جہان شوکت

     جہان شوکت
     جہان شوکت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  ”میاں محمد شوکت…… رنگ گورا، ماتھا اونچا اور چوڑا، چہرہ بیضوی،آنکھیں روشن اور بڑی، جسم کسرتی، داڑھی طویل نہ مختصر، تبسم برلب، بالا و بلند قامت، نرم گفتار، سبک رفتار، مزاج سادہ، پختہ ارادہ، بات کا پکا، قول کا سچا، گرم دم جستجو، اس کے مداح چار سو، حیدر آباد اس کی سلطنت۔“

میاں محمد شوکت کے متعلق جناب مجیب الرحمن شامی کے یہ الفاظ پڑھتے ہوئے مجھے 1985ء کی وہ سہ پہر یاد آ رہی ہے، جب میری میاں شوکت صاحب سے پہلی اور آخری ملاقات ہوئی تھی۔ میں سندھ کے صحافتی دورے پر تھا۔ کراچی میں پروفیسر غفور صاحب کا ایک طویل انٹرویو کیاتھا اور سن میں جناب جی ایم سید سے دھماکہ خیز ملاقات ہوئی تھی۔ سندھ کی دوسری صحافتی اور سیاسی شخصیات سے بھی ملاقات ہوئی تھی۔ مگر میاں محمد شوکت صاحب سب سے مختلف تھے۔ باوقار، متین، حالات پہ گہری نظر رکھنے والے۔

مارچ 1977ء کے انتخابات میں وہ بے مثال مقبولیت کے ساتھ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے اور جب بھٹو حکومت نے انہیں گرفتار کیا تو پورا حیدر آباد سراپا احتجاج بن گیاتھا۔ ان کی گرفتاری پر حیدر آباد کی خواتین نے زبردست احتجاج کیا تھا۔18مارچ کو لطیف آباد حیدر آباد میں خواتین کا احتجاجی جلوس یہ بینر لے کر نکلا تھا ”بتاؤ ہمارا شوکت کہاں ہے؟“ مگر وہ صبر و شکر کی مثال تھے۔ ظہیر احمد کو اپنے خط میں انہوں نے جیل کے مبالغہ آمیز مظالم بیان کرنے کی بجائے سادگی سے لکھا تھا۔ 

”باقی سب خیریت ہے۔ یہاں کراچی و حیدر آباد کے احباب کی خاصی بڑی محفل جمی ہوئی ہے۔ تھانہ بولا خان میں تو تنہائی کی وجہ سے صبح سے شام کرنا  جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا۔ لیکن یہاں وقت کا احساس نہیں ہوتا۔“

ظہیر احمد صاحب سندھ کے ممتاز صحافی ہیں۔ بلکہ سندھ کی سیاست پر انہیں بجاطور پر اتھارٹی قرار دیا جا سکتا ہے۔ظہیر صاحب لاہور آتے تھے تو ان سے ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ اب ان کی کتاب ”جہان شوکت“ سے ملاقات ہوئی تو یادوں کے دریچے وا ہو گئے۔ان سے فون پر بات ہوئی۔ وہ اپنی عمر زیادہ ہونے کا گلہ کرتے ہیں مگر ان کی آواز میں وہی جذبے کی شدت ہے اور ان کی سوچ اسی طرح جوان ہے جب انہوں نے سندھ میں جرآت مندانہ صحافت کی مثال قائم کی تھی۔

”جہان شوکت“ میں میاں محمد شوکت کی شخصیت، زندگی، کردار اور جدوجہد کا احاطہ کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ ظہیر احمد صاحب نے ”جہان شوکت“ بڑی عرق ریزی سے تحریر کی ہے۔ وہ صحافیوں کی اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں  جہاں صرف اور صرف سچ اور حقائق کو صحافت کا درجہ حاصل ہے۔ ان کی کتاب میں میاں شوکت پوری آب و تاب سے ہی نظر نہیں آتے بلکہ ہماری قومی تاریخ میں سندھ کا وہ دور زندہ ہو گیا ہے۔

