تحفظ حرمین شریفین پر تو کوئی اختلاف نہیں

امت مسلمہ جس انحطاط اور زوال کے دلدل میں پھنس چکی ہے کبھی سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا یہ عالمی پالیسی سازوں کی چالیں ہیں یا مسلم حکمرانوں کی کم عقلیاں ہیں۔پوری دنیا میں مسلم ممالک مصائب میں گھر چکے ہیں تمام بلاد اسلامیہ عدم استحکام کا شکار ہیں۔ہر جگہ تصادم اور ٹکراؤکے حالات ہیں ،خانہ جنگی اور دہشت گردی نے اسلامی دنیا میں کہرام برپا کر دیا ہے، آتش و آہن کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہے کعبہ سے مقدس خون پانی سے بھی ارزاں ہو چکا ہے۔پاکستان ،افغانستان ،عراق ،شام ،مصر ،لیبیا ،تیونس اورنائیجیریا بم دھماکوں اور بارود سے لہو لہان ہیں۔ یہود و ہنود حرمت مسلم کی پامالی کا تماشہ دیکھ رہے ہیں ایسے تندو تلخ حالات میں ایک مسلمان کے لیے سعودی عرب کا یمن پر حملہ بدن پردل دھلادینے والے حملے سے کم نہیں ہے۔جی سی سی خلیج تعاون کونسل کے چھ میں سے پانچ رکن سعودی عرب متحدہ عرب امارات بحرین قطر اور کویت ،یمنی صدر ھادی منصور کی درخواست پر فضائی حملے کررہے ہیں اومان اس مہم میں شریک نہیں۔ ظاہر ہے جن پر بارود برسایا جارہا ہے وہ جواب میں پھول نہیں برسائے گا،اس کا رد عمل کہیں نہ کہیں ضرور آئے گا اور نہ جانے کتنا سخت ہو۔ اب تو حوثی باغیوں نے دھمکی دے دی ہے کہ بمباری نہ رکی تو سعودی عرب پر حملہ کر دیا جائے گا۔عدن اور حوطہ کی گلیاں لاشوں سے بھری پڑی ہیں۔مسلم دنیا میں جہاں کہیں بھی جنگ و جدل اور حرب و ضرب کی داستان چھڑتی ہے تو جگر پر چوٹ ضرور لگتی ہے۔مگرعرب دنیا میں جب کوئی چنگاری سلگتی ہے تو یہ حادثہ مسلمانوں کے لیے مزید گہرے زخم کا باعث ہوتاہے بالخصوص حجاز مقدس تو امت مسلمہ کا دل ہے وہاں تو معمولی سی آنچ بھی ناقابل برداشت ہے۔اگر یمن کی پہاڑیوں پر ہونے والی جارحیت کا ایک فی صد رد عمل بھی حجاز مقدس کے کسی پہاڑ سے ٹکراتا ہے تو عالم اسلام پہ کیا بیتے گی۔حجاز و یمن میں لڑائی شیطان کی ایک دیرینہ خواہش ہے۔ شاعر مشرق علامہ محمداقبال نے کئی سال پہلے اپنی نظم ’’ ابلیس کا پیغام اپنے سیاسی فرزندوں کے نام ‘‘ میں لکھا۔ وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا روح محمدﷺ اس کے بدن سے نکال دو فکر عرب کو دے کے فرنگی تخیلات اسلام کو حجاز ویمن سے نکال دو یمن مشرق وسطی میں خصوصی اہمیت کا حامل ہے یمن کے مغرب میں بحیرہ احمر Red Sea ہے جنوب میں بحیرہ عرب ہے شمال مشرق میں سعودی عرب اور عمان ہے اس کی کل آبادی 2 کروڑ سے زیادہ ہے۔