”صاحب جی! گاڑی میں ٹول بکساہوناچاہیے“
ایک خوش اخلاق افسر کو پنجاب کے طویل ترین صحرا کے انتظام وانصرام کے لئے بنائے گئے ادارہ میں ایک اہم عہدہ پر فائز کیاگیا۔ افسر کو تھوڑے عرصہ بعد دورہ کرنے کی ضرورت پیش آئی۔صحرا وسیع و عریض تھا۔ اکثرمقامات پرکوئی موبائل نیٹ ورک موجود نہ تھا۔ آبادی بہت تھوڑی تھی۔ صاحب نے ڈرائیور کوہدایت کی کہ سفر کی تمام تیاریاں مکمل کرلے۔ ڈرائیور نے خوردونوش کا وافرسامان گاڑی میں بھرلیا۔سفر بخیر و خوبی جاری تھا کہ ایک جگہ گاڑی نے آگے بڑھنے سے انکار کردیا۔ صاحب اورڈرائیور نیچے اترآئے۔ صاحب علاقے کی وسعت پرحیران ہورہے تھے۔ ڈرائیور بھائی قمیض اتار کرگاڑی کے نیچے گھس گئے۔ کافی دیر بعد برآمد ہوئے۔ گاڑی کی تسلی بخش طریقے سے تلاشی لی اورکہنے لگے”صاحب جی! گاڑی میں ٹول بکسا ہونا چاہیئے“۔ صاحب نے دھیمے لہجے میں پوچھا ”آپ کب سے اس گاڑی کی ڈرائیونگ کررہے ہیں“۔ انتہائی فخریہ لہجے میں جواب ملا ”دس سال سے زیادہ ہوگئے ہیں جی“۔ صاحب ڈرائیور کے تجربے کے قائل ہو گئے۔ پہلے اپنا چہرہ آسمان کی طرف اُٹھایا۔ شاید شکر ادا کررہے ہوں گے۔ پھر ڈرائیور کی طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے ”آپ نے بالکل صحیح نشاندہی کی،گاڑی میں ٹول بکسا ہونا چا ہیئے“۔
اس کے بعد صاحب پرحال طاری ہو گیا جوکہ بعض اوقات لگتا ہے تاحال طاری ہے۔وہ ابھی بھی اپنے دفتر بیٹھے اچانک کہہ اُٹھتے ہیں ”گاڑی میں ٹول بکسا ہوناچاہیئے“۔ایک شریف النفس انسان ایم بی بی ایس ڈاکٹرتھے۔وہ نفسیاتی امراض میں ایک ڈپلومہ بھی کرچکے تھے لیکن ملازمت یا کلینک نہیں کرتے تھے۔ دوستوں کومفت طبی مشورے دیتے رہتے تھے۔ چھوٹی موٹی بیماریوں کا اچھا علاج کرلیتے تھے۔ دوست اُن سے مطمئن اور خوش تھے۔ ایک دن ایک نئے دوست نے اپنا ایک طبی مسئلہ ان کے سامنے پیش کیا۔ مسئلہ بنیادی نوعیت کا تھا۔معمولی علاج سے ٹھیک ہو سکتاتھا۔ مریض مگر انتہائی پریشان تھا۔ ہمارے ڈاکٹر صاحب کئی گھنٹے تحمل سے اپنے بیماردوست کی بات سنتے رہے اور تسلی دینے کی پوری کوشش کرتے رہے۔ مریض بھائی مگر کسی طرح مطمئن نہ ہوئے اور طویل گفت وشنید کے بعدمدبرانہ لہجے میں کہنے لگے ”میرا خیال ہے ہمیں کسی ڈاکٹر سے مشورہ کرناچاہیئے“۔ ہمارے ڈاکٹر صاحب نے آسمان کی طرف دیکھا پھر اپنے دوست سے کہنے لگے ”آپ بالکل بجا فرما رہے ہیں۔آپ کو شایدابھی اتنی ضرورت نہ ہو، مجھے بہرحال کسی سینئرڈاکٹر سے ضرور مشورہ کرنا چاہیئے ورنہ میری ذہنی حالت مزیدنازک ہوجائے گی“۔ہمارے ایک دوست عرصہ دراز سے بیرو ن ملک ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازم تھے۔
وہ اپنے وطن کی ایک شخصیت سے بہت متاثر تھے۔ سوشل میڈیا پر ان کی تقاریر اوراصلاحی گفتگوسنتے رہتے تھے۔کمپنی کی طرف سے اُن کو اپنے ملک میں واقع برانچ آفس میں ایک اہم ذمہ داری سونپی گئی۔ وہ وطن آئے اور ملازمین کی تربیت شروع کردی۔ انہیں خیال آیا کہ ملازمین کواپنی پسندیدہ شخصیت سے بھی ایک لیکچردلوانا چاہیئے تاکہ ان کی کردار سازی ہوسکے۔شخصیت سے رابطہ کیاگیا تو انہوں نے ایک گھنٹے کے لیکچر کامعاوضہ کافی بھاری بتایا۔ کوشش کی گئی وہ کچھ کم پیسوں میں مان جائیں، مگرانہوں نے اپنامعاوضہ کم کرنے سے انکار کردیا۔یہ بھی اصرار کیا کہ انہیں رقم پہلے اداکردی جائے۔ معتقد نے بتانے کی کوشش کی کہ ادارے کی پالیسی کے مطابق معاوضہ کی ادائیگی لیکچرکے فوراً بعد کر دی جا ئے گی۔ پسندیدہ شخصیت نے اپنے موقف سے انحراف کرنا پسند نہ کیا۔ ہمارے دوست نے اپنی گرہ سے ادائیگی کردی۔مقررہ تاریخ پرمقرر تشریف لائے اور ملازمین سے خطاب کی ابتدا کچھ اس طرح سے کی”پیسے کی ہوس سے بڑی لعنت کوئی نہیں ہے۔آپ نے زندگی میں پہلی اہمیت لوگوں کی فلاح اور اپنے کردار کو دینی ہے۔ پیسہ آتا جاتا رہتا ہے۔ پیسے کی پرواہ نہیں کر نی“۔ ہمارے دوست پہلے اُن سے متاثر تھے اب متاثر زدہ ہوگئے، بلکہ کچھ عرصہ تو متاثرین میں شامل رہے۔
