اتفاق رائے، اس کے لئے مذاکرات لازم ہیں!
ستترواں یوم آزادی بھی گذر گیا، اِس بار جشن آزادی بڑے جوش و خروش سے منایا گیا، اس میں پیرس اولمپکس کا گولڈ میڈل اضافی خوشی تھی،اسے بھی مبارکباد کے طور پر شامل کر لیا گیا، ارشد ندیم کی مصروفیات کا یہ عالم رہا کہ وہ پیرس سے واپسی کے بعد ٹھیک طرح سو بھی نہیں سکا۔میاں چنوں سے لاہور، یہاں سے اسلام آباد، وہاں سے پشاور اور پھر کراچی کا سفر کرنا پڑا۔ گولڈ میڈلسٹ نے مسلسل سفر کیا تو ہر جگہ تقریب میں بھی شرکت کی، امکان ہے کہ اب اسے کچھ فرصت مل جائے گی اور وہ اپنی فیملی کے ساتھ وقت گذارنے کے علاوہ آرام بھی کرے گا،ارشد ندیم نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ وہ قریباً دو ماہ کے بعد پھر سے ٹریننگ شروع کر دے گا اس نے اپنے گاؤں میں ذاتی زمین پر اکیڈمی بنانے کا ذکر کیا اور یہ بھی خواہش کی کہ اگر اس کے پاس16،17جیولین ہوں تو وہ نوجوانوں کی تربیت بھی کر سکتا ہے۔
جشن آزادی کی اِس گہما گہمی میں بجا طور پر یہ مجالس ہی سامنے آئیں اور قوم کچھ دیر کے لئے اپنے غم بھول بھی گئی، لیکن تابکہ اب ذرا جشن کی سرگرمیاں تھمی ہیں تو پھر غم روزگار نے ستانا شروع کر دیا ہے اور اِس عرصہ میں جو بڑا واقع ہوا،اس کی طرف پھر سے توجہ مبذول ہو گئی ہے اور شہریوں کے سامنے لیفٹیننٹ جنرل(ر)فیض حمید کی فوجی تحویل میں لئے جانے اور کورٹ مارشل کی خبریں آ گئی ہیں کہ بات یہاں تک نہیں رُک رہی اب آگے بڑھی اور کُھرا بانی کی طرف جانا شروع ہو گیا ہے۔ تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ اڈیالہ جیل کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ محمد اکرم کو اداروں نے اپنی تحویل میں لے لیا اور اس سے تفتیش شروع کر دی ہے، جیل میں مذکورہ افسر کے قریبی اہلکار بھی پوچھ گچھ کی زد میں آ گئے ہیں۔اکرم کے خلاف بڑا الزام بانی کی سہولت کاری (پیغام رسانی) کا الزام ہے اور امکانی طور پر اس سے ان انٹرویو کے حوالے سے تفتیش کی جائے گی،جو غیر ملکی اخبارات میں شائع ہوئے۔یوں بات اب ادھر بھی چل نکلی ہے۔تازہ ترین اطلاع کے مطابق بعض ریٹائرڈ فوجی افسر بھی سہولت کاری کے الزام میں جنرل (ر) فیض کے ساتھ فوجی تحویل میں ہیں۔
دوسری طرف چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر زیادہ متحرک نظر آ رہے ہیں۔کاکول اکیڈمی میں یوم آزادی کی خصوصی پریڈ کے موقع پر انہوں نے جو خطاب کیا اس میں اپنے عزائم کو پھر سے دہرایا ہے اور خصوصی طور پر افغانستان کا بھی ذکر کیا اور ایک بار پھر اپیل کی کہ افغان حکومت اپنے بھائیوں کا ساتھ دے اور خوارج کی اعانت سے ہاتھ کھینچ کر ان کے خلاف کارروائی کرے کہ گذشتہ دِنوں سے پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے اور خوارج(ٹی ٹی پی) کے ساتھ بی ایل اے کی سرگرمیوں کا بھی ذکر ہوا۔حال ہی میں ایک ڈپٹی کمشنر شہید کر دیئے گئے اور وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے واضح طور پر بلوچستان لبریشن آرمی(بی ایل اے) کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے یوں حالات اب مزید توجہ طلب ہو گئے اور آرمی چیف اپنے عزم کا اعادہ کر رہے ہیں۔