ہم اہل پاکستان کے لیے یمن ایک لحاظ سے باب الحرم کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ حج اور عمرہ میں ہمارامیقات یلملم ہے جو رسول اللہ ﷺ نے یمن والوں کے لیے معین کیا تھا یمن کو رسول اللہ ﷺ نے اپنی طرف منسوب کر کے دعاکی ’’اللہم بارک لنا فی یمننا‘ ’’اے اللہ ہمارے لیے ہمارے یمن میں برکتیں دے ‘‘۔حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت سے یمن کو ایک خصوصی مقام و مرتبہ حاصل ہے تجارتی اور دفاعی لحاظ سے یمن بڑی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یمن Red Sea اور گلف عدن کو ملاتا ہے اسی راستے روزانہ ساڑھے تین لاکھ بیرل تیل کی ترسیل دنیا کو ہوتی ہے۔ یمن کے ساتھ سعودی عرب کی 18سو کلو میٹر لمبی حدود ہیں سعودی عرب کے تیل کے اکثر کنوئیں انہی حدود کی طرف ہیں حوثی باغیوں کے ساتھ سرحدی جھڑپیں توکئی سال سے ہورہی تھیں۔ یمن میں داعش اور القاعدہ کا وجود بھی ایک مستقل خطرہ ہیں یمنی فوج کا دوحصوں میں تقسیم ہوجانے کا المیہ بھی اعتراف ہے۔ حوثیوں کا دارالحکومت صنعا کی اکثر سرکاری عمارتوں پر قبضہ بھی مسلّم ہے۔یمن کے حوثیوں کے پیچھے ایران کے ہاتھ کابھی انکار نہیں کیا جاسکتا مگر جو جنگ چھیڑتا ہے جنگ اسے مشکل ہی سے چھوڑتی ہے لگتاہے عالمی سازشی دماغ نے ایک اور ڈبل گیم کے لیے شام ،عراق، لیبیا کے بعد ایک اور ڈبل گیم کے لیے یمن سعودی حدود کو چن لیا ہے۔جس کا اسے کافی دیر سے انتظار تھا اگر کوئی دیکھنے والی آنکھ ہو تو اس حملے کی وجہ امریکا اور اسرائیل کی زیر لب مسکراہٹیں دیکھی جا سکتی ہیں امت مسلمہ کو سوائے نقصان کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔امریکہ نے حرمین شریفین کے قریب شورش برپا کر کے یہاں اپنے مستقبل کے ارادوں کو ظاہر کر دیا ہے چونکہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم یورپ میں ہوئی تھی اب یورپ چاہتا ہے کہ تیسری عالمی جنگ مشرق وسطی میں ہو۔ ایک طرف ’’بہارِ عرب‘‘کی وجہ سے عرب ممالک میں بادشاہتوں کے خلاف چند سالوں سے اٹھنے والی لہر ہے ،دوسری طرف سے ایران کے اثرات ہیں جو دمشق ،بغداد سے لے کر صنعا تک پہنچ چکے ہیں اور سوئٹر ز لینڈ میں ایران اور چھ بڑی طاقتوں کے درمیان ایران کے جو ہری پروگرام کے بارے میں معاہدے کے فریم ورک پر اتفاق ہو گیا ہے اس کے تحت ایران یورینیم کی افزودگی کم کر دے گا اس کا ایٹمی پروگرام محدود ہو جائے گااور امریکا کی طرف سے ایران پر لگائی گئی تمام پابندیاں اٹھائی جائیں گی لگتا ہے کہ امریکا نے ایک طرف سعودی عرب سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے اسے باور کرایا کہ یمن کے حوثی تمھارے لیے شدید خطرہ بن چکے ہیں تم ان سے نمٹنے کے لیے حملہ کرد و، دوسری طرف یہ بھی کہاجا رہا ہے کہ امریکا نے اب تک شیعہ تنظیموں حزب اللہ ،مہدی ملیشیا ،مقتدی الصدر ،بشارالاسد اور یمن کے حوثیوں پر دہشت گردی کا لیبل نہیں لگایاجس میں کوئی راز ضرور ہے۔ اب اس کا ایران کے ساتھ معاہدہ بھی طے پا گیا ہے کچھ دانائے راز تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ کچھ امریکی اہلکار یمن میں حوثیوں کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔(جاری ہے ) ایسے حالات میں یہ سمجھنا مشکل نہیں عالمی استعماری ریفری شیعہ اور وہابی میچ جیسے لیبیا،شام ،عراق اور دیگر ممالک میں کرا رہے ہیں وہی سلسلہ اب یہاں شروع کرا دیا ہے۔مغربی ممالک نہیں چاہتے کہ یہ آگ بجھے کیونکہ انہوں نے بڑی جدو جہد کے بعد یہ آگ لگائی ہے ان کو اپنا اسلحہ فروخت کرنے کی فکر ہے جو وہ دونوں طرف فروخت کر رہے ہیں ایسے حالات میں مسلم حکمرانوں کو ہی ہوش کے ناخن لینے چاہیں کہ یمن کی جلتی ہوئی حدود کی آگ بجھانے کے لیے اکٹھے ہو جائیں قبل اس کے کہ صہیونی ہوائیں اس آگ کو حجاز مقدس کی طرف دھکیل دیں۔ ایسے حالات میں پوری امت پر ہی کڑی آزمائش کا وقت آگیا ہے۔شاید اسلامی ایٹمی قوت ہونے کے ناطے پاکستان کو سب سے زیادہ سوچ سوچ کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے۔ عالمی تھا نیدار آج پاکستان کو یمن جارحیت میں ملوث کر کے کل پاکستان کی جامہ تلاشی لینا چاہتا ہے۔ آج تو جب پاکستانی فوج کو سعودی عرب بھجنے کی مخالفت میں کہا جارہاہے کہ ایسا کرنے سے آپریشن ضرب عضب متاثر ہو گا تواس جنگ میں پاکستان کو پھنسانے کے لیے امریکہ کے دفتر خارجہ کے ترجمان میری ہارف کا بیان سامنے آگیا ہے ’’سعودی فوجی اتحاد میں شامل ہونے سے پاکستان کی دہشت گردوں کے خلاف لڑائی کی صلاحیت متاثر نہیں ہو گی ‘‘لیکن حالات بدلنے پر یہی امریکہ ہمارے وہاں فوج بھیجنے کو جارحیت اور دہشت گردی سے کم کسی لقب سے نہیں نوازے گا۔ سعودی حکومت جس دلیل اور منطق پر یمن پر حملے کر رہی ہے۔ کہ یمن کے صدر نے ہم سے مداخلت کی اپیل کی ہے تو ہم اس کی مدد کو گئے ہیں آج امریکہ ان حملوں اور جملوں پرصرف خاموش ہی نہیں داد تحسین بھی دے رہا ہے۔کل جب امریکہ پچھلے پاؤں ہٹے گا اور انہی حملوں کو جواز بنا کر سعودی حکومت کو شکنجے میں لائے گا اور کہہ رہا ہو گا کہ ملک سے فرار ہونے کے بعد یمن کے صدر کی قانونی حیثیت مشکوک ہو چکی تھی۔ وہ کسی بھی ملک سے امداد مانگنے کاقانونی اور آئینی حق کھو بیٹھا تھا اگر وہ یمن میں رہ کے مدد مانگتا تو اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق یہ اپیل جائز ہوتی ۔جب امریکہ کے تیور بدل چکے ہونگے اور سعودی عرب پر جارحیت کی فرد جرم عائد کی جائیگی اگر آج پاکستان نے سعودی عرب میں اس مقصد کے لیے فوج بھیج دی تو جارحیت کے پارٹنر کی حیثیت سے اس کو بھی کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا۔