بڑا آپریشن…… آخر کب……؟
وفاقی وزیر داخلہ اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین محسن نقوی نے جب یہ اعلان کیا کہ کرکٹ کے معاملات کو ٹھیک کرنے کے لئے بہت جلد ”بڑا آپریشن“ کیا جائے گا تو مجھ جیسے ”کم عقل اور نا سمجھ“ کرکٹ شائقین کو خوشی ہوئی کہ چلو اب تو ہمارے پسندیدہ کھیل کے حالات بہتر ہوں گے اور ہم ایک بار پھر فتح کا منہ دوبارہ دیکھ سکیں گے۔
اِس غلط فہمی کی وجہ یہ تھی کہ یہ دعویٰ پاکستان کرکٹ بورڈ کا چیئرمین نہیں،بلکہ پاکستان کا وفاقی وزیر داخلہ کر رہا تھا لیکن ”اے بسا آرزو کہ خاک شدہ“۔ ہم نے جو سوچا تھا وہ نہ پہلے کبھی پورا ہوا نہ اب ہو سکا۔ پاکستان نے بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم کے ہاتھوں ہوم سیریز میں دو صفر سے شکست کھائی اور وہ ٹیم جو گزشتہ دو دہائیوں سے پاکستان سے ایک ٹیسٹ نہیں جیت سکی تھی وہ ٹیسٹ سیریز جیت کر اپنے گھر واپس لوٹی۔ سوچا اب بڑا اپریشن ہو گا،لیکن جب کچھ نہ ہوا تو دِل کو تسلی دے لی کہ چلو جناب محسن نقوی کو کوئی بہتری کی امید نظر آئی ہو گی، لہٰذا محسن نقوی نے بڑا اپریشن ”ملتوی یا موخر“ کر دیا۔ انگلینڈ کی ٹیم پاکستان پہنچی تو امید بندھی کہ اب پاکستان ٹیم بہتر کھیل پیش کرے گی (بھول گئے اسی برطانوی ٹیم نے دو سال قبل تین۔ صفر سے ہرایا تھا)۔ ملتان کی وکٹ دیکھ کر ساری غلط فہمیاں دور ہو گئیں۔ ایک ایسی وکٹ جس کو کرکٹ کے ماہرین ”روڈ یعنی سڑک“ قرار دے رہے تھے اس پر کیا نتیجہ نکلنا تھا،مگر ہوا وہی جس کا ڈر تھا۔ ہم نے ”نئی تاریخ“رقم کی اور اتنے ریکارڈ بنوائے کہ پوری قوم پریشان ہے کہ ہم تو ریکارڈ اپنے بنانا چاہتے تھے۔برطانیہ والوں کے نئے ریکارڈ بنوا دیئے۔
کرکٹ کی147سالہ تاریخ کا نیا ریکارڈ بنا دیا اور یہ ریکارڈ اپنے حق میں نہیں،بلکہ اپنی شکست کی صورت میں بنوایا،یعنی پاکستان دنیا کی وہ پہلی ٹیم بن گئی جس نے پہلی اننگ میں ساڑھے پانچ سو سکور کرنے کے بعد ایک اننگ اور47رنز سے شکست کھائی۔ ایسا تو کبھی سوچا بھی نہیں گیا تھا اور ساڑھے پانچ سو سکور کرنے کے بعد وہ پچ کہ جس پر ہم ساڑھے پانچ سو پر آؤٹ ہوئے اِسی پچ پر برطانیہ والوں نے اِس صدی کی تاریخ کا سب سے بڑا سکور کیا اور 823 رنز رنز کر ڈالے۔ یاد رہے کہ دنیا کی تاریخ میں 800 سے زیادہ سکور صرف چار بار ممکن ہو سکا ہے۔ کرکٹ کی تاریخ کا سب سے بڑا سکور952 رنز سری لنکا نے بھارت کے خلاف 1997ء میں بنایا تھا جبکہ باقی تینوں دفعہ 800 سکور کا ہندسہ پار کرنے کی ”سعادت“ برطانیہ کی ٹیم کو ہی ملی ہے۔ برطانیہ نے آسٹریلیا کے خلاف 1938ء میں 903 رنز بنائے اور ویسٹ انڈیز کے خلاف 1930ء میں 849 سکور کئے۔
اس بڑے سکور کے دوران برطانیہ کے دو بڑے بلے بازوں جو روٹ اور ہیری بروک نے چوتھی وکٹ کی شراکت میں 454رنز کی ریکارڈ پارٹنر شپ کا نیا ریکارڈ بھی بنایا۔
اِسی ٹیسٹ میں برطانوی بلے باز جو روٹ نے برطانیہ کے سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑی کا اعزاز بھی حاصل کر لیا۔ جو روٹ نے یہ اعزاز اپنے کیرئیر کے 147ویں ٹیسٹ میں 262 رنز کر کے حاصل کیا۔ وہ ٹیسٹ کرکٹ میں 12664 رنز بنا چکے ہیں، جس میں ان کی 35سنچریاں اور 64نصف سنچریاں شامل ہیں۔ ان سے پہلے یہ اعزاز انہی کے ساتھی ”سر ایلسٹر کک“ کے پاس تھا،جنہوں نے161 ٹیسٹ میچوں میں 12472رنز بنائے تھے۔ کرکٹ کی 147 سالہ تاریخ میں کرکٹ کی ”مدر لینڈ“ یعنی برطانیہ کے صرف یہ دو کھلاڑی ہی 10ہزار رنز کا ہندسہ عبور کر پائے ہیں، جبکہ رنز بنانے کے حوالے سے دنیا کا سب سے عظیم کھلاڑی سچن ٹنڈولکر ہے، جس نے اپنے طویل کیریئر میں 15921 رنز بنائے۔
