سموگ جان کا روگ

  سموگ جان کا روگ
  سموگ جان کا روگ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 ایک طرف میں نے کمشنر ملتان مریم خان کے فیس بک پیچ پر ایک پوسٹ دیکھی جس میں وہ ڈپٹی کمشنر اور سی پی او کے ساتھ ایک مضافاتی علاقے میں اینٹوں کے بھٹوں کا معائنہ کررہی ہیں، جن کی چمنیوں سے دھواں نکل رہا ہے۔ دوسری طرف میرے ایک دوست ہمایوں سعید نے مجھے ملتان کی گنجان آباد سڑک وہاڑی روڈ پر چلتی سرکاری ویڈا بس کی ایک ویڈیو بھیجی جس کی پشت سے نکلتا کالا زہریلا دھواں پورے ماحول کو آلودہ کررہا تھا۔ ہمایوں سعید روزانہ ہی ایسی ویڈیوز سوشل میڈیا پر لگاکے کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور ایس پی ٹریفک کو متوجہ کرتے ہیں کہ وہ آلودگی پھیلانے کے باعث بننے والے اس سب سے بڑے ذریعے کو روکیں مگر کوئی ان کی نہیں سنتا۔ یہ دونوں پوسٹیں دیکھ کر میں سوچنے لگا اینٹوں کے بھٹے کی چمنی تو بہت اونچی ہوتی ہے۔ اس کا دھواں اوپر ہی کہیں نکل جاتا ہے مگر یہ جو دھواں چھوڑتی گاڑیاں سڑکوں پر رواں دواں ہیں ان کا دھواں تو براہ راست راہ گیروں اور دکانداروں، گاہکوں کے سانس کا حصہ بن کر ان کے اندر اتر جاتا ہے، اس کا علاج کیوں نہیں ہوتا اس میں آخر کیا ممانعت ہے۔ اسی دوران میں نے دیکھا وزیر دفاع خواجہ آصف کے ایک ٹویٹ بارے ٹی وی پر رپورٹ چل رہی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے بیورو کریسی نے ہمیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے۔ سارا زور اس پر دیتے ہیں کہ فصلوں کی باقیات جلانے سے سموگ پھیلتی ہے۔ کبھی یہ کہا جاتا ہے بھارت سے سموگ آتی ہے۔ اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتے۔ ہائیکورٹ نے دکانیں آٹھ بجے بند کرنے کا کہا ہے، تاجر بات نہیں مانتے اور افسر اس حکم پر تاجروں کے ڈر سے عمل نہیں کراتے۔ سب مصلحتوں کا شکار ہیں اور لوگ سموگ کا عذاب بھگت رہے ہیں۔ اب اس پر بھی تنقید کی جا رہی ہے۔ وزیراعلیٰ مریم نواز اور چیف سیکرٹری زاہد زمان اختر اس موقع پر بیرون ملک کیوں چلے گئے جب پنجاب میں سموگ کا راج ہے۔اعتراض بجا ہے مگر سوال یہ ہے وہ ملک میں ہوتے بھی تو کیا ہوتا۔ میٹنگیں ہوتیں، وہی گھسے پٹے فیصلے کئے جاتے جن کا سموگ پر دور دور تک کوئی اثر نہیں ہوتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے ابھی تک سنجیدگی سے اس مسئلے کا حل ڈھونڈا ہی نہیں۔ نہ تو یہ سیاسی مسئلہ ہے اور نہ خالصتاً انتظامی۔ یہ ایک سائنسی مسئلہ ہے جسے ویسے ہی اقدامات سے حل کیا جا سکتا ہے جیسے برطانیہ نے اس وقت کئے تھے جب سموگ پہلی بار منظر عام پر آئی تھی۔ اب ظاہر ہے اس قسم کی ہمارے پاس استطاعت ہے اور نہ مہارت، بس ٹامک ٹوئیاں ہیں جو ہم مارے جا رہے ہیں تاوقتیکہ یہ موسم گزر جائے اور حالات خود بخود نارمل ہو جائیں۔ وزیراعلیٰ مریم نواز نے لندن پہنچ کر کہا ہے پنجاب میں سموگ کا مسئلہ اگلے چار پانچ برسوں میں حل کرلیں گے۔اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا، اُدھر بلاول بھٹو زرداری نے بھی سموگ پر سیاست کرتے ہوئے کہا ہے سموگ سے پریشان شہری کراچی منتقل ہو جائیں۔ کہہ تو وہ ایسے رہے ہیں جیسے شہریوں کی رہائش اور کھانے پینے کا انتظام سندھ حکومت کرے گی۔ غرض اس وقت سموگ آئینی ترامیم سے بھی بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے مگر کسی کے پاس بھی حل ندارد ہے۔ لاہور کے شہریوں کو ایسی پوسٹیں پریشان کررہی ہیں جن میں بتایا جا رہا ہے کہ لاہور میں ایک سال رہنے سے سات سال عمر کم ہو جائے گی۔

