ولیم شیکسپیئر نے کہا تھا ”نام میں کیا رکھا ہے؟ گلاب کو کچھ کہہ کر پکار لو اُس کی مہک کم نہیں ہو گی۔“ ایک بار گاندھی جی نے بانی ء پاکستان سے خط و کتابت کے لیے مائی ڈیئر قائد اعظم، برادر جناح اور ڈیئر مسٹر جناح میں سے اُن کے پسندیدہ القاب کے بارے میں پوچھا۔ قائد نے، جو مہاتما سے چھیڑ خوانی کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے، شیکسپیئر کا یہی مقولہ دہرا کر پنلٹی اسٹروک لگا دی۔ قوم کو بابائے ملت سے جس درجہ عقیدت رہی اُس کے ہوتے ہوئے گمان نہیں گزرتا کہ اُن کا نام محمد علی جناح کے سوا کچھ اور ہو سکتا ہے۔ اسی طرح جس نسل نے منفرد مونچھ والے گورنر مغربی پاکستان، نواب کالا باغ کی ’امیر محمد خانیاں‘ دیکھی ہیں وہ تصور نہیں کرتی کہ مرحوم کا نام اعتزاز احسن یا نجم سیٹھی ہو سکتا تھا۔ تو کیا ملک امیر محمد خاں کی شخصیت کا طنطنہ محض نام کی بدولت قائم رہا؟
معروف دانشور الطاف گوہر نے اپنے ’نوائے وقت‘ کے کالموں میں نواب کالا باغ کا جو سراپا تحریر کیا اُسے پڑھ کر بعض ڈراؤنی فلموں کا خیال آتا ہے۔ وہ جن کے اشتہار میں لکھا ہوتا تھا کہ کمزور دل ناظرین دیکھنے کی زحمت نہ کریں۔ الطاف گوہر کو، جو اُن دنوں صوبائی سیکرٹری مالیات تھے، نواب ِ مغفور نے اُن کے ’سیکولر‘ نام کی وجہ سے ایک مدت تک ’الطاف صابا‘ بروزن بابا کہہ کر بلایا اور ہمیشہ انگریزی میں گفتگو کی۔ ایک دن البتہ کہنے لگے ”مجھے جی معین الدین نے بتایا ہے کہ تم جدی پشتی سُنی مسلمان ہو، ورنہ مَیں تو تمہیں نو مسلم ہی سمجھتا رہا۔“ نام کے حوالے سے یہ طعنہ زنی معروف قانون داں اعجاز بٹالوی قیامِ پاکستان سے پہلے کر چکے تھے جب دونوں دوستوں کو بغیر لائٹ سائیکل چلانے پر پولیس نے لاہور کی مال روڈ پر روک لیا۔ بٹالوی مرحوم نے اپنا فرضی نام سید اعجاز حسین بتایا تھا مگر جب سنتری نے ڈگر سے ذرا ہٹا ہوا نام الطاف گوہر سنا اور ’ملزم‘ کی قوم پوچھی تو بٹالوی صاحب نے زور سے کہا ”نو مسلم ہے، جناب۔“
الطاف گوہر نے 1920 ء کی دہائی میں گوجرانوالہ میں دھیان سنگھ کی حویلی کے نواح میں آنکھ کھولی تھی۔ اُس وقت تک پنڈدادن خان والے جنجوعہ قبیلے سے تعلق کے سبب اپنے والد راجہ تفضل حسین اور چھوٹے بھائی راجہ تجمل حسین کی طرح ان کا نام بھی الطاف حسین رکھا گیا تھا۔ پھر نام کی ’حسینیت‘ گوہر کی ادبی عرفیت میں دب کر رہ گئی۔ بحیثیت شاہد ملک خود میرا تعارف بھی ارتقاء کے جن مراحل سے گزرا وہ میرے ہوش سنبھالنے سے پہلے کا زمانہ ہے۔ ایک راز البتہ طالب علمی کے دوران کھُلا۔ کسی کام سے سیالکوٹ میونسپل کارپوریشن کے دفتر جانا ہوا تو ایک کمرے میں پیدائش و اموات کے رجسٹر شیلف در شیلف ایک ترتیب سے لگے ہوئے تھے۔ سوچا کہ کلرک کی مدد سے متعلقہ رجسٹر میں اپنی ولادت کا سال، مہینہ اور دن نکالا جائے۔ ہائیں، کوائف سب کے سب میرے، نام لکھا تھا احمد منیر۔
پتا نہیں آپ میرے ڈرامائی احساس کی تہہ تک پہنچے یا نہیں، لیکن مجھے تو اُسدم یوں لگا تھا کہ مَیں کبھی پیدا ہی نہیں ہوا اور اگر ہوا ہوں تو کسی ستائیسویں آئینی ترمیم کے ذریعہ خود کو پچھلی تاریخ ڈال کر ’ریگولرائز‘ کروانا پڑے گا۔ بالآخر دادی نے کہانی سنائی کہ پاکستان بننے سے پہلے تمہارے ابا نذیر احمد کے واحد چھوٹے بھائی منیر احمد اسکول میں داخل ہونے کے کچھ ہی دن بعد اچانک بیمار پڑے اور خدا نے انہیں اپنے پاس بلا لیا۔ منیر ایک تمیزدار اور ذہین بچہ تھا، سو تمہارے لیے شروع میں یہی نام سوچا گیا۔ بات میری سمجھ میں آگئی، مگر مسئلہ یہ تھا کہ دیگر سماجی رجحانات کی طرح ناموں کے رواج بھی بدلتے رہتے ہیں۔ اللہ دتا، باغ علی اور کرم الٰہی کے بعد محمد سعید، محمد بشیر اور فضل محمود کا دَور آ گیا تھا لیکن پنجاب کی حد تک منیر احمد کی جگہ احمد منیر والی ترتیب مجھے جدید تر زمانے کی لگتی ہے۔
تضاد کی اِسی لہر نے میری ریسرچ کی کشتی کو ساحل پہ پہنچایا اور انکشاف ہوا کہ میونسپلٹی کے رجسٹر میں میرے اطلاع کنندہ دادا کے اکلوتے بھائی لالہ سائیں ہیں جو دنیا چھوڑ کر سنیاس لے چکے تھے۔ خدا جانے ’پرچی‘ بنوانے کے لیے ایک ایسے چِٹے ان پڑھ بزرگ کو کیوں روانہ کیا گیا جنہیں یہ بھی علم نہیں تھا کہ اُن کا اپنا باضابطہ نام غلام نبی ہے۔ بعد میں لالہ سائیں سے کئی موضوعات پر ’ڈونگھی باتیں‘ ہوئیں تو یقین ہو گیا کہ لالہ جی نے منیر اَحمد کو ایک خاص روایت کی نا دانستہ پیروی میں احمد منیر کر دیا تھا۔ مراد اُس اصول سے ہے جس کے تحت پنجاب کے لوگ ایک مدت تک ایک روپیہ چھ آنے کو چھ آنے ایک روپیہ اور عبد الخالق کو خالق عبدل کہتے رہے۔ اگر آپ کی پیدائش رواں صدی کے دوران ہوئی تو مَیں اِس رجحان کے ثبوت میں تصدیق کنندگان پیش کر سکتا ہوں۔
