خیرات نہیں حقوق دو

خیرات نہیں حقوق دو
خیرات نہیں حقوق دو

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


دنیا جہاں پہنچنا چاہتی ہے بھلے پہنچ جائے مگر ہمارا معاشرہ تو ابھی تک غمِ روزگار ہی میں اَٹکا ہوا ہے نچلے طبقے سے لیکر اَپر مڈل کلاس تک ہر کوئی اسی روزگار کا رونا رو رہا ہے بلکہ اب تو سرمایہ داروں کے منہ بھی لٹکے ہوئے ہیں کہ آخر موجودہ حکومت ہمارے ساتھ کرنا کیا چاہ رہی ہے اچھا خاصا تنخواہ دار طبقہ بھی اب ہائے ہائے پر اْتر آیا ہے موجودہ حکومت کی تمام تر معاشی پالیسیاں ایک ایک کرکے زمیں بوس ہو چکی ہیں حتیٰ کہ وہ جو کبھی موجودہ حکومت کے ارسطو ہائے معیشت ہوا کرتے وہ بھی اب لامحالہ غلط معاشی پالیسیوں پر تنقید کرنے لگے ہیں البتہ چند ابنائے دہر حسبِ معمول اقتدار سے کماحقہ لطف اندوز ہو رہے ہیں نہیں معلوم کہ ہمیں کب سمجھ آئے گی کہ دراصل ہمارا دیرینہ اور مستقل مسئلہ معیشت ہی ہے،

حتیٰ کہ ہمارے انتہائی غیر معمولی ذہین بھی گل و بلبل، جام و سبو، وصل و فراق اور زلفِ یار سے اْکتا کر مجبوراً غمِ روزگار کی جانب ہی نکل پڑتے اب فیض صاحب کو ہی دیکھ لیں فرماتے ہیں کہ

دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے
ایک ایسا شخص جس نے غربت و افلاس اور انسانی بے بسی کو انتہائی قریب سے دیکھا تھا مقتدر مخالفین نے اْسے بھی اْنہی غرباء کی صف میں لا کھڑا کیا جن کے لئے وہ ریاستِ وقت سے لڑ رہے تھے۔معاشی آسودگی اور اعلیٰ تعلیم ہر بنی نوع انسان کا بنیادی حق ہے روئے زمین پر بسنے والا ہر انسان بہترین روٹی بہترین کپڑا بہترین مکان اور اعلیٰ تعلیم کا حق لیکر ہی پیدا ہوتا ہے اس دنیا میں کسی بھی فردِ واحد یا مقتدر طبقہ کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی بھی انسان کو اس کے بنیادی حقوق سے محروم کر دے ریاست ماں باپ سے کہیں بڑھ کر اپنے شہریوں کے حقوق کی محافظ ہوتی ہے بشرطیکہ وہ ریاست ہو ہم تو ایسے حرماں نصیب ہیں کہ ریاست کے ساتھ وہ جذباتی تعلق ہی نہیں قائم کر پائے جو تعلق مغرب کی چند ایک فلاحی ریاستوں میں شہری اپنی ریاست کے ساتھ رکھتے ہیں بندہ دیکھتا ہے تو عش عش کر اْٹھتا ہے کہ بھلا ایسے بھی ہوتا ہے اور لوگ اتنی جذباتی شدت و کمال دیانت کے ساتھ بھی اپنی ریاست سے وابستہ ہو سکتے ہیں۔


دنیا کی قدیم ترین تہذیب سناتن دھرم میں ریاست کو ماں جیسی عظمت سے نوازا گیا ہے اور ریاست کے لئے "دھرتی ماتا" کی اصطلاح استعمال کی جاتی رہی ہے اپنے وطن سے محبت دراصل اپنی ذات سے محبت ہے کیونکہ دنیا کا کوئی بھی انسان معاشرتی اقدار سے ٹوٹ کر سروائیو نہیں کر سکتا اور ریاست تو معاشرت کی جائے پیدائش ہوتی ہے جس طرح ماں اوائل عمری میں اپنے بچے کو دودھ پلا کر بڑھا کرتی ہے بعینہ ریاست اپنے شہری کی معاشی، اخلاقی اور علمی تربیت کی پاسدار ہوتی ہے پس بچپن میں ماں اور بقیا پوری عمر میں ریاست ہی ایک شہری کے تمام حقوق کی ذمہ دار ہوتی ہے مگر ہمارے ہاں تو گزشتہ 72 سالوں سے ریاست نے اپنے شہریوں کو اون ہی نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں ریاست کے معاملے میں تنقیدی و تخریبی ذہن پروان چڑھا ہے اور یہ بالکل ایک منطقی مظہر ہے کہ کوئی بھی بچہ جب بنا ماں باپ کے خود ہی پلا بڑھا ہو تو پھر اْسے ماں باپ کی تعظیم کی کیا خبر ہو گی پس اْس سے شکایت حماقت کے مترادف ہے۔


