کیا یہ سب پہلی بار ہے،ذرا غور کر لیں!
انسان غلطیوں کا پُتلا کہلاتا ہے اور یہی اپنی کوتاہی کا اعتراف کرنے سے گریز کرتا اور دوسروں پر الزام تراشی کرتا ہے،میں خود بھی انسان ہوں اور اسی حوالے سے غلطیوں اور کوتاہیوں کا مرتکب بھی ہوتا یا ٹھہرتا ہوں،میں اللہ سے اپنے گناہوں اور غلطیوں کی معافی کا طلب گار ہوں اور اعتراف کرتا ہوں کہ میں بھی دوسروں کی طرح جاری حالات کی رو میں بہہ گیا اور میلاد النبیؐ کے حوالے سے ہر سال جوگذارشات پیش کرتا ہوں،اس میں کوتاہی ہو گئی کہ عوام کے نام اور غم میں گھلتے گھلتے پہلے سے بہتر صحت کے مالک ہونے والے منتخب اراکین اسمبلی کو آج کل ایوان کے تقدس کے سوا کچھ سوجھتا ہی نہیں ہے، امپورٹڈ سوٹوں میں ملبوس کروڑوں روپے کی گاڑیوں سے اترنے والے ان اراکین کو ایوان کے تقدس کا غم کھائے جا رہا ہے اور حزبِ اختلاف کے ساتھ حزبِ اقتدار بھی بہت غصے اور جلال میں ہے اور ان کو اب تک احساس نہیں ہوا کہ یہ سب جو کچھ کر رہے ہیں وہ اس ماہِ مقدس ربیع الاول میں کر رہے ہیں،جس کا ہر گذرتا دن اس محسن انسانیتؐ کے یوم پیدائش کے قریب آ رہا ہے،ان کو اپنے مال اور قال کی فکر نہیں، لیکن آخرت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔یہ حضرات بڑے بلند آہنگ سے چیخ چیخ کر انتظامیہ کو گالی دے رہے اور اسٹیبلشمنٹ کو للکار رہے،ان حضرات کو ملک کی معاشی حالت کا بھی کوئی احساس نہیں، اگر فکر ہے تو صرف اپنی ہے۔
آیئے آج ہم اس امر پر غور کریں جس بناء پ یہ سب چیخم دھاڑ ہے،اپوزیشن ارکان کو شکوہ ہے کہ ان کو رات کے اندھیرے میں نقاب پوش افراد نے اسمبلی کے اندر سے ”اغوا“ کیا،جی! ہاں یہ اغوا کہتے ہیں، اگر ان سے یہ پوچھ لیا جائے کہ حضرات ذرا یہ تو بتائیں کہ صبح چار بجے تک کس ایوان کا اجلاس جاری تھا اور کون سی میٹنگ ہو رہی تھی، جس کا تعلق ایوان کی کارروائی سے ہے تو یہ دہائی دینے لگتے ہیں کہ تقدس مجروح ہو گیا،چلیں ذرا اس حوالے سے بھی بات کر لیں،میں اس پیشہ صحافت میں بوڑھا ہو گیا،ہر گزرتا دن قبر کے قریب لے جا رہا ہے ”غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی، گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی“ تو قارئین! میں نے اپنی اس پیشہ وارانہ زندگی کے دوران بڑی بڑی گرفتاریاں اور اکابرین کو جیل جاتے دیکھا،ان کی گرفتاری سے جیل تک کے احوال کا عینی شاہد بھی ہوں۔
ہمارے بزرگ نوابزادہ نصر اللہ(مرحوم) نے ساری زندگی اپوزیشن کی سیاست کی،اتحاد بنائے اور تحاریک چلائیں،چنانچہ ان کی گرفتاریاں بھی اسی تناسب سے ہیں، ان کی زبان سے سنا ”ہم تو ہر وقت اپنا اٹیچی کیس تیار رکھتے ہیں، جس نے گرفتار کرنا ہے چلا آئے، ہم اپنا بوجھ خود اُٹھا کر ساتھ چل دیں گے“ ہم رپورٹرز شاہد ہیں کہ کئی بار ہمارے سامنے ان کی گرفتاری ہوئی۔ متعلقہ انتظامیہ کی ہدایت پر پولیس آئی تو نوابزادہ نصر اللہ خان اطمینان سے ان کے ساتھ چل کر گاڑی میں بیٹھ جاتے۔ ذوالفقار علی بھٹو بہت بڑے لیڈر تھے اور اس میں کوئی شبہ نہیں،ہم شاہد ہیں کہ جب مبینہ قتل والے کیس میں ان کی ضمانت منسوخ ہوئی تو انہوں نے گرفتاری دینے میں پس و پیش نہ کی،اس کے بعد وہ جیل سے باہر نہ آئے اور جیل میں ان کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ کتابوں میں تحریر ہو چکا ہوا ہے،میرا یہ بھی مشاہدہ ہے کہ پولیس والے حتیٰ الوسیع کسی بڑے رہنما یا جماعتی عہدیدار کے ساتھ گستاخی سے پیش نہیں آتے، تاوقتیکہ ان کو مجبور نہ ہونا پڑے۔