یہ صورتحال ایسی ہے جو اب سب کے سامنے ہے اور بظاہر اس میں کوئی پیچیدگی نہیں،محسوس ہوتا ہے کہ فوجی قیادت نے بالآخر طویل انتظار کے بعد توجہ خود اپنی صفوں اور عملی احتساب کی طرف مبذول کر لی ہے۔چیف آف آرمی سٹاف نے یوم آزادی کے حوالے سے سابق فوجیوں کو استقبالیہ پر مدعو کیا اور ان کے ساتھ بھی تبادلہ خیال کیا۔ مقصد واضح ہے کہ حالات حاضرہ میں خود جنرل عاصم منیر متحرک ہیں اور ملکی سلامتی کے حوالے سے اپنی صفوں کو بھی مضبوط کر رہے ہیں،ان کی حالیہ گفتگو سے بانی کی خواہش کا وہ دروازہ بند ہو گیا ہے جو ان کی طرف مذاکرات کے لئے کھلا محسوس کیا گیا تھا کہ کپتان کا اصرار تھا اور ہے کہ وہ مذاکرات پر تیار ہیں،لیکن حقیقی مقتدرہ سے ہی بات کریں گے۔اب تحریک انصاف کو پھر سے اپنی حکمت عملی پر غور کرنا ہو گا کہ ان کا یہ بیانیہ بھی پٹ گیا کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) فوج اور تحریک انصاف کے درمیان دوریاں پیدا کر رہی ہے،کیونکہ آئی ایس پی آر کی اطلاع کے مطابق اب خود سپہ سالار نے وہ سب دہرا دیا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا خان صاحب! اب پھر متھا لگائیں گے؟اس حوالے سے سینیٹر فیصل واوڈا اور فرزند راولپنڈی شیخ رشید کی ”الہامی“ باتوں کو بھی غور کے بعد نظر انداز کرنا ہوگا۔
میں نے بوجوہ اس موضوع سے اجتناب کیا، ورنہ یہ تعجب والی کارروائی نہیں ہے،فوج کی طرف سے تاخیر ضرور ہوئی لیکن عملی اقدام کیا گیا تو ساتھ ہی مزید کارروائی بھی شروع کر دی ہے،اس کے انجام کا انتظار کرنا چاہئے تاہم ایک بات پھردہراؤں گا کہ نئے پرانے، سیاسی جماعتیں اور تجزیہ نگار سب کہتے اور ان کا اتفاق ہے کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں،تو موجودہ حالات میں جب ملک ”گوڈے۔ گوڈے“ قرضوں میں پھنسا ہوا ہے، سرمایہ کاری وعدوں کے باوجود رکی ہوئی اور یوں لگتا ہے کہ سرمایہ دار پس و پیش کر رہے ہیں کہ امن کی حالت آئیڈیل نہیں،تخریب اور دہشت گردی مسلسل جاری ہے،اب اگر سب حضرات یہ جانتے اور اعتراف کرکے برملا ذکر بھی کرتے ہیں تو پھر ان کو کس نے روکا ہے کہ یہ سب سرجوڑ کر بیٹھ جائیں اور ان تمام عوامل پر غور کریں جو امن کی راہ میں مزاحم ہیں اور ان کو دور کرنے کے لئے مشترکہ ذہانت سے ٹھوس منصوبے بنا کر ان پر عمل کریں کہ پاکستان باقاعدہ ایک پُرامن ملک رجسٹر ہو۔ اس کے لئے سیاسی محاذ آرائی کی نہیں، سیاسی مذاکرات کے لئے بیٹھک کی ضرورت ہے اور یہ بیٹھک غیر مشروط اور سب کے ساتھ ہونا چاہئے کہ سیاستدان حضرات پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی اور وہ اپنے طور پر اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔اپوزیشن کو جو شکایات ہیں وہ بھی سیاسی بیٹھک ہی میں سامنے لائی جا سکتی اور ان پر غور ہو سکتا ہے، ہمارے سیاستدانوں کو اپنا قبلہ درست کرنا ہو گا کہ اسی طرح وہ صورتحال پیدا ہو سکتی ہے جو یہ چاہتے ہیں خود سیاستدانوں (بلا لحاظ) کو متحد ہونا چاہئے اور آپس کے اختلافات اور تحفظات اخلاق کی حد میں رکھنا چاہئیں اور ملک کے تحفظ کے لئے سب کو مل جانا چاہئے۔