گزشتہ دنوں ایک سٹوڈنٹ بتا رہا تھا کہ ہمارے ڈسٹرکٹ میں پرائمری سکول ٹیچر کی 5 آسامیوں کے لئے کوئی چودہ سو اْمیدوار جمع ہو گئے تھے جن میں اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی تھی جنہیں اْوور ایج ہونے کا خدشہ تھا ہمارے ایک تایا زاد ہیں وہ بیچارے گزشتہ سات سال سے مسلسل سرکاری نوکری کی تلاش میں سرگرداں پچھلے دنوں اْوور ایج ہو گئے ہیں حالانکہ موصوف ایک یونیورسٹی کے ٹاپر بھی رہ چکے اور ڈگری بھی انتہائی اعلیٰ لئے ہوئے ہیں اب وہ کہتے ہیں کہ اپنی زندگی تو بس اب سرمایہ داروں کا سرمایہ ہی بڑھانے میں گزر جائے گی، انقلاب اور تبدیلی کے دعویدار ذرا دیہی علاقوں کا رخ تو کریں اْنہیں لگ پتہ جائے گا کہ ایک غریب اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان جس نے اپنا سب کچھ بیچ بوچ دیا تاکہ ایک اعلیٰ ڈگری حاصل کر لے کیسے کلاس فور اور گریڈ سات اور نو کی نوکری کے لئے در بدر بھٹک رہا ہے نہیں معلوم وہ لاکھوں نوکریاں کہاں گئیں نہیں معلوم وہ دل فریب تبدیلی کہاں رہ گئی بس ہوا یوں کہ پرانے کھلاڑیوں کی جگہ اب نئے کھلاڑی کھیل میں کود چکے ہیں گیم وہی ہے حکمتِ عملی بھی وہی ہے کھاؤ اور سائیڈ پر ہو جاؤ اور اگر اتفاق سے پکڑے بھی جاؤ تو پھر قوم کے مسیحا بن جاؤ 72 سالوں سے یہ دھماچوکڑی لگی ہوئی ہے،جس کو ہمارے ہاں سیاست سے تعبیر کیا جاتا ہے رہی سہی کسر درباری مْلّاؤں نے پوری کر دی جو مقتدر طبقے کو درویش اور ولی بنا کر عوام کو اپنے حقوق کے لئے آواز اْٹھانے سے محروم کر دیتے ہیں بے ضمیری اور خود غرضی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے:


باقی نہ رہی وہ تیری آئینہ ضمیری
اے کشتہِ سلطانی و مْلّائی و پیری
ریاست عوام کو انفرادی طور پر معزز طریقے سے روٹی کپڑا اور مکان جو عوام کا بنیادی حق ہے فراہم کرنے کی بجائے خیرات دینے کا تہیہ کر چکی ہے،چنانچہ اب عوام کو مہنگی اشیائے خورد و نوش لینے کی قطعاً ضرورت نہیں ریاست دال روٹی کا بہتیرا انتظام کر رہی ہے پہلے تو دال روٹی کا انتظام صوفیاء کے لنگر خانوں میں ہوا کرتا اب اس کام کو ریاست خود سرانجام دے گی تاکہ عوام پوری طرح خیرات کی عادی ہو جائے اور اسی طرح اپنے بنیادی حقوق سے دستبردار ہو کر ریاست کو مستقل طور پر ہر قسم کی سردردی سے نجات دلا دے۔

مزید :

رائے -کالم -