مدیر ترجمان القرآن کو پاور سٹرکچر کیسے یاد آ گیا؟
جماعت اسلامی25اگست1941ء کو لاہور میں قائم ہوئی۔ اس کے بانی مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ دینی علوم کے ساتھ ساتھ جدید نظریات اور تحریکوں کا بھی بھرپور مطالعہ رکھتے تھے۔انہوں نے اپنے رسالے ترجمان القرآن کے ذریعے نہایت عمدہ دلائل کے ساتھ مسلمانوں کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ اپنے کو دیگر اقوامِ عالم کی طرح محض ایک قوم تصور نہ کریں،بلکہ اپنی ان اصل ذمہ داریوں کی فکر کریں جو اللہ اور اس کے رسولؐ نے ان پر عائد کی ہیں۔ان میں سب سے بڑی ذمہ داری اقامت دین کی ہے،یعنی باطل نظاموں پر اسلام کا صالح نظام غالب کیا جائے۔
جن لوگوں کو مولانا مودودیؒ کے دلائل نے متاثر کیا، ان میں سے75 افراد جماعت کی صورت میں منظم ہوئے۔مولانا نے ان کی فکری اور عملی تربیت کے لئے کئی اقدامات کیے۔ مثلاً ایسا لٹریچر تیار کیا، جس میں ایک تو معاصر دنیا کے نظریات کا تنقیدی جائزہ تھا۔ دوسرے، اسلام کی سماجی، اخلاقی اور معاشی تعلیمات کا تعارف تھا۔تیسرے، ذاتی اصلاح کی طرف توجہ دلائی۔ چوتھے، جماعتی زندگی کو مضبوط یا کمزور کرنے والے عوامل کی نشاندہی کی۔لٹریچر کے ساتھ ساتھ مولانا نے باقاعدہ تربیت گاہوں کا اہتمام کیا، جہاں ایسے لیکچر دیئے جاتے، جن سے کارکنوں کو ان کی ذمہ داریوں کا شعور حاصل ہوتا۔استقامت علی الحق کی تلقین کی جاتی۔
آزادی کے وقت جماعت دو حصوں میں بٹ گئی: ایک حصہ بھارت میں رہ گیا اور دوسرے نے پاکستان میں غلبہ ئ دین کی تحریک کا آغاز کیا۔جماعت نے قیامِ پاکستان کے لیے بلاشبہ کوئی کردار ادا نہ کیا تھا،تاہم اس نے نوزائیدہ ملک کو ایک جدید اسلامی ریاست میں ڈھالنے کے لیے نظریاتی اور عملی جدوجہد شروع کر دی۔ خاص طور سے اسلامی دستور کی تشکیل کروانے کے لیے اپنی تمام صلاحیتیں جھونک دیں۔ مقصد یہ تھا کہ ملک کی اسلامی شناخت بن جائے۔سیکولر، سوشلسٹ اور قادیانی حلقے نے اس مطالبہ کی بھرپور مخالفت کی۔ مولانا مودودیؒ اور ان کے بعض معاصر علماء کو دارو رسن کی آزمائش سے بھی گزرنا پڑا، لیکن بالآخر 1956ء میں دستور بنا اور ملک کو اسلامی ریاست کے طور پر تسلیم کر لیا گیا۔ اس کے بعد دو مزید دستور بھی بنے اور نافذ ہوئے، لیکن ہر ایک میں پاکستان کی نظریاتی جہت برقرار رہی۔یہ مولانا مودودیؒ اور دیگر دینی جماعتوں کی بہت بڑی فتح تھی۔ ستمبر1974ء میں یہی نظریاتی جدوجہد اس طرح بھی رنگ لائی کہ ختم نبوت کے منکرین دستوری طور پر غیر مسلم قرار پا گئے۔
جماعت اسلامی نے جدوجہد کے لیے جمہوری راستہ اختیار کیا، زبان اور قلم سے اہل ِ وطن کو اپنا ہم خیال بنانے کے لیے کوشش کی، لیکن الیکشن میں اسے کبھی کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔اب صورتِ حال یہاں پہنچ گئی ہے کہ اس کا ووٹ بینک تشویشناک حد تک کم ہو گیا ہے۔سیاسی حوالے سے اسے اپنا کوئی خاص مستقبل نظر نہیں آ رہا۔اس افسوس ناک حقیقت کا ادراک قیادت کو بھی ہے اور کارکنوں کو بھی۔عوام تک مؤثر رسائی کیسے حاصل ہو سکتی ہے،یہ آج کا بہت بڑا سوال ہے،جس پر جماعت کے اندر اور باہر غور و خوض ہو رہا ہے۔اس موضوع پر کئی کتابیں بھی لکھی گئی ہیں،لیکن جماعت ابھی تک کوئی نئی لائن نہیں بنا سکی۔
