جبر اور جمہوریت۔۔۔کلثوم نواز شریف کی سیاسی جدوجہد کی چشم کشا کہانی،خود انکی اپنی زبانی ... چوتھی قسط
اس صورتحال سے بچے الگ سہمے رہتے۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ یہ سب کچھ کیا ہورہا ہے اور کیوں ہورہا ہے؟ ساڑھے تین سالہ زکریا جو اپنے باپ (حسین) سے بہت زیادہ مانوس ہے، یہاں تک کہ وہ رات کو اپنے باپ کے پاس ہی سوتا تھا، ہر وقت ڈیڈی ڈیڈی پکارتا رہتا، ادھر ادھر پھرتا رہتا۔ مختلف کمروں میں اپنے ڈیڈی کو تلاش کرتا اور ناکام ہونے پر رونے لگتا۔ یہ کیسا کرب و الم کا عالم تھا کہ ایک دوسرے کو دیکھ کر آنسو نکل آیا کرتے، اپنی اور بچوں کی پریشانی کے ساتھ یہ فکر بھی لاحق رہتی کہ نجانے نواز شریف صاحب، شہباز شریف اور بیٹے حسین نواز کے علاوہ ان کے ساتھیوں کے ساتھ کیا سلوک ہورہا ہو۔
میں بیٹی مریم اور اسماء کی طرف دیکھتی تو ان دونوں کی نگاہوں میں باپ کے لئے تشویش کے سائے نظر آتے، ان کی آنکھوں سے برسنے والے آنسوؤں میں ایک ہی سوال ہوتا، ابو کیسے ہوں گے؟
جبر اور جمہوریت۔۔۔کلثوم نواز شریف کی سیاسی جدوجہد کی چشم کشا کہانی،خود انکی اپنی زبانی ... تیسری قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پھر وہ لمحہ آگیا جب مجھے کچھ فیصلے کرنے پڑے، اپنی ساس، سسر، بیٹیوں اور چھوٹے بچوں کی حالت زار دیکھ کر مجھے فیصلہ کرنا پڑاکہ اب رونے دھونے کی بجائے عمل کا وقت آگیا ہے۔ یہ میری اپنی ذات کا معاملہ بھی تھا کہ میرے شوہر، بیٹے، دیور اور ان کے ساتھیوں کی زندگیاں داؤ پر لگی تھیں اور میرے وطن عزیز کا مسئلہ بھی تھا، جسے چند طالع آزما جرنیلوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا تھا۔ یہ عمل کی جانب پہلا قدم تھا، جب خود ساختہ حکومت نے اپنی کیبنٹ کا اعلان کیا اور اپنے اردگرد جن لوگوں کو اکٹھا کیا تو میں اچھی طرح جان گئی تھی کہ یہ لوگ دین اور پاکستان کے لئے خطرہ ہیں اور مجھے یہ بھی فکر تھی کہ جو لوگ پچھلے پچا س سال سے اس ملک پر قبضہ کرنا چاہتے تھے، اس دفعہ وہ پاک فوج کو اپنے ناپاک ارادوں کے لئے استعمال کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ دراصل یہ فوجی انقلاب نہیں ہے، یہ تو منتخب جمہوری حکومت کو ملک میں قرآن و سنت کے قانون کو لاگو کرنے سے باز رکھنے کے لئے اس کی راہ میں ہنود و یہود کی ایک رکاوٹ ہے۔
ایک دن میں نے پرویز مشرف کو خط لکھا ’’ ٹھیک ہے تم نے (Take Over) قبضہ کرلیا ہے مگر کم از کم میرے شوہر اور میرے بیٹے سے تو میری بات کرادو‘‘ لیکن اس کا کو ئی جواب نہ آیا۔ دو دن کے بعد پھر میں نے پرویز مشرف کو ایک اور خط لکھا۔ اس طرح میں نے 10 خط لکھے، لیکن کسی کا جواب نہ دیا گیا۔ پھر ایک دن میں نے فوجیوں کو بلاکر پوچھا ’’ تم میرے خط پرویز مشرف کو پہنچاتے بھی ہو یا نہیں؟ ‘‘
انہوں نے جواب دیا’’ آپ کا ہر خط دو گھنٹے بعد جنرل پرویز مشرف تک پہنچ جاتا ہے کیونکہ ہم یہاں سے خود فیکس کرتے ہیں‘‘ ان فوجیوں میں ایسے بھی تھے جن کی آنکھوں میں ہمارے لئے احترام اور دلوں میں ہمدردیاں تھیں، لیکن ان کی یہ ہمدردیاں ہمارے کسی کام کی نہیں تھیں۔
