برطانیہ میں نسل پرستانہ فساد یا سازش؟یوم آزادی!
آج جب میں سطور لکھ رہا ہوں تو ملک بھر میں جشن ِ آزادی پورے جوش و خروش سے منایا جا رہا ہے۔یہ امر باعث ِ اطمینان ہے کہ تقریبات یکساں طور پر پورے ملک میں ہو رہی ہیں اور ہر شعبہ زندگی نے اِن میں بھرپور حصہ لیا ہے۔حکومت نے اِس بار یوم آزادی کے لئے بہت اہتمام کیا ہے اور جواب بھی آیا ہے۔ وزیراعظم نے پیرس اولمپکس میں واحد گولڈ میڈل جیت کر لانے والے ارشد ندیم کو بڑا اعزاز دیا ہے اس کے لئے پوری قوم نے بھی آنکھیں بچھائی ہیں۔ یوں جہاں یوم آزادی کی بھرپور تیاری نے عوامی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی وہاں ارشد ندیم کی کامیابی کو بھی توقع سے زیادہ پذیرائی ملی ہے اس سے نوجوانوں کے حوصلے یقینا بلند ہوں گے۔
پورا پاکستان اس77سالہ جشن میں خوش اور سبز رنگ میں رنگا نظر آ رہا ہے تاہم میری آنکھوں میں یہ77سال ہی نہیں اس سے کچھ پہلے کے منظر بھی اُجاگر ہو رہے ہیں۔ مجھے وہ دن بھی یاد آ رہے ہیں جب ہم چند لنگوٹیے باغ بیرون موچی دروازہ سے آزادی کی مانگ کرنے والے جلوس کے ساتھ ریگل چوک تک جاتے، کئی بارآنسو گیس کا سامنا ہوا اور ہم نے مظاہرین کی دیکھا دیکھی جوابی طور پر پتھر مارے (اینٹیں توڑ کر بنائے گئے) انہی یادوں کے دوران مجھے وہ دن بھی یاد ہیں،جب میری دادی جان اپنی بھتیجی اور اس کے سسرالی خاندان کے لئے تڑپ رہی تھیں، وہ جالندھر کے ایک گاؤں میں بیاہی ہوئی تھیں،میں بھی اپنے والد محترم کے ساتھ مہاجر کیمپوں خصوصاً والٹن کیمپ میں اسی تلاش کے لئے جاتا تھا،پھر میرے ننھیال سے میری والدہ کی کزن اور ان کی فیملی کی فکر بھی میرے گھرانے کو پریشان کرتی تھی،اور یہ سب ان کے مل جانے پر ختم ہوئی تو دوسرے دُکھوں نے گھیر لیا،والد صاحب مسلم لیگ نیشنل گارڈ کے عہدیدار اور تحریک پاکستان کے ورکر تھے۔ وہ مہاجرین کی خدمت کے لئے سربکف تھے تو ان کی آمد پر ان کو سنبھالنے والوں میں شامل تھے،مجھے اپنے والد صاحب کی زبان سے سنی ظلم کی وہ داستانیں بھی اب تک یاد ہیں جن کے مطابق مشرقی پنجاب سے آنے والے قافلے، ریل گاڑیاں اور بیل گاڑیاں خون سے لت پت نعشوں سے اٹی آتی تھیں، میرے بڑوں نے اِس ملک کے لئے عظیم قربانیاں دیں، دہلی سے اس طرف مشرقی پنجاب سے لوگ یا تو کٹ گئے اور یا پھر لٹے پٹے اپنے نئے ملک میں آ گئے اور اللہ کا شکر ادا کیا،میں دُکھ سے عرض کرتا چلوں کہ یہ پاکستان کے لئے عظیم قربانیاں تھیں،ہمارے ان آباء کو محض پاکستان کا نعرہ لگانے کی اتنی بڑی سزا دی گئی کہ خاندان کے خاندان کٹ گئے،عصمتیں لوٹ لی گئیں،نوجوان بچیوں نے کنوؤں میں کود کر جانیں دیں اور یوں یہ ملک وجود میں آیا، اس کے بعد آباد کاری اور سانس برقرار رکھنے اور روزی کے مسائل کیسے حل ہوئے یہ ان حضرات کو کیسے احساس ہو سکتا ہے،جو1951ء کے بعد اس وطن میں لوٹے۔یہ تکلیف دہ موضوع ہے…… یہیں اِس دُعا کے ساتھ بات ختم کرتا ہوں کہ اللہ میرے اِس ملک کا تحفظ فرمائیں اور ہم مراعات سے محروم عوام کی حالت ِ زار پر رحم فرمائیں کہ اشرافیہ کو اپنے تحفظ کے سوا کچھ نظر نہیں آتا،حالانکہ یہ اشرافیہ غور کرے تو جو کچھ ان کو حاصل ہے وہ سب اسی پاک سرزمین کا مرہون منت ہے۔ان کو اس کے تحفظ کے لئے قربانی دینا چاہئے کہ ملک سلامت ہو گا تو سب کچھ بچے گا اور یہیں رہے اور ملے گا۔یہ بھول جائیں کہ اِس ملک سے بھاگ جائیں گے،برطانیہ کی شورش سے اندازہ لگا لیں کہ حالات کیا ہیں۔
