خودکشی کے لئے انٹری ٹیسٹ

کون کہتا ہے کہ بیج ہی سے گل و گلزار سینچے جاتے ہیں۔کون انکاری ہے کہ مہکتی خوشبو کے پیچھے موسم ، آب و ہوا، زمین ،پانی اور جانفشانی کے عوامل کار فرما نہیں ہوتے۔ کس کا خیال ہے کہ قوموں کی قسمتیں ان کے افراد کے ہاتھوں میں نہیں ہوتیں۔ جسم کی مسیحائی کے لئے اگر طب کا شعبہ ہے تو روحوں کو صحت علم دیتا ہے۔ وہ علم جو اقراء کی صورت ابنِ آدم کی بھلائی لکھتا ہے۔ وہی علم جو دل و جاں کو منور کرتا ہے۔ آج اسی علم کو تجارت اور عالم کے ہاتھوں ہتھکڑیاں دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ قصور ہتھکڑی ڈالنے والوں کا ہے یا ان ہاتھوں کا جن کو پہنائی گئی ۔اسیری زنجیر ان پہ الزام لگا رہی ہے کہ صفتِ پیغمبری میں خیانت ہوئی ہے۔ وہ خیانت جس کے مرتکب رب ذوالجلال کی نظر میں سب سے بڑے گناہگار ہیں اور ان کے لئے دوزخ کا سب سے گہرا گڑھا مختص ہے۔
یہ سب لکھتے ہاتھ اور قلم کانپتے ہیں 150 میں کئی دفعہ سوچتا ہوں کہ زبان بند ہی رکھوں لیکن جب علم پہ ہوتے کاروبار دیکھتا ہوں تو ہمت پاتا ہوں کہ کسی نہ کسی کو تو لکھنا ہے۔ علم جو ایک صنعت کا روپ دھار چکی ہے 150 مقابلے کی فضا نے بچوں سے بچپن و لڑکپن چھین لیا ہے۔ غریب بھی اگر اپنی اگلی نسل کا روشن مستقبل چاہتا ہے تو ان اداروں کو دی جانے وال فیس کے بوجھ تلے بلبلا رہا ہے۔ میں پرائیویٹ وسرکاری درس گاہوں کے معیار اور اٹھتے اخراجات پہ کچھ نہ بھی بولوں تو ایک انٹری ٹیسٹ کی صورت لٹکتی تلوار کو کیسے بھول سکتا ہے جس کی دھار تلے طالبِ علم اور ان کے ماں باپ ذبح ہو رہے ہیں۔ بارہ سال کی محنت اس ڈھائی گھنٹے کے مساوی ہے کہ جس کے بعد آنسوؤں کی وہ جھڑی لگتی ہے کہ ہر کسی کے لئے برداشت سے باہر ہے۔ اس ڈھائی گھنٹے کی اذیت سے بچنے کے لئے امیر ہو یا غریب وہ پرائیویٹ اکیڈمیوں میں پستا ہے یا پیسا جاتا ہے۔ انٹری ٹیسٹ کی تیاری میں اٹھنے والے بوجھ اور پیسے نے اسے ایک کامیاب انڈسٹری بنا دیا ہے۔ بڑے بڑے پروفیسر زاور نامور استاد ہر خاص و عام کو تعلیم ایسے بیچتے ہیں کہ ہر کوئی مجبور ہے۔ کوئی خوشی سے اور کوئی اپنی بچوں کی محبت و مستقبل کے خواب دیکھتا بے رحم پہیوں میں رگیدا جا رہا ہے۔
ابھی پچھلے سال ہی تو ان اکیڈمیوں کے ڈھائی گھنٹے کے پرچے میں وہ کھیل کھیلے گئے تھے کہ عدالتِ عالیہ نے اسے دوبارہ لینے کا حکم صادر فرمایا تھا 150 کیا ان اکیڈمیوں میں پیپرز نہیں بکے تھے۔ اس سال پیپرز کی تیاری میں خاص احتیاط ملحوظِ خاطر رکھی گئی تو اس میں اتنی غلطیاں تھیں کہ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز نے اسے پرکھنے کے لئے اپنے اپنے شعبے میں ماہر پروفیسرز کی ایک ٹیم تشکیل دی اور اس پیپر کے جوابات کے درست یا غلط ہونے کا فیصلہ اس پروفیسرز کے بورڈ نے امتحان کے بعد سنایا کہ اس کے دس نمبر سب کو دے دیے جائیں۔ بچے جس کرب سے گذرے اس پہ سوال تو کئی اٹھتے ہیں لیکن سب سے بڑا سوال تو ان بچوں کی قابلیت کا ہے کہ جن کو دیا جانے والا پرچہ ایسا ہے کہ ان کے جوابات ڈھونڈتے پروفیسرصاحبان بھی گو مگوں کا شکار ہیں۔ یہ کیسا امتحان ہے کہ جس کے جوابات سے اہلِ علم اور ماہر بھی مطمئن نہیں لیکن ان بچوں کے مستقبل کا فیصلہ کرتا ہے۔ سچ مانئیے تو آپ ان بچوں کا امتحان نہیں لے رہے بلکہ کروڑوں کا وہ کاروبار چمکا رہے ہیں جس میں صفتِ پیمبری ایک کاروبار بن رہی ہے۔
