ایک کالم مردوں کے نام
ہمارے معاشرے کی کیا دنیا کی مظلوم ترین صنف عورت ہے.جس کی مظلومیت کی حد ابھی تک مقرر نہیں ہو سکی. عورت مغرب کی ہو یا مشرق کی اس پر خود کو مظلوم ثابت کرنا فرض ہے.ہر عورت کو لگتا ہے کہ وہ اس معاشرے کی مظلوم ترین عورت ہے اور جتنا ظلم اس پر ہوتا ہے دنیا میں کسی پر نہیں ہوتا. حد تو یہ ہے کہ ہر عورت اپنے شوہر کو کہتی ہے کہ میرا ہی حوصلہ ہے جو تمھارے ساتھ گذارہ کر رہی ہوں.میری جگہ کوئی اور ہوتی تو کب کی جا چکی ہوتی اور حیرانگی کی بات کہ یہی الفاظ بنا ردو بدل کے ہر عورت اپنے شوہر سے کہتی ہے.عورت ہر دوسرے انسان سے اپنے شوہر کی برائی کرتی نظر آتی ہے.حد تو یہ کہ وہ انسان سے تو کیا دیواروں کو بھی خاوند کی برائیوں سے آگاہ کر رہی ہوتی ہے.سچ پوچھیئے تو میں نے عورت کے بہت ہی بھیانک روپ دیکھے ہیں وہ مرد پر حاکم بننے کے لیئے منصوبے بناتی رہتی ہے.وہ اس مرد کو اپنا محکوم بنانے کی تگ و دو میں لگی رہتی ہے جس نے اپنے گھر کی سلطنت اسی کو سونپ رکھی ہوتی ہے.اسے شکوہ ہے کہ مرد اس کو پیسے نہیں دیتا اور اس کے لیئے وہ تعویذ گنڈے کرنے والوں کے پاس جا کر مرد ہی کاکمایا پیسہ اجاڑ کر آجاتی ہے.یہ سوچے بنا کہ اگر اس کا مرد اسے خرچ نہیں دیتا تو جادو ٹونہ کروانے کے لیئے اس کے پاس پیسہ کہاں سے آیا. معاشرے کی پچاس فیصد خواتین اپنے مرد کے پیچھے ان کی عزت کاجنازہ نکال رہی ہیں.اپنی مظلومیت کا رونا رونے والیوں کو کبھی اپنے اس قبیح فعل پر شرمندگی بھی نہیں ہوتی. غیر مرد کے ساتھ ناجائز تعلقات بنا نے والیوں کے مردوں کے سر شرم سے جھک جاتے ہیں، شملے گر جاتے ہیں اور جنھیں شرم سے ڈوب مرناچاہیئے وہ اکڑتی پھرتی ہیں.اور الٹا شوہر ہی کو برا بھلا کہتی ہیں کہ یہ جھوٹا ہے.
اسے یقین ہوتا ہے کہ اس کا شوہر دنیا کا ظالم ترین انسان ہے،عورت کو جاذب نظر مرد چاہیئے.خوبصورت جملے بولنے والا، دلکش سیلری والا مرد چاہنے والی عورت اپنے روئیے کی بدصورتی جانے کیوں بھول جاتی ہے.اگر دیانت داری سے دیکھا جائے تو مرد ظالم نہیں ہے کسی بھی عورت کا شوہر اسے ایک مضبوط چھت مہیا کرتا ہے گھر کی عورت پر بری نظر رکھنے والے کو جان سے مارنے سے بھی دریغ نہیں کرتا.وہ عورت کی عزت کا محافظ بنتا ہے اس کے کھانے پینے کا بندو بست کرتا ہے.اس کے بچوں کا خیال رکھتا ہے.بیوی بچوں کی ضروریات زندگی کو مہیا کرنے کے لیئے دن رات محنت کرتا ہے.وہ اپنے خاندان کو اپنی بساط سے بڑھ کے سہولیات فراہم کرنے کے لیئے ہر حد تک چلاجاتا ہے،کڑی دھوپ میں کھلے آسمان تلے سارا دن مزدوری کرتا ہے. اپنے خاندان کے چہروں پر خوشی دیکھنے کے لیئے، ان کو سہولیات دینے کے لیئے اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر کثیر المنزلہ عمارتوں پر چڑھ کے مزدوری کرتا ہے.جان ہتھیلی پہ رکھ کر کمایا پیسہ اپنی عورت کو لاکر دیتا ہے. وہ اس محنت سے کمائے پیسے کو اپنے پاس نہیں رکھتا. بیوی اور بچوں پہ خرچ کرتا ہے.خود پھٹے کپڑے پہن کر مزدوری کرنے والا بیوی بچوں کو نئے کپڑے لاکر دیتا ہے. مرد کا حوصلہ ہے کہ وہ محنت سے کمایا پیسہ لا کر عورت کی ہتھیلی پہ رکھ دیتا ہے.کیا یہ ظلم ہے ایک.مرد کا؟ عورت بیوی کے روپ میں ہو یا ماں کے وہ دونوں کے لیئے سب کچھ کرتا ہے. لیکن بہت معذرت کے ساتھ کہ دونوں ہی اس کی قدر نہیں کرتیں.دونون اس کی احسان مند ہونے کے بجائے اس پر لعن طعن کرتی ہیں.
دونوں مرد پر حق جماتی ہیں،دونوں مرد کی کمائی کھاتی ہیں اور دونوں کہتی ہیں کہ ہمیں تم نے کچھ نہیں دیا. دن کے تھکے ہارے مرد کو اپنی زبان کے نشتر چلا کر مزید تھکاتی ہیں.وہ مرد جس کی پیدائش کے لیئے عورت مری جاتی ہے کہ اس کے گھر بیٹا ہو.اسی بیٹے کی شادی کرتے ہی اس کا جینا محال کر دیتی ہیں.ماں کا فرمانبردار بیٹا نکاح کے دو بول پڑھتے ہی نا فرمان اور سب سے بڑا مجرم بن جاتا ہے.بیوی اسے ماں کا غلام اور ماں اسے زن مرید کہتی ہے.مزے کی بات یہ کہ وہ بیچارہ دونوں ہی کا غلام ہوتا ہے. اسے دونوں ہی عورتوں سے محبت ہوتی ہے.مرد اپنی ساری کمائی عورت کے ہاتھ میں یہ کہہ کر تھماتا ہے کہ یہ لو اپنے پیسے. مجھے کسی مرد کی سب سے خوبصورت بات یہ لگتی ہے کہ دو عورتوں ماں اور بیوی کے درمیان گھن چکر بنا مرد ان دونوں کو کبھی یہ نہیں کہتا کہ میرا ہی حوصلہ ہے جوتم دونوں کے ساتھ گذرارا کرتا ہوں.باہر کے جھمیلوں میں الجھا، دن کا تھکا ہارا مرد اتنا حق تو رکھتا ہے کہ اس کے اہل خانہ اس کے گھر کا ماحول خوشگوار رکھیں.اسے زہنی سکون عطا کریں.نا کہ الگ الگ کمروں میں اس کے آگے شکایات لگا لگاکر اس کو ذہنی طور پر ٹارچر کریں،کیا مرد کا مرد ہونا جرم.ہے؟ میں نے مرد کو دو عورتوں کے بیچ پستے دیکھاہے.کیا مظلوم صرف عورت ہے.مجھے تو لگتا ہے کہ.مرد عورتوں سے زیادہ مظلوم ہے لیکن یہ مانتا کوئی نہیں.اور اس کا ادراک خود مرد کو بھی نہیں ہے۔