البتہ کارکنوں سے وہ ایسا سلوک کرتے ہیں جیسے ان کے ساتھ زمین کا تنازعہ ہو، اپنے اس ذاتی تجربے کی روشنی میں یہ عرض کرنے کی گستاخی کرتا ہوں کہ اگر اوکھلی میں سر دیا ہے توموصلوں سے کیوں ڈرتے ہو،گرفتاری سے گھبراہٹ کیسی، شیخ رشید سے پوچھ لو جو جیل کو سسرال کہتے تھے۔ اگر آپ حضرات خود کو آرام سے پیش کر دیتے تو کسی کی مجال تھی کہ آپ سے ذرا سی بھی بدتمیزی کر پاتا،ذرا غور کریں کہ پاکستان قومی اتحاد کی تحریک میں کتنے بڑے رہنما گرفتار ہو کر جیل گئے، کیا ان میں سے کسی کے ساتھ ایسا سلوک ہوا،اس کی کوئی مثال نہیں ہے۔
اب ذرا جیل کا حال بھی سن لیں،جیل حکام بھی سرکاری ملازم ہیں،ان کو جہاں اپنی نوکری کی فکر ہوتی ہے وہاں یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ گرفتار ہو کر آنے والے کس حیثیت کے مالک ہیں،چنانچہ ان کا سلوک بھی درجہ بدرجہ ہوتا ہے، وہ کسی بھی بڑے رہنما کو تنگ نہیں کرتے اور یہ جو واویلا ہوتا ہے، یہ سب درست نہیں ہوتا،میں خود جانتا ہوں،لاہور سنٹرل جیل کوٹ لکھپت میں جہانگیر بدر(مرحوم) زیر حراست تھے ہم ان سے ملنے جاتے تھے تو ہماری ملاقات جیل کی ڈیوڑھی سے منسلک ایک کمرے میں ہوتی، اور ہماری تعداد بھی معقول ہوتی تھی، بدر کی والدہ بہت سارا کھانا پکوا کر لاتی تھیں۔ وہ ہم سب مل کر کھاتے اور جیل اہلکار بھی مستفید ہوتے تھے۔ہمیں ایک سے زیادہ بار جیل سپرنٹنڈنٹ نے کہا کہ ہم باہر جا کر ان کی شکایت کریں کہ جہانگیر نے کہا ہے کہ ان کے ساتھ برا سلوک ہوتا ہے۔
میں یہ بھی جانتا ہوں کہ محمد نواز شریف اور مریم نواز کے علاوہ محمد شہباز شریف تو اپنی جگہ رہے،جیل میں تو اگر کسی اچھے بڑے شہری کو بی کلاس مل جاتی تو وہ جیل میں بہتر وقت گذار لیتا۔ البتہ ذوالفقار علی بھٹو، بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ بھی آپ جیل حکام کی لکھی تحریروں میں پڑھ لیں،معذرت کے ساتھ یہ بھی عرض کروں کہ احتجاج کرنے کے حوالے سے حضرات میں نمایاں آواز اور سخت تقریر عمر ایوب کی ہوتی ہے۔ وہ اِس بات کو یاد نہیں کرتے کہ وہ فیلڈ مارشل(خود ساختہ) ایوب خان کے پوتے ہیں، جن کا دور بھی ”لاجواب“ تھا اور انہوں نے بالواسطہ انتخابات (بی ڈی ممبروں) کے باوجود دھاندلی کر کے قائداعظمؒ کی ہمشیرہ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒکو ہرایا تھا اور وہ خود ان گوہر ایوب صاحب کے صاحبزادے ہیں،جنہوں نے دس سالہ جشن کے حوالے سے کراچی میں جلوس نکالا اور اس میں کیا ہوا۔ باتیں بہت ہیں،اس لئے برسر اقتدار اور اپوزیشن والوں سے عرض کروں گا کہ وہ جن عوام کے نام پر یہ سب کرتے ہیں ان کا خیال بھی کریں۔پی ٹی آئی اراکین کو تو یہ سہولت بھی حاصل ہے کہ پولیس افراتفری میں جو کارروائی کرتی اور مقدمات درج کرتی ہے،ان میں کتنے ہی جھول رہ جاتے ہیں اور عوام دوست عدلیہ انصاف کر دیتی ہے، جیسے آج(جمعہ) ہی اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ماحول کو خوشگوار بنانے کے بعد مختصر فیصلہ سنایا اور پی ٹی آئی اراکین اسمبلی کا ریمانڈ غیر قانونی قرار دے کر مسترد کر دیا۔
آج سیاستدان جو بھی کر رہے ہیں اس سے کم متنازعہ ماحول 1958ء سے پہلے تھا اور جب ایوب خان نے غاصبانہ قبضہ کیا تو عوام نے مٹھائیاں بانٹی تھیں۔