میرے نام کے موجودہ مرحلے میں کوئی پیچیدگی نہیں، سوائے یہ کہ اسِ سے پہلے شاہد نذیر ملک کا ایک درمیانی وقفہ تھا، جس کا سراغ والدین کی مدد کے بغیر ایک دستاویزی شہادت سے لگایا گیا۔ ہفت روزہ ’قندیل‘ کے اندرونی سر ورق پر ’شخصیات‘ کے زیر عنوان ساڑھے پانچ ماہ عمر کے ایک بچے کی تصویر، جسے اپریل 1953 ء کے عالمی یوم صحت پر ایک ’بے بی شو‘ منعقدہ سیالکوٹ میں پہلا انعام ملا۔ بچے کی صحت میں کوئی غیر معمولی بات دکھائی نہیں دیتی، لہذا ہو سکتا ہے کہ انعام کا جواز کوئی ایسے ملحوظات ہوں جن کی روشنی میں نگراں وزرائے اعلی مقرر کیے جاتے ہیں۔ باقی، اسکول میں داخل ہونے سے پہلے اور بعد میں مجھے اپنی جو واحد عرفیت یاد پڑتی ہے وہ موجودہ نام ہی ہے۔ اِس کی ظاہری ’لادینیت‘ نے الطاف گوہر کی سی صورتحال سے دوچار تو نہیں کیا، لیکن نام کے توسط سے کچھ دلچسپ مغالطے ضرور ہوئے ہیں۔
اول تو پہلی بار بھارت پہنچتے ہی نئی دہلی کے ہوائی اڈے پر میرے بعض ’اوصاف حمیدہ‘ ایک پاکستانی سول سرونٹ کے مشابہہ نکلے، جس پر مجھے اور میرے ساتھیوں ظفر عباس اور رحیم اللہ یوسف زئی کو بھی ’ٹف ٹائم‘ ملا۔ دو سال گزرنے پر اپنے ایک ہم نام کی عجیب عجیب زاویوں سے لی گئی تصاویر کے ساتھ بی بی سی نیوز روم سے ’سولو سرکس‘ کرنے پر یہ تہنیتی پیغام موصول ہوا ”ہمیں علم نہیں تھا کہ آپ یہ کام بھی عمدگی سے کرتے ہیں‘‘۔ اگرچہ میرے نام کے حامل ایک سابق برطانوی وزیر کا کوئی مبینہ سکینڈل میرے کھاتے میں نہیں ڈلا لیکن لینڈ لائنوں کے عہد کا ایک واقعہ بھولنے کا نہیں۔ ایک کال کے جواب میں صرف اتنا کہا تھا کہ نہیں، میں فارن آفس والا شاہد ملک نہیں۔ ساتھ ہی میرے دوسرے فون پر وہی آواز دوبارہ گونجی ”شاہد صاحب، ایک منٹ پہلے مَیں نے آپ کے مغالطے میں کسی اور شاہد ملک کو فون کر دیا تھا۔“ ”جناب، اِس بار بھی یہ کوئی اور شاہد ملک ہیں۔“
’بجنگ آمد‘ کے مصنف محمد خاں کے ایک ٹیڈی مزاج دوست کو اُن کی کتاب کا مسودہ دیکھ کر کرنل صاحب کا نام ’کاشتکارانہ‘ سا لگا تو اُس نے اُنہیں سروش، نسرین یا تسنیم جیسا ’اپ ٹو ڈیٹ‘ تخلص چسپاں کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ خود میری ادھیڑ عمر تک اپنی چھوٹی موٹی شناخت کو حق شفعہ کے مقدے سے بچانے کے لیے ائر فورس کے شاہد منصور سرور ملک کے سوا کسی ممکنہ حریف سے ملاقات نہ ہوئی تھی۔ اب اِس پہچان کی حفاظت ذرا سنجیدہ رخ اختیار کر رہی ہے کہ پچھلے ہفتے امراضِ قلب کے ایک مستند معالج نے میرے ارسال کردہ مریض سے کہا کہ ڈاکٹر شاہد ملک تو خود کارڈیالوجسٹ ہیں، آپ کو یہاں کیسے بھیج دیا؟ اِس سے پیشتر کہ آئینی ترمیم سے گلاب کی خوشبو کسی اور پھول سے موسوم کر دی جائے، کیوں نہ مَیں ہی سیالکوٹ جاؤں اور بلدیہ سے شاہد ملک کی بجائے احمد منیر والی پرچی نکلووا لاؤں۔