کرپشن کا تدارک اور سیاسی کشیدگی ختم کریں 

کرپشن کا تدارک اور سیاسی کشیدگی ختم کریں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  وطن عزیز معاشی لحاظ سے محدود مالی وسائل ہونے کی بنا پر اشد ضروریات کے علاوہ دیگر امور پر تا حال زیادہ مالیت کے اخراجات کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس لئے جون کے پہلے ہفتے یا عشرے میں وفاقی حکومت کی جانب سے مالی سال 2024-25 کے لئے پیش کئے جانے بجٹ میں گزشتہ سالوں میں کئے جانے والے غیر ضروری اخراجات میں کمی کر کے ترقیاتی منصوبوں پر عمل داری کیلئے زیادہ فنڈز مختص کئے جائیں۔ 2 کروڑ، 60 لاکھ بچوں کو سکول تعلیم دلانے کے لئے منصوبہ سازی کر کے قریبی اداروں میں فوری داخل کرانے کے انتظامات کئے جائیں۔ تاکہ وہ معاشرے کی بے راہروی کی حرکات اور جرائم کی دنیا میں اضافہ کرنے کے خدشات سے محفوظ رہ سکیں۔ یاد رہے کہ مذکوہ بالا بچے ہماری قوم کا ہونہار اثاثہ ہیں۔ جن کی حتی الوسع جلد اور بہتر انداز سے تعلیم و تربیت کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے تاکہ وہ آئندہ چند سال میں ملک کے ذمہ دار اور وفادار شہری بن کر ملکی تعمیر و ترقی میں قابل ذکر اور سود مند کردار ادا کر سکیں۔ بصورت دیگر وہ بھکاری یا سماج میں موجود منفی سرگرمیوں میں شامل ہو کر جرائم اور تخریبی نوعیت کی حرکات کی عادات میں ملوث ہو کر معاشرے کی بد امنیا ور بد نظمی کے حالات میں اضافہ کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ لہٰذا اس بارے میں متعلقہ وزارتوں اور الیٰ حکام کو جلد کوئی جامع، موثر اور قابل عمل پالیسی وضع کر کے مثبت کارکردگی کے نتائج کے حصول کی پیش رفت پر گامزن ہونا چاہئے۔ اس منصوبے کو سنجیدگی اور مسلسل توجہ سے مقررہ اوقات میں کامیابی سے مکمل کرنے کی تگ و دو کی جائے۔

سرکاری اداروں کے مروجہ غیر ضروری اور عیاشانہ روش کے اخراجات کم کرنے میں مزید کوئی تاخیر اور حیلہ سازی نہ کی جائے۔ عوام کے ٹیکسوں کا نہایت احتیاط، کفایت شعاری اور دیانتداری سے استعمال ایک مستقل اصول زدگی اور لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔ کیونکہ بے تحاشا رقوم کا اسراف ملکی وسائل پر بوجھ بنتا ہے۔ 

مل کے بیشتر سرکاری اداروں میں محنت اور دیانتداری سے اپنے فرائض سر انجام دینے کی بجائے بدقسمی سے ہر سال کروڑوں اور اربوں روپے کی خطیر رقوم پر مبنی بد عنونی کی وارداتیں رونما کرنے کی اطلاعات زیادہ تر کچھ عرصوں کے بعد منظر عام پر آتی ہیں۔ اس وقت تک زیادہ تر ملزم افراد وہ رقوم یا قومی دولت لوٹ کر خورد برد کر لیتے ہیں یا اپنے دفاتر سے راہ فرار اختیار کر کے، بعض خفیہ مقامات یا ایسے بیرونی ممالک کے دور دراز علاقوں کے مجرموں کے بعض مخصوص یا محفوظ ٹھکانوں میں پناہ لینے پہنچ جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ جب متعلقہ دفاتر میں ایسی غیر قانونی کارروائیوں کا ارتکاب کیا جاتا ہے تو ان مجرم افراد جو سینئر افسر ہوں یا ماتحت ملازمین کے افسران بالا اور ان مجرموں کے ماتخت ملازمین کو تو ان دفاتر کی متعلقہ فائلوں سے فوری مذکورہ بالا غلط کار حرکات و ارتکاب کا علم ہو جاتا ہے۔ تو ظاہر ہے کہ اگر ان ملزمان کے سینئر افسران اور ماتحت ملازمین مذکورہ بالا غیر قانونی چالوں پر مبنی قومی خزانے کی لوٹ کھسوٹ کی واراتوں کے جلد بعد ان ملزمان کی قانونی گرفت کے اقدامات اٹھا کر ان افراد سے خوردبرد کی گئی رقوم یا مالی وسائل واپس لینے کی قانونی کاروائیاں اختیار کرنے کی باقاعدہ منصوبہ سازی تیار کر لیں تو امید واثق ہے کہ ایسی کئی غیر قانونی حرکات کی منصوبہ سازی بروقت قانونی کاروائیوں کے اقدامات سے ناکام بنائی جا سکتی ہے۔ اس بارے میں وفاقیا ور صوبائی سطحوں پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بحث کر کے متعلق امور پر قانون سازی کی جا سکتی ہے یا ان کے انتظامات میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔

