں اُن کے صاحبزادے کے گھر ہو گا۔میں نے اپنے صاحبزادے عاصم چودھری کے تعاون سے سواری کا انتظام کیا اور پھر الوداع کہنے دوڑ پڑا،جگہ اور لوکیشن کا علم نہیں تھا اس لئے ڈیفنس پہنچ کر اپنے بھائیوں عبدل محسن اور محمد الیاس کے تعاون سے بروقت سوسائٹی کی مسجد تک پہنچ گئے اور صاحبزادے سے تعزیت بھی کر لی۔اس کے دفتر کے بہت لوگ محلے دار اور رشتہ دار بھاری تعداد میں شریک ہوئے۔مجھے ایک بات کا افسوس رہے گا کہ مرحوم کا آبائی گھر سے آخری سفرشروع ہوتا تو وارث روڈ تالاب والی گراؤنڈ میں تل دھرنے کہ جگہ نہ ہوتی۔بہرحال دُکھی دِل سے بیلی کو اللہ کے حوالے کیا اور یادے لے کر واپس آ گیا، اللہ اُس کی مغفرت فرمائے اور اُسے جنت میں اعلیٰ مقام عطاء فرمائے۔
٭٭٭٭٭