برطانیہ1-
اکتوبر کے اختتام پر دو ہفتوں کے لیے برطانیہ جانا ہوا۔ برطانیہ کے مختلف شہروں میں میرے قریبی دوست احباب نے کچھ تقریبات کا اہتمام کر رکھا تھا، جن میں میڈیا‘ معاشرے اور معیشت سے متعلق اہم شخصیات کو کاروان علم فاؤنڈیشن کی پاکستان میں خدمات کے بارے میں آگاہ کرنے کا منصوبہ تھا۔ میرے دوستوں کا خیال تھا کہ موسم سرما شروع ہونے والا ہے اور برطانیہ کی سردیاں چونکہ شدید ہوتی ہیں تو سماجی سرگرمیاں کم ہو جاتی ہیں‘ لہٰذا آٹم(Autumn) یعنی موسمِ خزاں میں ہی مذکورہ بالا تقریبات کا انعقاد بہتر رہے گا۔ میری برطانیہ میں موجودگی اسی سلسلے میں تھی۔ سننے میں آیا کہ برطانیہ میں بڑی سردی پڑ رہی ہے۔ رہی سہی کسر دوستوں نے برطانیہ کی جما دینے والی ٹھنڈ سے ڈرا کر پوری کر دی‘ چنانچہ میرے سامان میں کچھ گرم کپڑے اور سردی سے بچاؤ کا بندوبست موجود تھا لیکن جب ہیتھرو ایئر پورٹ پر اترا تو جانا کہ اتنی بھی ٹھنڈ نہیں جتنا مجھے ڈرایا گیا تھا۔
ایئر پورٹ سے باہر آیا تو جو پہلا تاثر قائم ہوا وہ برادرم اشتیاق گھمن کی جانب سے میرا گرم جوش استقبال تھا۔ مصافحے کے بعد جونہی وہ بغل گیر ہوا یقین جانیں 11 گھنٹے کے سفر کی ساری تھکان اور کلفت یک لخت دور ہو گئی۔ اشتیاق نے میرا ہاتھ تھاما اور ایئر پورٹ کے اندر واقع ایک کافی شاپ پر لے گیا۔ بولا: پہلے کافی پئیں‘ تازہ دم ہوں‘ پھر آگے بڑھتے ہیں۔
میں نے ابھی کافی کے ابتدائی چند سپ (Sip) ہی لیے تھے کہ اشتیاق یک دم اٹھا اور کہیں غائب ہو گیا۔ چند لمحوں بعد ظاہر ہوا تو اس کے ہاتھ میں برطانیہ کی سم (Sim) تھی۔ میرا موبائل سامنے میز پر پڑا تھا۔ اس نے موبائل اٹھایا اس میں یو کے (United Kingdom) کی سم ڈالی اور کہنے لگا: اس میں کالز اور انٹرنیٹ کا سفیشنٹ (Sufficient) مواد یعنی ڈیٹا موجود ہے‘ جو 11 روز آپ نے برطانیہ میں رہنا ہے‘ اس میں آپ کو کالز کرنے اور انٹرنیٹ استعمال کرنے میں سہولت رہے گی۔
برطانیہ میں وارد ہوتے ہی اشتیاق کے یوں یکے بعد دیگرے اظہار محبت نے مجھے اپنا مزید گرویدہ بنا لیا۔ یہ اشتیاق صاحب کی محبت اور الفت کا پہلا اظہار نہ تھا۔ اسی سال فروری میں جب میں لندن گیا تھا تو اس وقت بھی اشتیاق بھائی نے اپنی محبتوں کا بھرپور اظہار کیا تھابلکہ میرے اعزاز میں لندن میں جو پہلی تقریب رکھی گئی تھی اس کا اہتمام اشتیاق ہی نے کیا تھا۔ وہ تقریب ایک ہوٹل میں رکھی گئی تھی۔ یہ ایک باقاعدہ ڈنر پارٹی تھی جس میں اس نے مقامی صحافی دوستوں کو مدعو کیا ہوتا تھا‘ جن میں تمام پاکستانی ٹی وی چینلز کے بیوروچیف صاحبان تھے اور ان کے علاوہ مختلف اخبارات سے وابستہ صحافی بھی موجود تھے۔ اُس نشست میں بھی مجھے دوستوں کو کاروان علم فاؤنڈیشن کی خدمات کے حوالے سے آگاہ کرنے کا موقع ملا اور تمام دوستوں نے اپنے اپنے میڈیا پلیٹ فارمز پر اس نشست کو بھرپور کوریج بھی دی۔
بہرحال لمبے سفر کے بعد گرم کافی کا لطف اٹھایا تھا اور پھر بیٹھے بیٹھے فون کے لیے اچھا خاصا ڈیٹا بھی مل گیا تھا تو میں خاصا ہشاش بشاش ہو گیا تھا۔ کافی سے فارغ ہوئے تو اشتیاق نے اپنی محبت سے مجھے تیسری بار خوش گوار حیرت میں ڈال دیا۔ وہ لندن میں قیام کے دوران میری عارضی رہائش گاہ تک مجھے چھوڑنے بھی آئے حالانکہ یہ کوئی آسان کام نہ تھا کیونکہ اس وقت سہ پہر کے چار بجے تھے اور یہ وہ وقت ہوتا ہے جب لندن کی سڑکیں فل رش میں ہوتی ہیں۔ برطانیہ میں میرے ٹھہرنے کا بندوبست رضوان سلہریا نے کر رکھا تھا اور یہ جگہ لندن ایئر پورٹ سے خاصے فاصلے پر تھی۔ رضوان سلہریا صاحب پاکستان اور برطانیہ‘ دونوں جگہ بڑی مقبول شخصیت ہیں۔ ان کے اوصاف حمیدہ کا تذکرہ آگے چل کر کروں گا‘ پہلے اشتیاق گھمن صاحب کی عنایتوں اور محبتوں کا احاطہ کر لوں۔