قدرت کو یہ منظور تھا کہ عملی جدوجہد کا دائرہ پھیلتا چلا جائے۔ اس جدوجہد میں ہمیں سب سے پہلے جو بیرونی مدد ملی، وہ جامعات کی پندرہ سے اٹھارہ سال عمر تک کی بچیاں تھیں۔ وہ ہمارے پاس آنے کے لئے رائیونڈ فارم کے بیرونی گیٹ تک آئیں، لیکن انہیں اندر آنے کی اجازت نہیں ملتی تھی۔ باپردہ اور صوم صلوٰۃ کی پابندیہ بچیاں ہر روز گیٹ سے واپس لوٹادی جاتیں۔ ہمیں اس صورتحال کی کچھ خبر نہیں تھی۔ ایک دن ان بچیوں نے جرأت مندانہ فیصلہ کیا۔ وہ گیٹ کے باہر بیٹھ گئیں۔ انہوں نے تمام نمازیں گیٹ کے آگے روڈ پر ادا کیں اور اجتماعی دعا کی، اپنے اللہ سے استقامت اور حوصلے کی دعا کی۔ پھر انہوں نے جدید اسلحہ سے لیس فوجیوں کے سامنے اعلان کیا:
’’آج ہم اندر ضرور جائیں گی اگر تم لوگوں نے ہمارے اوپر گولیاں چلانی ہیں تو چلاؤ، آج ہماری لاشیں تو گرسکتی ہیں مگر تم ہمیں اندر جانے سے نہیں روک سکتے۔‘‘
بالآخر ان بچیوں کے فولادی عزم کے سامنے فوجیوں کو ہتھیار ڈالنے پڑے اور 16 اکتوبر کو یہ بچیاں ہمارے قید خانے (رہائش گاہ) تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئیں۔ پھر ان کا یہ معمول بن گیا۔ وہ آتیں، دن بھر تلاوت، ذکر الہٰی کرتیں اور شام کو واپس چلی جاتیںِ ان کے علاوہ کسی اور کو آنے کی اجازت نہیں تھی۔
فوجیوں نے صرف ہمیں ہی تنگ او رپریشان نہیں کیا بلکہ انسانی ہمدردی کے تمام اصولوں کو بھی پامال کردیا۔ انہوں نے شریف ہسپتال کے مریضوں پر بھی رحم نہ کیا۔ ان کے کسی ملاقاتی کو اندر آنے کی اجازت نہ دی گئی اور نہ ہی مریضوں کو کھانا پہنچانے کی اجازت دی جس سے پریشان ہوکر چند دنوں میں ہی مریض علاج کرائے بغیر ہسپتال سے رخصت ہوگئے۔ ہسپتال کے ڈاکٹروں کو بھی مختلف حربوں سے تنگ کیا جاتا رہا اور دیگر ملازمین کو بھی یہاں سے بھگادیا گیا۔
اسی دوران دو مرتبہ بی بی سی اور سی این این کے افراد رائیونڈ فارم پر ہماری رہائش گاہ کی فلمیں بنانے کے لئے آئے تو یہاں تعینات فوجیوں کو سادہ کپڑے پہنادئیے گئے اور فوجیوں سے کہا کہ انہیں فوری طور پر کچھ کھلایا جائے ورنہ کچھ بھی ہوسکتا ہے اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو وہ باہر جاکر بحیثیت ڈاکٹر ذمہ دار افراد کے خلاف ایکشن لیں گے۔
بہرحال ڈاکٹر نے مجھے کوئی دوائی وغیرہ دی جس کی وجہ سے میں ہوش میں آگئی۔ فوجیوں نے اصرار کیا کہ میں کچھ کھالوں لیکن میرا فیصلہ تھا کہ جب تک میاں صاحب سے میری بات نہیں کرائی جاتی میں کچھ نہیں کھاؤں گی، چاہے میری جان ہی چلی جائے۔ میں اپنے موقف پر ڈٹی رہی۔ چنانچہ اسی رات تقریباً 8 بجے میاں صاحب سے میری چند منٹ کے لئے فون پر بات کرائی گئی۔
وہ عزم و ہمت کے پہاڑ بنے مجھے حوصلہ دیتے رہے، ادھر ایک مدت کے بعد ان کی آواز سن کر میرا یہ عالم تھا کہ آنسو بہتے رہے، میں کچھ کہنا چاہتی تھی، زبان ساتھ نہ دے سکی۔ پس میں ان کی آواز سنتی رہی اور چند بار یہی کہہ سکی ’’آپ ٹھیک ہیں، آپ ٹھیک ہیں‘‘ اس کے بعد جواب میں میاں صاحب نے یہی کہا’’ فکر نہ کرو میں ٹھیک ہوں‘‘ لیکن ان کی آواز سے پریشانی ظاہر ہورہی تھی۔ یہ تو بعد میں پتہ چلا کہ انہیں ایک چھوٹی سی اندھیری کوٹھری میں رکھا گیا تھا، جہاں نہ دن کا پتا چلتا تھا نہ رات کا۔ وہ باہر کی دنیا سے بالکل کٹے ہوئے تھے۔ انہیں اخبار نہیں ملتا تھا اس کے علاوہ انہیں یہ بھی فکر تھی کہ نجانے ہمارے ساتھ کیا سلوک کیا جارہا ہے۔ یہ 12 اکتوبر 1999ء کی شام کے بعد ان کا مجھ سے پہلا رابطہ تھا، لیکن چند ہی منٹ بعد لائن کٹ گئی۔
اس کے بعد فوجیوں نے اصرار کیا کہ میں کچھ کھالوں، لیکن میں اپنے موقف پر ڈٹی رہی کہ جب تک میرے بیٹے حسین سے بات نہیں کرائی جائے گی، میں اس وقت تک کچھ نہیں کھاؤں گی۔ پھر اگلے روز میری چند منٹ کے لئے حسین سے بات کرادی گئی۔ اس کے بعد میں نے تھوڑا بہت کھانا شروع کردیا۔
(جاری ہے )