بشیر بیتاب کے لیے چند تحسینی کلمات

بشیر بیتاب کے لیے چند تحسینی کلمات
بشیر بیتاب کے لیے چند تحسینی کلمات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


گزشتہ ماہ جناب قدرت اللہ چودھری کی وساطت سے مجھے دو کتابیں موصول ہوئیں: ایک بشیر بیتاب کا سفر نامہ ”بیت اللہ اور گنبد ِ خضرا کے سائے تلے“ اور دوسری ”بشیر بیتاب کی نظم و نثر پر مشاہیرِ عصر کی رائے“۔ دونوں کتابوں کے مطالعہ سے  بیتاب کے فکر و فن کا ایک بھلا سا نقش ذہن پر مرتب ہوا۔لیکن ان کے حالاتِ زندگی اور ادبی سرگرمیوں کی تفصیلات جاننے کی تشنگی سی رہ گئی۔اتفاق سے انہی دِنوں مجھے اورینٹل کالج کے آس پاس لگے پرانی کتابوں کے ایک سٹال سے غلام فرید کی کتاب ”بشیر بیتاب، احوال و آثار“ ہاتھ لگ گئی،جو دراصل مصنف کا ایم فل کا تحقیقی اور تنقیدی مقالہ  ہے، جسے شعبہ اُردو بہاولپور یونیورسٹی نے عمدہ گیٹ اپ پر شائع کیا ہے۔ اس کتاب سے جو معلومات حاصل ہوئیں ان کے مطابق بیتاب کے آباؤ اجداد کا تعلق تحصیل نکودر ضلع جالندھر(مشرقی پنجاب، بھارت) سے تھا۔ان کے گاؤں کا نام ننگل جیون تھا، جہاں وہ27 دسمبر1935ء کو میاں امانت علی کے گھر پیدا ہوئے۔ تقسیم کے ایام میں یہ خاندان ہجرت کر کے پاکستان آیا اور ساہیوال اور گوجرانوالہ سے ہوتا ہوا صادق آباد پہنچا۔ بیتاب نے1949ء میں مڈل کا اور 1959ء میں اردو ادیب فاضل کا امتحان پنجاب یونیورسٹی سے پاس کیا۔


1958ء میں اس خاندان کو صادق آباد میں زمینیں الاٹ ہو گئیں۔ تب سے آج تک بیتاب وہیں رہائش پذیر ہیں اور اپنے آبائی پیشے کاشتکاری سے جڑے ہوئے ہیں۔ان کے چار بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔ شعر و ادب سے انہیں بچپن ہی سے لگاؤ ہے۔1990ء میں ان کا پہلا شعری مجموعہ ”محرابِ سخن“ منظر عام پر آیا۔اس کے بعد ان کے پنجابی کے دو اور اُردو کے چھ مجموعے شائع ہوئے۔نثر میں ان کی آپ بیتی ”دو آبہ سے مہران تک“ قابل ِ ذکر ہے۔انہوں نے حضرت خواجہ غلام فریدؒ کی کافیوں کو منظوم اُردو رُوپ بھی دیا ہے۔عمرے کا سفر نامہ ”بیت اللہ اور گنبد ِ خضرا کے سائے تلے“ بلاشبہ ایک خوبصورت ادبی شہ پارہ ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ بیتاب بڑے شہروں سے دُور بیٹھ کر قلم کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔وہ  نمود و نمائش کے قائل نہیں۔ان کے قلم میں اتنی جان ضرور ہے کہ بڑے شہروں کے ادیبوں نے اسے کھلے دِل سے تسلیم کیا ہے۔اقبال راہی  انہیں کلاسیکی کا شاعر قرار دیتے ہیں۔اصغر ندیم سید کا خیال ہے کہ ”ان کے کلام میں معصومیت اور تازگی کا پہلو نمایاں ہے“۔ڈاکٹر طارق عزیز کے بقول:”جدید اُردو غزل میں ناصر کاظمی اور جاوید شاہین کے بعد بشیر بیتاب واحد شاعر ہیں، جنہوں نے مختصر بحر کا کما حقہ‘ استعمال کیا ہے۔”احمد عقیل روبی ایسا اچھا ادبی پارکھ لکھتا ہے:”وہ ایک سچے انسان ہیں۔اخلاقی اور مذہبی جذبات رکھتے ہیں۔اللہ اور عشق ِ رسولؐ ان کی رگ رگ میں رچا بسا ہے اور یہ عقیدت اور عشق ان کی حمد اور نعت میں بدرجہ اتم نظر آتا ہے“۔