قارئین! زمانہ حاضر میں موضوعات کی کوئی کمی نہیں اور میں بھی انہی میں سے کسی پر گذارشات کرنا چاہتا تھا کہ یوم آزادی کے حوالے سے کچھ درد جاگ اٹھا،سابق ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل(ر) فیض حمید کا موضوع گرم ہے۔ عدالت عظمےٰ کے فاضل جج حضرات اور بعض فیصلوں پر گفتگو ہو رہی ہے، سیاست گری خوار ضرور ہے لیکن ہو رہی ہے اور بدقسمتی سے ہمارے سیاسی زعماء معروضی حالات کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہیں،اتحاد کی بات کرتے ہیں،لیکن یہ ان کی اپنی شرائط اور منشاء کے مطابق ہونا چاہئے۔یہ سطور گواہ ہیں کہ ان میں مسلسل عرض کیا گیا اور کہا جا رہا ہے کہ اَنا کو چھوڑ کر قومی اتفاقِ رائے کے لئے سب ایک میز پر بیٹھ جائیں اور مستقل لائحہ عمل تیار کر کے اس پر عمل کریں کہ ملک کی سلامتی اور تحفظ ہو،ملک معاشی اور اقتصادی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے اور غریب عوام کی بھی سنی جائے،لیکن صد افسوس کہ ہماری یہ خواہش اور گذارش حسرت میں تبدیلی ہوتی جا رہی ہے۔
آج اِس ملک میں بار بار یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ نوجوان ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں یہ بھی درست ہے،لیکن جانے والوں کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ جس محنت اور مسئلہ سے جان چھڑانے کے لئے وہ ملک چھوڑ کر جانے کی خواہش رکھتے اور اپنے اپنے گھروں کو زیر بار کر کے جاتے ہیں،اور پھر جان کی بازی لگاتے،جان بچ جائے تو قانون کی گرفت تیار ہوتی ہے اور اب تو برطانیہ میں ہونے والے نسلی فسادات نے وہاں مستقل رہنے والوں کو پریشان اور خوفزدہ کر دیا ہے تو نئے جانے والوں کا تو اللہ ہی محافظ ہو گا۔برطانیہ میں ہونے والے ان نسلی فسادات کے حوالے سے بہت کچھ کہا جا رہا ہے، لیکن میں ان حالات کو سازش جانتے ہوئے بھی احتجاج کرنے والوں کے مطالبے کو جائز سمجھتا ہوں،لیکن ان کی طرف سے فسادات برپا کرنا، جانی اور مالی نقصان کرنا کسی بھی قاعدے اور اصول کے تحت درست نہیں ہے۔یہی جہ ہے کہ نئی حکومت نے عدالتوں کے ذریعے سزا، جزا کا عمل شروع کر دیا ہے۔
جہاں تک برطانیہ میں نسل پرستی کا تعلق ہے تو یہ روگ پرانا ہے،میں جب پہلی بار1988ء میں برطانیہ اور امریکہ گیا تو لندن میں نسل پرستوں کی نشاندہی ہوئی تھی،میرے میزبان دوست نصر اللہ خان کے ساتھی سرجیت سنگھ سگو نے مجھے لندن کی سیر کرائی تھی، پکاڈلی سرکس کے چوک میں پہنچے تو وہاں درمیان میں دو قسم کے نوجوان موجود تھے،ان کی موٹر سائیکلیں ساتھ تھیں،ان میں سے قریباً آدھے نشہ میں نظر آئے جبکہ دوسرے حضرات کے سر منڈھے ہوئے(بالکل کلین شیو) تھے۔سگو نے بتایا کہ سر منڈھے نوجوان”سکن ہیڈ“ کہلاتے اور نسل پرست ہیں۔یہ غیر ملکیوں خصوصاً ایشیائی اور افریقی لوگوں سے نفرت کرتے اور ان کو نقصان پہنچاتے ہیں، پولیس ان کے خلاف کارروائیاں کرتی رہتی ہے،نصر اللہ خان نے نشہ کرنے والے حضرات کے بارے میں بتایا ان لوگوں نے معاشی مسائل کے باعث معاشرے کو ترک کیا تو معاشرے نے ان کو دھتکار دیا ہے۔ یہ الگ مسئلہ اور بات ہے۔ ذکر نسل پرستی کا ہے تو یہ گوروں میں شروع سے ہے اور کئی بار فساد ہو جاتے ہیں لیکن ایسے کبھی نہیں ہوئے جیسے اب ہوئے ہیں،اسی لئے یہ تھیوری بھی سامنے آئی کہ یہ سازش صیہونیوں کی ہے جو غزہ کے لئے ہمدردانہ احتجاج کو روکنا چاہتے ہیں کہ نئی حکومت بھی اسرائیل کی حامی،اس کا اندازہ اس امر سے لگا لیں کہ ایران نے ہانیہ کی شہادت کا بدلہ لینے کا اعلان کر رکھا ہے اور اب میڈیا(مغربی) یہ کہہ رہا ہے کہ ایران حملہ کرنے والا ہے،ان سب یورپی اور امریکہ کے پیٹ میں مروڑ اُٹھے ہیں اور امریکہ،برطانیہ اور فرانس چلا اُٹھے اور اسرائیل کے دفاع کا اعلان کر دیا۔ امریکہ نے تو اپنے بحری بیڑے بھی بھیج دیئے اور برملا اعلان کیا کہ اسرائیل کا دفاع کیا جائے گا اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ غزہ میں نسل کشی کا عمل اسرائیل ہی کا نہیں،اس میں امریکہ کے علاوہ برطانیہ اور فرانس بھی ملوث ہیں۔یہ تینوں ملک سلامتی کونسل کے مستقل رکن ہیں یہ اب تک اسرائیل کی غزہ کے شہریوں پر ظلم و بربریت کو نہیں روک سکے،اسرائیل ظلم ڈھا رہا ہے اور یہ ممالک کھل کر اُس کے دفاع کی بات کر رہے ہیں اس پر غور کر لیا جائے۔