”کنواورمحکمہ“
ہمارے ہاں عمومی تاثر یہ ہے کہ دفاتر میں لوگ بالکل کام نہیں کرتے۔ واقفانِ حال کامگریہ کہنا ہے کہ اکثر اوقات سرکھجانے کی فرصت بھی نہیں ملتی۔ کئی ضروری اور فوری نوعیت کے کام یکدم سر پر آن پڑتے ہیں۔ افسر اور عملے کو دن رات کام کرنا پڑتا ہے۔ ایک ضلع میں انتظامی افسران کو ایسی صورتِ حال سے گذرنا پڑا۔ صاحبِ ضلع اور اُن کے اسٹاف افسر تعینات ہوئے ہی تھے کہ فوری نوعیت کے کافی مسائل کاسامنا کرناپڑا۔ اعلیٰ حکام کا دورہ بھی جلد ہی متوقع تھا۔ چند دیگر معاملات بھی فوری توجہ اورمحنت کے متقاضی تھے۔ سٹاف افسر اور اُن کا ماتحت عملہ بھی دیگر ذمہ داران کی طرح دن رات کام کررہا تھا۔ ہمارے افسر اپنے کھانے پینے کا مناسب خیال نہ رکھ پا رہے تھے۔ ایک دن اُن کے دفتر ایک میٹنگ تھی۔ میٹنگ سے کچھ دیر پہلے وہ بھوک سے مجبور ہوکر کنو کھا رہے تھے۔ دو کنوچھیل کے رکھے ہوئے تھے۔ درجن بھر کنو چھیلے بغیر بھی رکھے ہوئے تھے۔ میٹنگ کے شرکاء سے اُن کا تعارف نہیں تھا۔ ایک صاحب اُن کے کمرے میں تشریف لائے۔ انہوں نے مہمان افسر کو بھی کنو کھانے کی دعوت دی۔ مہمان افسر نے چھیلے ہوئے کنو اُٹھا کر کھا لیئے۔ شکریہ ادا کیا۔ ہمارے صاحب نے افسر سے اُن کے محکمے کی کارگزاری کے بارے میں پوچھنا شروع کردیا۔ مہمان نے بڑی خوشگوار حیرت سے پوچھا ”پہلے آپ یہ بتائیں کہ آپ کو میرے محکمے کااندازہ کیسے ہوا“۔ ہمارے افسر نے جواب دیا ”بہت آسانی سے۔ آپ کے کنوکے انتخاب سے آپ کے محکمے کاپتہ چل گیا۔ میں جانتا ہوں کہ بعض محکمے کسی بھی مہم کے آخر میں مہم کاحصہ بنتے ہیں اور سارا کریڈٹ خود لے جاتے ہیں“۔بعض لوگ جائے سکونت کا اندازہ لگانے کے ماہر ہوتے ہیں۔ہمارے ایک دوست اسلام آباد گئے۔ بسوں کے اڈے پر اُترے اور اندازہ لگاکراپنی منزل مقصود کی طرف پیدل ہی چل پڑے۔
تھوڑی دور بعد انہیں خیال آیا کہ کسی سے راستہ سمجھ لینا چاہیئے۔ ایک صاحب پاس سے گزررہے تھے۔ انہیں ایڈریس بتاکر راستہ پوچھا۔ جواب ملا”آپ فلاں شہرمیں کس جگہ رہتے ہیں“۔ ہمارے دوست نے شدید حیرت سے سوال کیا”آپ کو کیسے پتہ چلاکہ میں کس شہر کا رہنے والا ہوں“۔ وہ صاحب کہنے لگے ”اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ میں خود بھی اُسی شہرکا رہنے والا ہوں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اپنے علاقے کے لوگوں کی عادت ہوتی ہے اگر میلوں دور بھی جانا ہوتو پیدل ہی چل پڑتے ہیں۔ اگرآپ اڈے پر ہی کسی سے پوچھ لیتے تو وہ آپ کو مقامی طور پر چلنے والی بس کا نمبر بتادیتا۔ آپ نے اب تک اپنی منزل مقصود پرپہنچ بھی جاناتھا“۔کافی عرصہ پہلے کی بات ہے کہ ایک صاحب لاہور تشریف لے گئے۔ انہوں نے یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی جانا تھا۔ ایک صاحب سے راستہ پوچھا تو بتایا گیاکہ ”نو نمبر کی بس پر بیٹھ جائیں۔ وہ آپ کو سیدھا یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈٹیکنالوجی لے جائے گی“۔ مشورہ دینے والے صاحب مشورہ دے کر اپنی راہ چل پڑے۔ کافی دیر بعد وہ صاحب اپنی سواری پر گھر جارہے تھے تو ہمارے صاحب پیدل چلتے نظر آئے۔ انہیں بڑی حیرت ہوئی۔ گاڑی روکی۔ معذرت خواہانہ لہجے میں کہا ”شاید آپ کے پاس بس کا کرایہ نہیں تھا آپ مجھے بتا دیتے“۔ جواب ملا ”الحمد اللہ پیسوں کاکوئی مسئلہ نہیں۔ میری جیب میں اس وقت بھی کافی رقم موجود ہے۔ بس مجھے نو نمبر پسند نہیں ہے۔ میں اس نمبرسے الرجک ہوں۔ اس نمبر سے بچتا ہوں اس لیئے سوچا پیدل ہی چلا جاؤں“۔ہمارے صاحب اپنی سواری سے اُترے۔ مسافر کو گلے لگایا۔ اپنے شہر کے ایک بھائی سے ملاقات پر دلی خوشی کااظہار کیا۔کچھ لوگ وطن سے باہر جاکر بھی وطن میں ہی رہتے ہیں اور کچھ لوگ باہر سے واپس آکر بھی جامے سے باہر ہی رہتے ہیں۔ ایک صاحب کسی زمانے میں دو سال لندن گزارآئے۔ وطن واپس آئے انہیں کافی عرصہ ہوچکا تھا۔ ملک سے باہر جاتے ہوئے بھی اُن کی عمر کم نہیں تھی۔
اپنے ملک میں گزارے گئے کئی سالوں پر یہ دو سال بہت بھاری تھے۔ اُن کے بچپن کے ایک دوست وطن پرست تھے۔ طویل مدت بعد اپنے دوست سے ملنے آئے۔ تھوڑی دیر بعد ہی واپس جانے لگے۔ ہمارے صاحب نے حیرت سے واپسی کی وجہ پوچھی تو جواب ملا ”مجھے غلط فہمی ہوئی تھی۔ میرا دوست تو ابھی دیارِغیر سے لوٹا ہی نہیں“۔ایک خاتون بہت خوبصورت اور خوب سیرت تھیں۔ شومئی قسمت سے اُن کی شادی ایک ایسے آدمی سے ہوگئی جس کا مزاج اُن سے بالکل نہیں ملتا تھا۔ شوہر صاحب کو شوہر کے حقوق توخوب اچھی طرح معلوم تھے، مگر فرائض کی بابت اُن کا علم صفرتھا۔ شادی کے کافی سال گزرنے کے بعدبھی صاحب کا علم صفر ہی رہا۔ خاتون نے اُن کو بدلنے کی پوری کوشش کی مگرشوہر بہت ڈھیٹ ثابت ہوئے۔ آخرکار خاتون کے اعصاب جواب دے گئے۔ انہوں نے احسن طریقے سے الگ ہونا چاہامگر شوہر طلاق دینے پر کسی طرح آمادہ نہ ہوئے۔ وہ ناراض ہوگئیں اوراپنی ایک سہیلی کے ساتھ رہنا شروع کردیا۔ سہیلی ایک دن خاتون کو اپنے مرشد کے پاس لے گئیں۔ خاتون کامسئلہ سن کر مرشد نے جلالی لہجے میں پیش گوئی کی ”تجھے ہفتے کے دن طلاق مل جائے گی“۔ خاتون خوشی خوشی واپس آگئیں۔ ہفتے کیا مہینے گذر گئے مگر شوہر نے طلاق دینے کا کوئی ارادہ ظاہر نہ کیا۔ دوبارہ مرشد کے پاس تشریف لے گئیں۔ صورت حال بتائی۔ جلالی لہجے میں جواب ملا ”تجھے ہفتے کے کسی دن طلاق ملے گی۔ وہ دن جمعرات،جمعہ یا ہفتہ ہوگا، اتوارہوگا۔ سوموار ہوگا۔ ہمارا گستاخ خوار ہوگا۔ منگل ہوگا۔ بدھ ہوگا۔ دشمنوں سے یدھ ہوگا۔ تیرا کام سدھ ہوگا۔خاتون خوشخبری سن کر جھوم جھوم گئیں۔ واپس جاکر بھی تادیر جھومتی رہیں۔ اتنی جھومیں کہ لوگ اُن کے اعلیٰ مقام سے واقف ہوگئے۔ اب وہ خود مرشد کے درجے پر فائز ہیں۔ لوگ دعا کروانے اور تعویزلینے آتے ہیں۔ مدت ہوئی شوہر طلاق دے گیا تھا۔ معافی بھی مانگ گیا تھا۔ کسی جمعرات وہ بھی آتا ہے۔ دعا کرواتاہے۔ شرافت سے قصیدے پڑھتا، چلا جاتاہے۔