بیتاب کا سفر نامہ ڈیڑھ سو صفحات پر مشتمل ہے۔انہوں نے مختلف مقدس مقامات کی تاریخی صورتِ حال پر توجہ دینے کی بجائے اپنے احساسات کو پورے خلوص سے قلمبند کیا ہے۔ بیان کو طوالت دینے کی بجائے اختصار کے ساتھ مگر بڑے سلیقے قرینے سے اپنے قلب و ذہن کی سچی واردات پیش کی ہے۔ پڑھنے والا ان کے بیان کی سادگی اور جامعیت سے متاثر ہوتا ہے۔ان کی شخصیت پر معاصر اہل ِ قلم نے جو کچھ لکھا ہے،اسے سامنے رکھ کر جب ہم ان کا اسلوبِ تحریر دیکھتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ ان  کا اسلوب ایک اعتبار سے ان کی شخصیت ہی کا عکس ِ بلیغ ہے۔بیت اللہ کے ماحول پر لکھتے ہیں:
”اللہ تعالیٰ کے اس گھر کا کمال تو یہی ہے کہ اسے دیکھنے کی چاہت کم نہیں ہوتی۔اس کے حسن و جمال کی کشش دامن ِ دِل کو یوں کھینچتی ہے کہ جس نے ایک دفعہ دیکھ لیا،اسے بار بار دیکھنے کی خواہش دیوانہ بنا دیتی ہے۔ کعبے کو دیکھتے رہنے سے نہ تجسس کم ہوتا ہے نہ دِل بھرتا ہے۔چاہت ہے کہ بڑھتی چلی جاتی ہے،جو اس کے جلال و جمال میں گم ہو گیا،وہ پہروں اسی میں کھویا رہا۔جونہی مغرب کی اذان ہوئی،طواف بند ہو گیا۔ صفیں سیدھی ہو گئیں۔امام کی قرأت سے ایک سماں بندھ گیا۔جی چاہا کہ پہروں امام کے پیچھے کھڑے قرأت سنتے رہیں۔اللہ تعالیٰ کے گھر کا جلال اور امام کعبہ کی آواز جذبات میں ایک رقت سی طاری ہو گئی۔کاش ان لمحوں کو ساکت و جامد کیا جا سکے“۔(ص32:)


بیت اللہ اور مسجد نبویؐ سے جدائی کی گھڑی کو بیان کرتے ہوئے کئی اہل ِ قلم جذبات اور احساسات کی ترسیل میں عدم توازن کا شکار ہو جاتے ہیں۔لیکن بیتاب کا قلم اس موقع پر بھی بیان کا سلیقہ برقرار رکھتے ہیں۔چند سطور ملاحظہ فرمایئے:
”جدائی کے لمحات قریب آ رہے ہوں تو کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ زبان گنگ ہو جاتی ہے۔الفاظ ساتھ چھوڑ جاتے ہیں،دِل جدائی کے غم میں پتھر ہو جاتا ہے۔جذبات کے دریا کا بہاؤ رُک جاتا ہے۔طبیعت میں گرانی آ جاتی ہے،سانس لینا دشوار ہو جاتا ہے،دِل چاہتا ہے کہ طبیعت بہہ نکلے، دِل ہلکا ہو جائے…… اور پھر جب یہ دریا بہہ نکلتا ہے تو تمام بند ٹوٹ جاتے ہیں۔آنکھیں آبشار بن جاتی ہیں، طبیعت پر قابو نہیں رہتا،جان نڈھال ہو جاتی ہے،مگریہ سیلابِ اشک رُکنے کا نام نہیں لیتا“۔ (ص67:)


بیتاب کا مذکورہ سفر نامہ اپنے اندر کئی اور خوبیاں بھی رکھتا ہے۔ یہ ان کی وہ تحریر ہے جو قاری کے دِل و دماغ پر دور  رس اثرات مرتب کرتی ہے۔خاص طور سے وہ لوگ جو ابھی تک حرمین شریفین کی زیارت کی سعادت سے محروم ہیں،اس سفر نامہ کے مطالعہ سے ان کے دِل  میں آتش ِ شوق بے اختیار بھڑکنے لگتی ہے، جو ایک دفعہ وہاں جا چکے ہیں وہ بار دگر حاضری کے لیے تڑپنے لگتے ہیں۔میرا وجدان محسوس کرتا ہے کہ نعت نگاری کے ساتھ ساتھ بیتاب کا یہ سفرنامہ بھی روزِ حشر ان کے لیے یقینا ذریعہ ئ  نجات بن جائے گا!

مزید :

رائے -کالم -