اس طرح خدانخواستہ دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی قوت پر امریکہ اپنے پنجے گاڑرہا ہو گا۔ تحفظ حرمین کے لیے تو ہر مسلمان اپنی جان ہتھیلی پہ رکھے پیکر وفا بن کر شوق شہادت میں مچل رہا ہے۔مگر یمن سعودی جنگ میں فریق بننے کا مطلب کچھ اور بنتاہے۔ ہمارے حکمرانوں کو سعودی حکمرانوں سے دوستی نبھانے کا پورا حق حاصل ہے۔ مگر ہمیں ایسی کشمکش میں فریق نہیں بننا چاہیے جس کا رد عمل کسی کے لیے حرمین شریفین کی جانب میلی نگاہ سے دیکھنے پر منتج ہو سکتا ہو۔ امریکہ تو ہمیں فوج بھیجنے پر گارنٹی دے رہا ہے کہ سعودی عرب فوج بھیجنے سے تمہیں کچھ نہیں ہو گا۔ لیکن ہمیں یہ بھی سوچنا ہے کہ امریکا کو یہ دلچسپی کیوں ہے ؟ظاہر ہے کہ اس کی اس آرزو کے پیچھے تحفظ حرمین شریفین کا جذبہ نہیں۔ ہمارے حکمرانوں کو خود بھی سوچنا چاہیے کہ موجودہ حالات میں کیا ہم کسی ملک کی فوجی امداد کے قابل بھی ہیں یا نہیں جب ہماری فوج لائن آف کنٹرول اور افغانستان بارڈر پر تعینات ہے۔ضربِ عضب اور آئی ڈی پیز کی ذمہ داری بھی فوج پر ہے، کراچی اور بلوچستان میں فوج ہی آگ بجھانے میں مصروف ہے ،دہشت گردوں کو سزائیں دینے کے لئے عدالتوں کا کام بھی فوج کے سپرد ہے ،پورا ملک لا قانونیت ،فرقہ واریت اور دہشت گردی میں جکڑا ہوا ہے۔ اور ان آفات میں حکمران فوج کا منہ ہی دیکھ رہے ہیں .تو پھر حکمرانوں کو چارد دیکھ کر پاؤں پھیلانے چاہئیں ،تحفظ کعبہ اور تحفظ گنبد خضریٰ ہمیں جانوں سے بھی عزیزہے۔ حقیقت حال سے آگاہ لوگ جانتے ہیں سعودی عرب پاکستان سے حرمین شریفین کے گرد پہرا دینے کے لیے یا سعودی عرب کی سرحدوں پر پہرا دینے کے لیے فوج مانگ ہی نہیں رہا وہ تو یمن میں زمینی جنگ میں پاکستان کی فوج کی مدد چاہتا ہے۔ اگر کل سعودی عرب کی جانب سے یمن میں زمینی حملوں کا سلسلہ بھی شروع کر دیا جاتاہے اور افواج پاکستان اس میں حصہ لیتی ہیں۔ تو اس سے ایک مسلم ملک یمن کی تباہی ہو گی علاقائی سلامتی بھی داؤ پرلگ جائے گی۔ہمارا دشمن بھارت تو ہماری کسی بھی دفاعی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کے لیے ایڑیاں اٹھا کے دیکھ رہا ہے۔ پاک افغان سرحدپر انڈین قونصل خانے پہلے ہی دن رات شر انگیزیوں میں مصروف ہیں۔ان حالات میں سعودی عرب کی حمایت میں ہماری یمن پر چڑھائی کی صورت میں پاکستان اورایران سرحدوں پر بھی کشیدگی اور تناؤ پیدا ہو گا اور ہماری سلامتی چاروں اطراف سے سنگین خطرات میں گھِر جائے گی۔اگر معاملہ سعودی عرب کی علاقائی یکجہتی اور اندرونی سلامتی کے لحاظ سے تزویراتی امور میں مدد ’’لاجسٹک سپورٹ‘‘کا ہوتا تو اور بات تھی مگر موجودہ حالات میں سعودی عرب فوج بھیجنے کا مطلب کچھ اور ہے جس کی ہمارے ملکی حالات ہمیں اجازت نہیں دے رہے۔