جبر اور جمہوریت۔۔۔کلثوم نواز شریف کی سیاسی جدوجہد کی چشم کشا کہانی،خود انکی اپنی زبانی ... تیسری قسط
یہاں پہنچنے پر مجھے احساس ہوا کہ شاید میں کسی میدان جنگ میں آگئی ہوں۔ سامنے دشمن کا علاقہ ہے اور دفاع میں اپنی فوج بیٹھی ہوئی ہے۔ میں نے رائیونڈ پہنچ کر پہلی دفعہ اینٹی ٹینک پرانی جیپوں پر لادے ہوئے دیکھے۔ طیارہ شکن گنز کو گشت کرتے ہوئے دیکھا۔ ایسا لگا کہ لاہور کور کا پورا اسلحہ رائیونڈ فارم پر جمع کردیا گیا ہے۔ میں نے سوچا شاید آگے چل کر گھر کے اندر چند ٹینک بھی نظر آئیں۔ جب گیٹ پر پہنچی تو میرا واسطہ ایک میجر، جس کا نام بابر تھا، سے پڑا۔
میجر بابر نے مجھ سے دریافت کیا: ’’کیا آپ مسز نواز شریف ہیں؟‘‘
جبر اور جمہوریت۔۔۔کلثوم نواز شریف کی سیاسی جدوجہد کی چشم کشا کہانی،خود انکی اپنی زبانی ... دوسری قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میرا اثبات میں جواب ملنے پر اس نے ٹیلی فون پر کسی کو اطلاع دی کہ ’’وہ یہاں پہنچ گئی ہیں‘‘ گھر میں داخل ہوئی تو ایک نہایت رقت آمیز منظر سامنے تھا۔ ہر فرد کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں، جو آنسو رکے ہوئے تھے، طوفان بن کر ابل پڑے، اس کے بعد کئی دن یہاں ایسے ہی گزرگئے نہ کسی کو کھانے کی پروا تھی نہ سونے کی خواہش، بس دن رات اپنے رب کے حضور سجدہ ریز رہتے تھے۔ جب کچھ ہوش آیا تو پتہ چلا کہ تمام ٹیلی فون کاٹ دئیے گئے ہیں، بچوں کو سکول بھی نہیں جانے دیا گیا تھا۔ سخت پابندیاں لگادی گئیں۔ حتیٰ کہ کمروں سے باہر نکلنے پر بھی پابندی لگادی گئی اور کہا گیا کہ دروازوں اور کھڑکیوں کے پردے تک اٹھادئیے جائیں۔ ہمارے گھر کے ایک بڑے کمرے پر فوجیوں نے قبضہ کیا ہوا تھا۔
رائیونڈ فارم کے بارے میں عجیب و غریب کہانیاں مشہور کی گئی ہیں، لیکن یہاں آنے والے ہزاروں افراد جانتے ہیں کہ یہ زرعی فارم ہے جس کے ایک حصے میں چار دیواری کے اندر چند الگ الگ مکانات بنے ہوئے ہیں۔ یہ ہرگز کوئی محل نہیں ہے۔ یہاں فارم میں جو گھر مجھے رہائش کے لئے ملا ہے اس کے مقابلے میں تعمیراتی تزئین و آرائش کے حوالے سے میرا ماڈل ٹاؤن والا گھر کہیں زیادہ خوبصورت ہے۔ ان دنوں ہم سب فارم کے ایک ہی مکان میں تھے اور ساتھ والے مکان کی چھت سے دور بینوں کے ذریعہ مسلسل دن رات ہماری نگرانی کی جاتی تھی اور بار بار لاؤڈسپیکروں کے ذریعہ یہ پیغام دیا جاتا کہ دروازوں کے پردے ہٹادئیے جائیں۔
لیکن میں نے ان پر واضح کردیا تھا کہ یہ ہمارے بیڈرومز ہیں اور یہاں کے پردے ہرگز نہیں ہٹائے جائیں گے۔ کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ جب وہ ز یادہ تنگ کرتے تو میں غصہ سے باہر نکل آتی اور وہ لوگ بھاگ جایا کرتے تھے۔ پھر یہی فوجی دوسرے گھروں کی چابیوں کا مطالبہ کرنے لگے، لیکن میں نے انہیں صاف صاف کہہ دیا کہ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ پھر انہوں نے بیچ میں ایک خالی گھر میں جو مہمان خانے کے طور پر استعمال ہوتا تھا، قبضہ کرکے اپنا سازوسامان رکھ لیا۔ یہ محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً ’’چپے چپے‘‘ پر یعنی ہر قدم کے فاصلے پر جدید قسم کی گنیں لئے فوجی تعینات تھے۔ گھر کی چار دیواری کے اندر بھی جدید ترین طیارہ شکن اسلحہ کی نمائش دکھائی دے رہی تھی۔
ہمارے گھر کے اندر ایک بڑا سا برآمدہ ہے جہاں باجماعت نماز ہوتی ہے۔ ایک دفعہ اذان کے بعد جماعت کھڑی ہوئی تو ایک فوجی جلدی جلدی وضو کرکے جماعت میں شامل ہو گیا۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو میجر بابر نے اس کی سخت تذلیل کی کہ تم ڈیوٹی چھوڑ کر نماز کیلئے کیوں گئے۔ میری دعا ہے اللہ تعالیٰ ایسے فوجی افسروں کو نیک ہدایت دے۔ (آمین)
ایسا ہی ایک اور تکلیف دہ واقعہ ہے۔ جو فوجی ہمارے گھر کے دروازے کے باہر ڈیوٹی دیا کرتے تھے، ان کا یہ معمول تھا کہ دن رات اونچی آواز میں پنجابی گانے لگائے رکھے تھے جو ہمیں پریشان کرنے کے لئے بھی تھا اور شاید اس پروپیگنڈا کا حصہ بھی کہ یہاں ہیریں گائی جاتی ہیں اور بڑے ڈھول ڈھمکے ہوتے ہیں جبکہ اس گھرانے میں ان چیزوں سے پرہیز کیا جاتا رہا ہے بلکہ یہاں تو شادیوں پر بھی اس قسم کی روایتی بیہودگیاں نہیں ہوتیں۔ اور جب کبھی ان فوجیوں سے گانوں کی ریکارڈنگ بند کرنے کے لئے کہا جاتا تو وہ ہمیں پریشان کرنے کے لئے اس کی آواز اور زیادہ تیز کردیتے۔ شاید وہ ہمارے صبر کا امتحان لے رہے تھے یا شاید وہ ہمیں اعصابی تناؤ کا شکار کرنا چاہتے تھے۔
ذہنی کرب اور اذیت کے یہ وہ لمحات تھے جب بے بسی اور بیچارگی کا احساس سوہان روح بن کر رہ گیا تھا۔ اس انتہائی پریشانی کے عالم میں ایک ہی سہارا تھا اور وہ آقائے نامدار حضرت محمد مصطفی ﷺ کے صدقہ سے اللہ تعالیٰ بزرگ و برتر کی رحمت ہے اور یہ اسی کا احسان اور فضل ہے کہ جس نے مشکل سے مشکل حالات میں کبھی مایو س نہیں ہونے دیا۔ گھر کا ہر فرد اپنا وقت ذکر اور استغفار میں گزار تا اور میرے سسر اور ساس کا تو یہ عالم تھا کہ ہر لمحہ جائے نماز پر ہی گزرتا تھا۔(جاری ہے )