کرپشن کا سدباب ملکی معیشت کی بہتری کے لئے بہت اہم انداز کی ذمہ داری ہے۔ اس بارے میں سیاسی قیادت اور سینئر سرکاری حکام کو باہمی مشاورت اور متعلقہ قوانین پر جلد عمل درآمد کے اقدامات سے ہر سال ہزاروں ارب روپے کی خورد برد پر قابو پانے میں خاصی حد یا کم و بیش 50 فیصد مالی وسائل کو قانونی گرفت میں لانے کے موثر انتظامات کرنے میں کامیابی حاصل کرنے کی حکمت عملی اختراع اور تیار کرنے میں مزید تذبذب اور سست روی جلد ختم کرنے کے جاندار اور قابل عمل اقدامات بروئے کار لانا ہوں گے۔ اس معاملے میں جرات و ہمت سے بدعنوانیوں کے سد باب کی خاطر سنجیدہ اور قانونی طور پر ٹھوس اور واضح مواد کے علاوہ تازہ قنونی حوالوں کی مدد سے عدالتی فیصلوں سے بھی معاونت لی جائے۔ اگر ہم قانون شکنی کے مجرموں کی ہیرا پھیری  کے واقعات کی تفتیش اور جانچ پڑتال سے ان کو سزا دلانے اور اربوں روپے کی خورد برد کی گئی رقوم کی واپسی کی تگ و دو میں کامیابی نہیں ہو سکتے تو حکومتی اداروں کیمقدمات کی پیروی کرنے والے وکلاء صاحبان کو زیادہ عرق ریزی سے عدالتی معاملات پر زیادہ توجہ دینے کی سعدی کرنے پر مائل کیا جانا ضروری ہے۔ تاکہ بڑی مالی رقوم اور قیمتی وسائل پر مبنی خورد برد کے مقدمات کے مجرمان، قانونی سزا سے نہ بچ سکیں اور ان کو لوٹی گئی قومی دولت کی رقوم یا معقول شرح سود کے ساتھ، متعلقہ اداروں کو واپس کرنی پڑیں۔ اس بارے میں عدالتی جج صاحبان کو بھی زیادہ محنت توجہ اور جدید تکنیکی ذرائع کے استعمال سے اپنے فرائض نبھانے کی کاوشیں قومی خدمت کے نیک مقاصد کے حصول کی خاطر، ادا کرنے پر ترجیح دینے کی گزارش کی جاتی ہے۔ اگر ملک کے ملازمین بھی ملکی وسائل سے تنخواہیں اور مراعات لینے کے باوجود کرپشن میں ملوث ہونے کی وارداتیں جاری رکھنے کے حربے اختیار کر کے ملکی مالیاتی وسائل  کی چوری کرنے یا اپنے سرکاری اختیارات کا ناجائز استعمال کر کے عام لوگوں سے رشوت خوری کی روش کا سیاہ دھندا کرنے پر فخر محسوس کریں گے، تو ایسی ملازمت کی بلیک میلنگ کی کارروائیاں کسی طور جائز اور قابل معافی حرکات نہیں ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مختلف سرکاری اداروں کے اعلیٰ افسران خود بھی کسی قانونی اور بد دیانتی کی کارروائی میں ملوث نہ ہوں اور نہ ہی وہ اپنے تحت ملازمین کو اس کج روی اور قومی دولت کی لوٹ کھسوٹ میں کسی ناجائز حرکت کے ارتکاب میں کسی طور نرمیا رو رعایت کے برتاؤ کا مظاہرہ نہ کریں بلکہ قومی خزانے کو نقصان سے دو چار کرنے والے ملازمین اور ان کے دیگر ساتھی ملزمان کو بھی متعلقین سخت اور قانونی طور پر تادیبی احکام کے ذریعے منفی کاروائیوں کی ابتدائی مراحل میں ہی سرزنش اور سرکوبی کرنے کے موثر اور فوری اقدامات کئے جائیں۔ اگر اس میدان میں متعلقہ سیاسی رہنماؤں اور سینئر افسران کی کاوشیں قابل ذکر حد تک کامیاب ہو سکتیں تو ایسی جرات مندانہ کارکردگی اور جج صاحبان کی کاوشیں قابل داد اور تحسین کی مستحق ہیں۔ 

مزید :

رائے -کالم -