ایک ضلع میں ایک انتہائی اہم محکمہ کے سربراہ ایک ایسے صاحب بن گئے،جوکافی عرصہ بیرون ملک رہے تھے۔ وہ وقت کی پابندی کے عادی تھے۔ عین وقت پر دفتر آتے تھے۔دفتر کے باقی لوگ پا بندیِ وقت کواتنی اہمیت نہیں دیتے تھے۔اُن کے ایک سٹاف افسر گریڈ میں ان کے برابرتھے مگرایک سال جونیئرتھے۔وہ بھی دفترلیٹ آتے تھے۔ ہمارے سربراہ کو دفتر کے لوگوں کامعمول بہت بُرا لگتاتھا۔وہ کچھ دن خاموش رہے۔ایک دن اس بابت ایک اجلاس بلایا۔ تمام لوگوں کو بلایا گیا۔ انہوں نے میٹنگ کی کارروائی شروع کی اور ابھی میٹنگ کے اغراض و مقاصد بتانے ہی لگے تھے کہ اجلاس کی کارروائی سٹاف افسرصاحب نے اپنے ہاتھ بلکہ اپنی زبان میں لے لی۔ انہوں نے پابندی وقت کی عظمت میں کہے گئے تمام اشعار سنائے۔ اسلاف کی زندگی سے مثالیں پیش کیں۔وہ اتنا عمدہ بولے کہ صدرِ مجلس بھی اش اش کراُٹھے۔ سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ سٹاف افسر اگلے دن اپنے معمول سے بھی تاخیر سے دفتر آئے۔ پہلے دس بجے آجایاکرتے تھے،اُس دن گیار ہ بجے تشریف لائے۔ایک خاتون ایک زنانہ تعلیمی ادارے کی سربراہ تھیں۔ وہ ماتحت خواتین کے ساتھ بہت بُرا سلوک کرتی تھیں۔بے جاڈانٹ ڈپٹ کرنامعمول تھا۔ایک غیر سرکاری فلاحی تنظیم نے اُن کے ادارے میں ایک سیمینارکااہتمام کیا۔عنوان تھا ”خواتین اورہمارا اخلاق“۔ سب سے اچھی تقریرہماری پرنسپل صاحبہ نے کی۔ لوگوں نے بہت داد دی۔
ماتحت خواتین نے بھی اپنے آنسوؤں سے خراجِ تحسین پیش کیا۔ ایک صاحب اپنے ماتحتوں کی دل آزاری کرنے کے عادی ہوچکے تھے۔ اُن کو احساس تک نہ ہوتاتھاکہ کسی پر کیا گزر رہی ہے۔لوگ ارادتاً بے عز تی کرتے ہیں۔وہ غیر ارادی طور پربھی طعنہ زنی کرتے رہتے تھے۔ جونیئرافسروں کی معمولی غلطی پر اُن میں ایسے ایسے عیب نکال لیتے تھے جن کی موجودگی سے اُن کی بیویاں بھی مایوس ہوچکی تھیں۔ تقریر کرنے کے انتہائی شوقین تھے۔ اپنی ہر تقریر کا آغاز اُن قرآنی آیات سے کرتے تھے جن کامفہوم ہے کہ ہرطعنہ دینے والے اورعیب جوشخص کے لیئے ہلاکت ہے۔ ماتحت تقریر کے ابتدائی الفاظ سے مکمل اتفاق کرتے تھے۔ بعض توآمین بھی کہہ اُٹھتے تھے۔ نشتر روڈپرگڈوکاچائے کا کھوکھا تھا۔
میڈیکل سٹوڈنٹ اور ڈاکٹر اچھی چائے پینے کینٹ جایا کرتے تھے۔ امتحان کے دنوں میں کینٹ جانے کا ٹائم نہیں ہوتا تھا۔ چائے پینے کی نفسیاتی خلش پوری کرنے کیلئے گڈو کے کھوکھے پر آنا پڑتا تھا۔ اگر کوئی گڈوکی چائے کے ذائقہ یا رنگت پر بات کرنے کی کوشش کرتاتھا توگڈ و انضمام کی بیٹنگ کاتجزیہ کرناشروع کر دیتا تھا۔وہ تمام تجزیہ نگاروں کومات دے دیتا تھا۔ کسی کواپنی چائے پر بات نہیں کرنے دیتاتھا۔لوگ تھک ہار کربات کرناہی چھوڑ دیتے تھے۔ انضمام کی بیٹنگ اور گڈوکاتبصرہ ویسے ہی رہا مگربہت سارے طلبہ ڈاکٹر بن گئے۔اُن کی شادیاں ہوگئیں۔وہ آج بھی اپنے گھر میں گڈوکی چائے پی رہے ہیں مگراب اتنے سمجھدار ضرور ہوگئے ہیں کہ چائے کے ذائقہ اور رنگت پر بات کرنے سے پہلے اپنی رنگت ذہن میں ضرور رکھتے ہیں۔