اِسی ٹیسٹ میں پاکستانی کپتان شان مسعود نے اپنی کپتانی کا لگاتار چھٹا ٹیسٹ میچ ہارا پتہ نہیں مزید کتنے ٹیسٹ میچوں کی شکست اُن کی قسمت میں لکھی ہے۔شان مسعود یارکشائر کاؤنٹی (برطانیہ) میں کرکٹ کھیلتے ہیں اور ایک اچھے کپتان کہلاتے ہیں،لیکن پاکستانی ٹیم کو ان کی کرکٹ صلاحیتوں سے کوئی فائدہ نہیں ہوا اِس سے پہلے وہ آسٹریلیا میں تین ٹیسٹ لگاتار ہارے، پھر راولپنڈی میں دو ٹیسٹ میچوں میں بنگلہ دیش کے ہاتھوں شکست کھائی۔ یہ بھی ہمارا کوئی نیا ریکارڈ ہی کہلائے گا۔ پاکستان کے موجودہ فاسٹ باؤلرز، یعنی شاہین آفریدی، نسیم شاہ، حارث رؤف اور ان کے دیگر ساتھی باؤلر دنیا کے بہترین فاسٹ باؤلر کہلائے جاتے ہیں۔ اُنہیں ان لوگوں کے ”ڈھولچی“ (بقول چیف جسٹس پاکستان جناب قاضی فائز عیسی ڈھولچی وہ یو ٹیوبر ہیں جو آپ کی کامیابیوں کے ڈھول پیٹتے ہیں) تو ان کے ڈھولچی انہیں دنیا کا بہترین فاسٹ باؤلر ”بناتے“ہیں، لیکن آج شاہین آفریدی ،نسیم شاہ، خرم شہزاد، عامر جمال اور دیگر کی حالت یہ ہو چکی ہے کہ یہ 130اور 135 سے زیادہ کی سپیڈ پر گیند نہیں پھینک سکتے اور انگریز بلے باز اس سپیڈ پر آنے والی گیندوں اور باؤنسرز کو اُٹھا کر بار بار باؤنڈری لائن کے پار پھینکتے ہیں، جبکہ بنگلہ دیش اور برطانیہ کے فاسٹ باؤلرز کی140،145 اور 150 کی سپیڈ پر آنے والی گیندوں کے آگے ہمارے بیٹسمین بے بس نظر آتے ہیں،نہ بلا وقت پر ہلتا ہے نہ ہی سر۔ لہٰذا کبھی گیند انگلیوں کو بوسہ دیتی اور کبھی پسلیوں میں گھس جاتی ہے۔ ان سے تو سر بھی بروقت نہیں ہٹایا جاتا۔ یہ ہے ہمارا فاسٹ بولنگ کا بہترین سکواڈ اور بہترین بلے باز۔ سابق آل راؤنڈر مدثر نذر نے پاکستانی ٹیم کے فاسٹ باؤلرز پر ”خصوصی کمنٹس“ پاس کیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے باؤلرز ”ریورس سوئنگ“ میں ناکام ہو چکے ہیں، بلکہ زیادہ بہتر تو یہ کہوں گا کہ انہوں نے کہا ہے کہ ہمارے ان باؤلرز کو گیند ”بنانا“ نہیں آتی۔ گیند بنانے سے مراد ”بال ٹیمپرنگ“ قطعی نہیں،بلکہ گیند بنانے سے مراد گیند کی ایک سائیڈ کو قدرتی حالت میں یعنی ”کھردرا“ اور دوسری سائیڈ کو چمکایا جاتا ہے۔ اسے اپنے پسینے اور تھوک کے ذریعے چمکایا جاتا ہے تاکہ وہ گیند ریورس سوئنگ کرے اب ہمارے یہ باؤلر اگر سوئنگ کرنا چاہتے ہیں تو اُنہیں سرفراز نواز اور مدثر نذر سے ”کلاسیں“ لینا ہوں گی،لیکن ”ڈھولچیوں“ کے ہوتے اتنی محنت کون کرے۔
برطانیہ نے کرکٹ میں ”بیس بال تکنیک“ کا آغاز کیا اور اس تکنیک کے ذریعے ٹیسٹ کرکٹ بدل ڈالی اب ان کے بلے باز ٹیسٹ کرکٹ بھی ون ڈے اور ٹی ٹونٹی کی طرح کھیلتے ہیں اور ان کی کامیابی کے پیچھے اِسی بیس بال تکنیک کا ہاتھ ہے۔ آخر ہم اپنی ٹیم کو کیوں درست راستے پہ نہیں لگاتے۔ (اب تو بھارتیوں نے بھی بیس بال تکنیک سیکھ لی ہے)۔ ہم اپنی پچوں کو تیار کرنے کے لئے غیر ملکیوں کو کیوں بلاتے ہیں۔ ہمارے اپنے تجربہ کار ”گراؤنڈز مین“کہاں چلے گئے۔ ہم ڈومیسٹک کرکٹ، یعنی چار روزہ کرکٹ کیوں بھول گئے۔ کیا اب پاکستان صرف ٹی ٹونٹی کھیلا کرے گا۔ نجانے بڑا آپریشن کب ہو گا؟