علم و عمل کا کوہِ گراں: پروفیسر خورشید احمد چلے گئے

   علم و عمل کا کوہِ گراں: پروفیسر خورشید احمد چلے گئے
    علم و عمل کا کوہِ گراں: پروفیسر خورشید احمد چلے گئے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ علم و عمل کا پیکر تھے۔ جماعت اسلامی ان کے فکر کی عملی تفسیر ہے۔ انہوں نے قرآن و حدیث کے علوم سے جو کچھ سیکھا، جو اخذ کیا اسے عملی شکل دینے کے لئے انہوں نے ایک تحریک اسلامی شروع کی تاکہ ریاست مدینہ کی طرز پر پاکستان میں اسلامی ریاست تشکیل دی جائے۔ جماعت اسلامی کے قیام کا مقصد ایسے ہی مردان ِ کار کی تیاری تھا جو فکر و عمل میں قرآن و حدیث میں بیان کردہ مومنین کی صفات کے حامل ہوں ایسے افراد کو تنظیم کی لڑی میں پروکر ایک ایسا گروہ تشکیل پائے جو رائے عامہ کو اسلامی ریاست کے قیام پر آمادہ کرے اور اس طرح جمہوری انداز میں،عامتہ الناس کی کثرت رائے سے اسلامی نظام حکومت قائم کیا جائے۔ مولانا مودودیؒ کی ساری زندگی، اسی جدوجہد میں گزری اور انہوں نے جماعت اسلامی کو بھی ایسا ہی کچھ کرنے کے لئے تشکیل دیا تھا۔ جماعت اسلامی اپنی اس جدوجہد میں کہاں تک کامیاب ہوئی، یہ ایک بحث طلب موضوع ہے لیکن ایک بات طے شدہ ہے کہ جماعت اسلامی نے ایسے کئی مردانِ کار تیار کئے، انہیں میدان میں اتارا۔ فکر و عمل کی شاہراہ پر چلایا، پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے میں جماعت اسلامی ایک ہر اول کے طور پر کھڑی نظر آتی ہے۔ جماعت کے تیار کردہ مردانِ کار، وہ جہاں جہاں بھی گئے  اسلام اور اسلامی ریاست کے قیام کے بارے میں رائے عامہ کی تشکیل میں معاون ثابت ہوتے رہے۔ پروفیسر خورشید احمد کا شمار ایسے ہی مردانِ کار میں ہوتا ہے جنہوں نے فکر مودودی کی تعبیر و تشریح اور اسلامی افکار کی ترویج کے لئے اپنا تن من اور دھن سب کچھ داؤ پر لگایا۔ یہ سب کچھ ایویں ہی نہیں لگایا بلکہ ایک سوچی سمجھی اور لکھی پڑھی سکیم، نظام فکر و عمل کے ذریعے کیا۔ برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی تہذیبی، سیاسی اور ثقافتی عظمت کے نشان شہر دہلی میں 23مارچ 1932ء میں پیدا ہوئے، پھر قیام پاکستان کے ساتھ ہی عالمی تحریک اسلامی کا مرکز بننے والے شہر لاہور میں آن بسے۔ شعور کی آنکھ سے دین و دنیا کو دیکھا، پرکھا ایک نصب العین کو اپنایا اور پھر 2025ء میں اپنی وفات تک اس نصب العین کے حصول کے لئے جدوجہد کرتے کرتے اپنی جان خالق حقیقی کے حوالے کردی۔ اللہ رب العزت انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔

پروفیسر خورشید احمد مرحوم نے بڑی بھرپور اور پُرسعادت زندگی بسر کی۔گورنمنٹ کالج لاہور سے اکنامکس، بزنس اور قانون کی تعلیم حاصل کی۔ کراچی یونیورسٹی سے ایم ایس سی اکنامکس کیا۔ برطانیہ کی لیسٹر یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی۔ جہاں تک مرحوم کی علمیت کا تعلق ہے تو ان کی کتاب ”اسلامی نظریہ حیات“ سی ایس ایس کے سلیبس میں شامل ہے۔ اس کتاب کو پڑھ کر آپ کی اسلامی افکار و نظریات پر گرفت کا معتقد ہوئے بغیر نہیں رہا جا سکتا ہے۔ آج تحقیق و تصنیف کے آدمی بھی تھے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹیڈیز جیسے تھنک ٹینک کا قیام اور تحقیق و تالیف کے شعبے میں اس کی کارکردگی اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ مرحوم حقیقتاً ایک قد آور علمی شخصیت تھے۔ جماعت اسلامی کے ایک عرصہ تک نائب امیر بھی رہے  اور اسی پلیٹ فارم سے دو مرتبہ سینیٹر بھی منتخب کئے گئے اس طرح آپ نے پارلیمان میں اسلامی نظام کی ترویج اور قوانین سازی میں گرانقدر خدمات سرانجام دیں۔ یہ آپ کا علمی و شخصی وقار تھا کہ مخالفین بھی آپ کی بات سنتے اور سر ہی نہیں دھنتے تھے بلکہ بات مان بھی جاتے تھے۔ حکمرانوں کو آئین پاکستان کی پاسداری کرنے اور مملکت کے اسلامی تشخص سے انحراف کرنے سے باز رکھنے میں مرحوم کی کاوشیں ہماری پارلیمانی تاریخ کا سنہری باب ہیں۔

اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ معاشیات میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران ہمارا رابطہ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹیڈیز سے قائم رہا۔ ہمارے استاد پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد انہی دنوں امریکہ چھوڑ کر یہاں اسلامی یونیورسٹی سے وابستہ ہوئے تھے آپ بھی اپنے بھائی پروفیسر خورشید احمد مرحوم کی طرح علمی تعلیم سے مالامال تھے انہوں نے تھوڑے ہی عرصے میں یونیورسٹی میں اپنا الگ مقام بنا لیا۔ آپ شام کے وقت آئی پی ایس میں بیٹھا کرتے تھے۔ تحقیق و تالیف کرنے کے لئے آپ کا یہی ٹھکانہ تھا۔ ہمیں یہاں ڈاکٹر انیس احمد کے طالب علم ہونے کے حوالے سے پروفیسر خورشید احمد سے کئی بار ملنے اور ان سے گفتگو کی سعادت حاصل ہوئی ہم تو طفلِ مکتب تھے ان سے ملنا، ان سے گفتگو کرنا بلکہ ان کی گفتگو سننا ایک سعادت عظیم تھی آپ بڑی نپی تلی گفتگو کرتے تھے لیکن جب وہ آئی پی ایس میں منعقدہ کسی علمی سیمینار سے خطاب کرتے تو افکار و معلومات کے دریا بہا دیا کرتے تھے۔

آپ نے اسلامی افکار کی ترویج کے لئے برطانیہ کو بھی مرکز بنایا۔ یہ ان کی دوررس نگاہوں کا کمال تھاکہ انہوں نے آنے والے دنوں میں برطانیہ کی اہمیت اور تحریک اسلامی کے فروغ کا جو منصوبہ بنایا تھا وہ کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ پروفیسر مرحوم نے صرف حرف و لفظ کے ساتھ ہی نہیں، تحریر و تحقیق کے ذریعے ہی نہیں بلکہ تنظیم اور عمل کے ذریعے اسلامی افکار کی ترویج اور اسلامی نظام حیات کی سربلندی کے لئے دن رات ایک کیا۔ آپ مولانا مودودیؒ کے اولین ساتھیوں میں سے تھے سوچ سمجھ کر، جان بوجھ کر، پڑھ لکھ کر سید مودودیؒ کے ساتھ جڑے، تحریک اسلامی میں شمولیت اختیار کی اور پھر اپنا تن من دھن اور سب کچھ اس کی ترویج میں لگا دیا، کھپا دیا۔

آپ کی زندگی چلتی پھرتی تحریک اسلامی کا شاہکار تھی۔ سید مودودیؒ کی تعلیمات، جس طرح کے مردانِ کار تیار کرنے کے لئے تھیں آپ اس کا عملی نمونہ تھے۔ آپ کی خدمات، علمی و سیاسی کا اعتراف بھی کیا گیا آپ کو 1990ء میں عالم اسلامی کا سب سے بڑا ایوارڈ شاہ فیصل ایوارڈ دیا گیا۔اس سال اسلامی معیشت کی ترویج کے صلے میں انہیں پہلا اسلامی ترقیاتی بینک ایوارڈ دیا گیا۔ 2010ء میں حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں اعلیٰ سول ایوارڈ نشان امتیاز دیا۔1998 میں انہیں پانچواں سالانہ امریکن فنانس ہاؤس یو ایس اے پرائز دیا گیا۔ عالمی سطح پر ان کی پذیرائی کا اس طرح بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کئی یورپی یونیورسٹیوں میں ان پر پی  ایچ ڈی کے مقالہ جات تحریر کئے گئے۔

ویسے ہمارے ہاں محسن کشی کا چلن عام ہے ہم اپنے اکابرین و محسنین کو بھلا دیتے ہیں لیکن جماعت اسلامی ایک اعلیٰ علمی و عملی جماعت ہے عالمی تحاریک اسلامی کا حصہ ہے ایک عظیم الشان فکری تحریک ہے اس لئے اس سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اس نابغہ کی زندگی بارے معلومات مبسوط طریقے سے منظرعام پر لانے کا اہتمام کرے گی تاکہ ہماری نوجوان نسل کو حوصلہ ملے، نشان راہ ملیں اور وہ عزم و حوصلے سے بامقصد زندگی گزارنے پر آمادہ ہوں۔

  

مزید :

رائے -کالم -