میں اپنے قابلِ صد احترام چیف جسٹس صاحب سے گذارش کرتا ہوں کہ ایسے غیر انسانی و غیر فطری سلوک کے بعد بھی آپ ملک کے لئے قوم کے معمار اور بیماروں کے مسیحا تلاش کر رہے ہیں تو یہ خام خیالی ہے۔ جس نے اس سفر میں اذیت ہی اذیت دیکھی ہو اس کا جذبہء ہمدردی سے ویسے ہی اعتبار اٹھ جایا کرتا ہے۔ جب جب انٹری ٹیسٹ کا موسم آتا ہے تو یہ اکیڈمیاں ہی نہیں ان اکیڈمیوں کے ارد گرد کے گھر طالب علموں کا گہوارہ ،ہوسٹل بن جاتے ہیں۔ ماں باپ اپنے بچوں کو دوسرے شہروں بھیجتے ہیں اورایک جدائی کاٹتے ہوئے اپنا پیٹ بھی کاٹتے ہیں۔ میں ایک ایسے خاندان کو بھی جانتا ہوں کہ جس نے اپنے لختِ جگر کو اکیڈمی بھیجنے کے لئے اپنا اور اپنے دوسرے بچوں کا کھانا تین ماہ کے لئے ایک وقت کر دیا تھا تاکہ اس بچت سے ان کا کل کسی اچھی سرکاری یونیورسٹی یا کالج میں پڑھ سکے کیونکہ پرائیویٹ کالجز میں پڑھانا اس کے بس کی بات نہیں ۔میں نے اسی باپ سے پوچھا بھی کہ کیوں کر رہا ہے وہ اتنا خرچ جو اس کے بس سے باہر ہے تو کہنے لگا بارہ سال اپنے بچے کے لئے ایک مشقت سے گذرا ہوں اور اگر ان بچوں کو اکیڈمی نہ بھیجوں گا تو میرا بچہ کہاں وہ جوابات دے پائے گا جس کے سامنے اعلیٰ ترین علم کے مالک بھی بے بس ہیں اور کہتے ہیں کہ سب کو دس نمبر دے دو۔ مزید کہنے لگا کہ اگر یہ میرے بچے کی بارہ سال کی محنت کا حاصل ہے تو کیوں اس کا یہ پرچہ انہیں کتابوں اور سلیبس سے ایک ہفتہ بعد لے لیا جاتا لیکن اگر سلیبس اور طریقہء امتحان ہی مختلف ہے تو پھر بارہ سال کی پڑھائی کا یا اس سے پہلے انٹر میڈیٹ کے امتحان کا کیا جواز جس کے لئے بنے تعلیمی بورڈز ملک و معاشرے پہ بوجھ ہیں۔ جس ملک میں خطِ غربت تین سو تیس روپے ماہانہ پہ کھنچتی ہو وہاں وہ باپ اپنے بچوں کی اکیڈمیوں میں تعلیم کا کیسے چالیس ہزار ماہانہ دے جو بڑے بڑے شہروں میں اپنی اپنی فرنچائزز کھولے ہوئے ایک کاروبار میں مصروف ہیں۔ اگر یہ تین ماہ میں تیار کروایا جانے والا سلیبس اور طریقہء تعلیم ہمارے بچوں کے لئے بہت ہی ضروری ہے تو ان کو اپنے شہر و دیہات میں سرکاری سطح پہ اپنی ہی درس گاہوں میں تین ماہ کا وقت اور دے دیا جائے اور اس کے بعد ایک ہی دفعہ ایک ہی مرکزی امتحان لے لیا جائے 150 اگر بات شفاف امتحان کی ہے تو یہ شفافیت تو ریاست کی ذمہ داری ہے پھر اس کا تختہء مشق کمسن ذہن ہی کیوں جن کی زندگی اجیرن کر دی جاتی ہے 150 حکومت اپنی ذمہ داریوں سے کوتاہی برتتے ان بچوں کو ذہنی مریض اور خودکشی کا رستہ دکھلاتی ہے۔
میر ی اپنے قارئین سے گذارش ہے کہ وہ بھی اربابِ اختیار سے مطالبہ کریں کہ انٹری ٹیسٹ کا سلیبس بھی انٹرمیڈیٹ کلاسز میں شامل کر دیا جائے اور ایک امتحان لے لیا جائے تاکہ اکیڈمیوں کے نام پہ صفتِ پیغمبری ایک کاروباری پیشہ نہ بنے اور سب کے گھروں میں ایسی تعلیم کے دیے جلیں جن کی روشنی کے لئے تیل کسی ماں باپ کا خون مہیا نہ کرے۔
نوٹ: ادارے کا کسی بھی بلاگر کے ذاتی نقطہ نظر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