”ترجمان القرآن“ کے شمارہ جون میں ”رسائل ومسائل“ کے گوشے میں تین سوالات کے جوابات دیئے گئے ہیں،دو کے جوابات مدیر ترجمان محترم پروفیسر خورشید احمد کے قلم سے اور ایک کا نائب مدیر سلیم منصور خالد نے دیا ہے۔ موضوع تینوں سوالوں کا یہی ہے کہ معاصر دنیا میں اسلامی تحریکوں کو کہیں کوئی قابل ِ ذکر کامیابی کیوں نہیں ملتی؟
راقم الحروف بھی 1970ء کے ملکی انتخابات اور سقوط ڈھاکہ کے المیے کے بعد سے اسی مسئلے پر غور کر رہا ہے۔میرے نزدیک جماعت میں سب سے بڑی کمی یہ ہے کہ اس نے موجود کرپٹ نظام کو سمجھنے کے لئے آج تک کوئی سنجیدہ اور ٹھوس کوشش نہیں کی۔اس کے رہنماؤں کی تقریروں اور جماعتی لٹریچر کا تعلق زیادہ تر نظریاتی مباحث ہی سے رہا ہے۔سوشلزم کی بحث شروع ہوئی تو جماعت نے سو سے زائد پمفلٹ اور ”چراغ راہ“ کا سوشلزم نمبر تو ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں چھاپ دیئے،لیکن کرپٹ نظام کے کسی رُخ پر ایک مضمون تک نہ شائع کیا،حالانکہ مولانا مودودیؒ نے جب دعوت دین کا کام شروع کیا تھا تو فرمایا تھا کہ ہم پیچ ورک کے قائل نہیں،ہم اس ظالمانہ نظام کو جڑوں سے اکھاڑ دینا چاہتے ہیں،لیکن خود موجود نظام پر ایک لفظ تک نہ لکھا۔
پاکستان آنے کے بعد دستور و قانون کی نظریاتی بحثیں چھیڑنے سے پہلے تو ضروری تھا کہ اس سرزمین کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی، جہاں انقلاب لانا مقصود تھا۔ پندرہ بیس سال اُدھر کی بات ہے کہ مَیں نے جناب پروفیسر خورشید احمد کو ان کے بجٹ کے ادھورے تجزیوں کی طرف توجہ دلائی،مَیں نے کہا،ایسا تجزیہ تو ایم اے اکنامکس کا طالب علم بھی لکھ سکتا ہے۔ فرمانے لگے، کیا کہنا چاہتے ہیں آپ؟ مَیں نے کہا، بجٹ سازی کے پیچھے جو مفاداتی گروپ کام کر رہے ہوتے ہیں ان کا آپ نے کبھی ذکر نہیں کیا۔پروفیسر صاحب نے جواب دیا، آپ کا مطلب ہے کہ ہم پاور سٹرکچر کی بات نہیں کرتے۔مَیں نے کہا،آپ ٹھیک سمجھے ہیں،آخر آپ پاور سٹرکچر کو کیوں زیر بحث نہیں لاتے؟ آج جب مَیں نے ترجمان کے گزشتہ شمارے میں ان کے اور پروفیسر سلیم منصور خالد کے جوابات میں ”پاور سٹرکچر“ کی اصطلاح کی پانچ دفعہ تکرار دیکھی ہے تو بے اختیار یہی خیال آیا کہ
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے
جماعت اسلامی کے دانشور پاور سٹرکچر کو اپنی تقریروں، تحریروں میں کیوں زیر بحث نہیں لاتے،کیوں اس بارے کچھ ذہنی تحفظات رکھتے ہیں،اس پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے، لیکن کیا اچھا ہو کہ اہل ِ جماعت خود ہی اس حوالے سے سوچ بچار شروع کر دیں۔ یہ انتظار نہ کریں کہ کوئی انہیں اس طرف توجہ دلائے!