میاں محمد علی نے اپنے مضمون میں بتایا ہے کہ ”1921ء میں جب تحریک خلافت کا عروج تھا تو مولانا شوکت علی اور مولانا محمدعلی جوہر اپنی والدہ ”بی اماں“ کے ہمراہ بستی پٹھاناں تشریف لائے۔ اس موقع پر مقامی لوگوں نے ایک بڑے جلسہ کا اہتمام کیا اور یہ جلسہ ہمارے گھر کے سامنے بڑے میدان میں منعقد ہوا جو نہایت کامیاب رہا۔ دادا نے دلچسپی کے ساتھ جلسہ عام میں بھرپور شرکت کی اور جب گھر واپس آئے تو نومولود ہونے کی خوشخبری دی گئی،جس پر انہوں نے اسی وقت نومولود کا نام شوکت علی تجویز کر دیا۔“

میاں شوکت پر ان کی صاحبزادی خورشید طاہرہ کا مضمون تو دل کو چھو لیتا ہے۔ اپنے عظیم والد کو یاد کرتے ہوئے وہ لکھتی ہیں ”ان کا ظاہر و باطن ایک ہی جیسا تھا۔ جتنے خوبصورت تھے، اس سے کہیں زیادہ خوب سیرت تھے۔ بات کرتے تو پھول جھڑتے معلوم ہوتے۔ ان کو دل میں اترنے کا فن آتا تھا۔ انتہائی ہمدرد و شفیق انسان تھے۔ بہت سے گھروں کے چراغ ان کی وجہ سے روشن تھے۔ کبھی کسی کا حق نہیں مارا۔ لیکن ہمیشہ حق بات ضرور کہی۔ زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ دیکھے لیکن کبھی گھٹنے نہیں ٹیکے۔ کسی کے سامنے جھکنا ان کی فطرت میں شامل ہی نہیں تھا۔ جیل کی صعوبتیں بھی اٹھائیں لیکن ہار نہیں مانی۔ جو ٹھان لیتے تھے، پھر وہ کر دکھاتے تھے۔ مالی پریشانیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرتے۔ ابا جان تو اس دنیا سے چلے گئے لیکن ہمارے دل میں آج بھی زندہ ہیں۔ آج بھی جب کوئی مشکل پڑتی ہے دل ہی دل میں ان سے مشورہ کر لیتے ہیں۔ زندگی گزارنے کے جو اصول انہوں نے ہمیں سکھائے تھے، وہ آج بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔“

ڈاکٹر سویرا شامی کی خوش قسمتی یہ بھی ہے کہ میاں شوکت ان کے نانا تھے۔اپنے نانا کی شفقت ان کا سرمایہ حیات بھی ہے۔ وہ اپنے نانا کو یاد کرتے ہوئے لکھتی ہیں۔

”وہ زبردست عالم دین تھے، مقرر تھے، لکھاری تھے، مفکر تھے، بہترین شوہر تھے، اچھے بھائی تھے، قابل فخر باپ تھے، نامور سسر تھے، مثالی نانا تھے۔ میدان سیاست کے منجھے ہوئے کھلاڑی تھے اور سیاسی سیاسی داؤ پیچ سے بخوبی واقف تھے لیکن یہ کھیل پوری دیانتداری و ایمانداری سے کھیلنے کے قائل تھے۔ ہر بات دلیل سے کرتے تھے اور دوسرے کی بات سننے کا حوصلہ بھی رکھتے تھے۔ کھری بات کرتے تھے اور سیدھی بات سننے کے عادی تھے۔ بڑی سے بڑی پریشانی کا مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتے تھے۔ مشکل سے مشکل گھڑی میں بھی کمزور نہیں پڑتے تھے۔“

”جہان شوکت“ ایک ایسے سیاستدان کی داستان حیات ہے جس نے سچائی اور دیانتداری کے ساتھ سیاست کی اور حیدر آباد کے عوام کے دلوں میں بے پناہ عزت پائی۔ میں اس کالم کا اختتام عمر مجیب شامی کے ان الفاظ کے ساتھ کرتا ہوں۔

”جانے والے بہرحال چلے جاتے ہیں۔ بس اپنی یادیں چھوڑ جاتے ہیں۔ ہمارے نانا بھی برسوں پہلے اپنے اللہ کے حضور پیش ہو چکے ہیں اور جہاں ہیں وہاں تو کوئی خط بھی نہیں پہنچتا۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ بہترین مقام پر ہوں گے۔“

مزید :

رائے -کالم -