لندن ایئر پورٹ پر میرے پاس ایک ہی آپشن تھا۔ یہ کہ ایئر پورٹ سے بذریعہ ٹرین اپنی رہائش گاہ والے علاقے الفرڈ (Alfred) چلا جاؤں‘ جو وہاں سے ایک گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ الفرڈ میں رضوان بھائی نے مجھے لے لینا تھالیکن میرے دوست اشتیاق صاحب کی ’غیرتِ دوستی‘ نے یہ گوارا نہ کیا کہ ان کے ہوتے ہوئے میں بذریعہ ٹرین اپنے علاقے میں جاؤں‘ چنانچہ وہ اپنی گاڑی پر مجھے چھوڑنے میرے ساتھ گئے اور گاڑی پر ٹرین کا ایک گھنٹے کا راستہ دو گھنٹوں میں طے ہوا جس کی ایک وجہ تو میں نے ابھی بیان کی کہ سہ پہر کے وقت لندن کی سڑکوں پر رش بہت زیادہ ہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ موٹر وے پر جگہ جگہ کچھ کام بھی ہو رہا تھا۔ اشتیاق صاحب نے مجھے بتایا کہ برطانیہ کی موٹر ویز پر پورا سال کام ہوتا رہتا ہے۔ مجھے بھی اس بات کا علم تھا کیونکہ میں پہلے بھی کئی بار برطانیہ آ چکا ہوں اور ہر بار ایک سے دوسرے شہر جاتے ہوئے موٹر وے ہی استعمال کی اور میں نے وہاں ہر بار موٹر وے پر کام ہوتے ہی دیکھا۔
دو گھنٹے کا یہ سفر بھی پل بھر میں کٹ گیا۔ راستہ بھر اشتیاق صاحب سے متنوع موضوعات پر باتیں ہوئیں۔ برطانیہ میں صحافتی سرگرمیاں‘ پاکستانی کمیونٹی کے شب و روز‘ کاروبار‘ موسم‘ سیاست اشتیاق سے کسی بھی موضوع پر بات کر لو اطمینان بخش جوابات ملتے ہیں۔ اشتیاق صاحب کے پاس معلومات کا سمندر ہے اور وہ اس میں سے دریا بہاتا رہتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اشتیاق کا تعلق ایک علمی گھرانے سے ہے۔ ان کے پورے خاندان کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے اور اشتیاق نے جماعت ہی کے ماحول اور تربیت میں آنکھ کھولی اور پھر بچپن‘ لڑکپن اور جوانی کی منزلیں طے کیں۔ اس تربیت نے ہی اشتیاق کی شخصیت میں بہت سی خوبیاں پیدا کر دی ہیں۔ ان میں عاجزی ہے‘ انکساری ہے، دوستوں اور لوگوں کے ساتھ عزت اور احترام والا رویہ نمایاں ہے۔ تعلیم‘ مطالعہ‘ ریسرچ اس خاندان کا اوڑھنا بچھونا رہے ہیں۔ سونے پہ سہاگا یہ کہ اشیاق صاحب صحافت سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم منصورہ لاہور میں رہتے ہوئے حاصل کی۔ سکول کے بعد کالج کی تعلیم مکمل اور پھر پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے ایجوکیشن کرتے ہی بہتر مستقبل کے لیے لندن آ گئے۔ وہ جو لاہور کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جو ایک بار لاہور آ جائے‘ پھر لاہور اسے واپس نہیں جانے دیتا‘ تو میرا خیال ہے لندن کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ یہ بھی بڑا مہمان نواز اور ویلکمنگ (Welcoming) شہر ہے۔ ہر کسی کو خوش آمدید کہتا ہے اور اپنے اندر سما لیتا ہے۔ اشتیاق لندن گیا تو اس امید پہ تھا کہ میں چند سال رہوں گا اور کچھ اچھے پیسے کما کر واپس آ جاؤں گا‘ لیکن پھر وہ لندن کے ہی ہو کر رہ گئے۔ اشتیاق‘ رضوان اور مزید کچھ دوستوں کے بارے میں مزے مزے کی باتیں اگلے کالم میں۔