سموگ ملتان میں بھی ہے اور کافی بڑے انڈیکس کے ساتھ موجود ہے تاہم اس کی شدت ویسی نہیں جیسی لاہور میں ہے۔ میرے بھتیجے ریاض صفدر کل لاہور سے آئے تو پوچھ رہے تھے آنکھوں کا اچھا ڈاکٹر کون سا ہے۔ انہوں نے بتایا لاہور سے نکلتے ہوئے وہ ایک کام سے فیروزپور روڈ پر رکے۔ صرف تین منٹ گاڑی سے باہر رہے تو آنکھوں میں جیسے کسی نے مرچیں ڈال دی ہوں۔ فوراً گاڑی میں بیٹھ کر گیلا رومال آنکھوں پر رکھا اور ڈرائیور کو گاڑی چلانے کا کہا تاکہ جلد سے جلد لاہور کی حدود سے نکل جائیں۔ ان کی بات سن کر میں حیران ہوا۔ سموگ تو ملتان میں بھی ہے لیکن آنکھوں کو اس طرح نقصان نہیں پہنچاتی۔ ہر صبح ہم واک کرتے ہیں، ماسک لگاتے ہیں مگر آنکھوں کو ڈھانپنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ اس کا مطلب یہ ہے لاہور میں جو سموگ ہے اس کی شدت کچھ اور ہے اس بات کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ اس آلودگی میں آخر اور کیا کچھ مل گیا ہے، جس نے سانس کے ساتھ ساتھ آنکھوں کے لئے بھی آگ بھر دی ہے۔ ہر سال مسئلہ آتا ہے تو اقدامات بس اس حد تک ہوتے ہیں کہ تعلیمی اداروں کو بند کر دیا جاتا ہے۔ یہ ایک آسان سا اقدام ہے سو اٹھا کر سرخرو ہو جاتے ہیں۔ اس سے سموگ کم ہوتی ہے اور نہ مستقبل میں اس کے تدارک کا کوئی راستہ نکلتا ہے۔ کل ہائیکورٹ میں اس پر سماعت ہو رہی تھی تو بات شادیوں پر پابندی لگانے تک چلی گئی۔ اکتوبر، نومبر اور دسمبر میں شادیاں نہ کرنے کا حکم دینے کی اپیل کی گئی۔کسی نے نہیں سوچا کہ موسمی لحاظ سے یہی مہینے ہوتے ہیں جن میں شادیاں کی جاتی ہیں۔ باقی گرمی کے مہینوں میں شادیاں رکھی نہیں جاتیں اور پھر درمیان میں ماہ رمضان اور محرم کے مہینے بھی آجاتے ہیں۔ ایسے اقدامات سے سموگ کیسے کم ہو گی۔ کوئی اس کا فارمولا بھی بتایا جائے۔ سیانے بہت پہلے کہہ گئے ہیں پرہیز علاج سے بہتر ہے۔ جب معلوم ہے کہ ہر سال نومبر میں یہ سموگ کا مسئلہ آتا ہے تو آلودگی سے بچاؤ کی مہم ستمبر میں اکتوبر میں کیوں شروع نہیں کی جاتی۔ بھٹوں کو بند کرنا ہے تو ان مہینوں میں بند کیا جائے۔ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف آپریشن شروع کیا جائے تاہم یہ بھی شاید ناکافی اقدامات ہوں گے۔ بلاول بھٹو زرداری کا بیان پڑھ کر میری بیٹی نے پوچھا آخر کراچی میں سموگ کیوں نہیں ہوتی۔وہ تو بڑا صنعتی شہر ہے، اینٹوں کے بھٹے بھی ہیں، گاڑیاں بھی لاہور سے زیادہ ہین اور ناکارہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں بھی کم نہیں، اس کے باوجود وہاں آسمان صاف نظر آتا ہے۔ سچی بات ہے اس کی اس سوال پر میں لاجواب ہو گیا، البتہ مجھے ایک بات سمجھ آئی کہ کراچی کے پاس سمندر ہے جن شہروں کے اردگرد دریا، سمندر، باغات اور کھیت کھلیان ہوتے ہیں، وہاں یہ سموگ حملہ آور نہیں ہوتی۔ بدقسمتی سے لاہور ہویا ملتان ہم نے ان شہروں کے چاروں طرف جو باغات تھے ان کا صفایا کر دیا ہے۔ یہ اب اینٹوں اور سیمنٹ کے شہر بن گئے ہیں۔یہی لاہور تھا کسی نے کبھی یہاں سموگ کا نام تک نہیں سنا تھا۔ یہی ملتان تھا، سردی اور گرمی کے سوا کوئی موسم اترتا نہیں تھا۔ اب سردی کو سموگ کھا گئی ہے اور گرمی میں اتنی شدید گرمی پڑتی ہے کہ جیسے سورج زمین پر آ گیا ہو۔

مزید :

رائے -کالم -