چھپے ہوئے دشمن سے جنگ۔ میڈیا کو بھی فوج کے ساتھ رہنا چاہئے

سال 2005ء کی بات ہے کہ نظریہ پاکستان کے آڈیٹوریم میں میری کتاب ”افواجِ پاکستان کی تاریخ، جدوجہد اور عظیم کارنامے“کی تقریب رونما ئی سابق گورنر پنجاب شاہد حامد کی صدارت میں ہو رہی تھی جبکہ اس تقریب میں قدآور صحافتی اور ادبی شخصیات اور ایجوکیشن کور کے کرنل (ر) غلام جیلانی خان بھی شریک تھے۔اس وقت آئی ایس پی آر کی جانب سے میجر سیدشاہد عباس اور کرنل سجاد صاحب بھی شریک محفل تھے۔“قصہ مختصر سابق گورنر شاہد حامد نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میرے والد محترم ریٹائرڈ بریگیڈیئر ہیں۔میرے سسر بھی ریٹائرڈ بریگیڈیئر ہیں۔میرے ایک داماد حاضر سروس بریگیڈیئر ہیں۔میرے چھوٹے بھائی زاہد حامد آج کل وزیر مملکت برائے دفاع ہیں۔میں خود بھی گورنر پنجاب بننے سے پہلے پاکستان کا وزیر دفاع ر ہ چکاہوں۔گویا میرا اور میرے خاندان کا پاک فوج سے بہت گہرا تعلق اور رشتہ ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مجھے اکثر نیشنل ڈیفنس کالج اور دیگر عسکری تعلیمی اداروں کی جانب سے دعوت ملتی رہتی ہے کہ دفاعی پالیسی سازی کے معاملات میں،بھی اپنی رائے دوں۔ لیکن اس سے پہلے کتاب کے مصنف محمد اسلم لودھی کا شکریہ ادا کروں گا،جنہوں نے اس کتاب کی تقریب رونمائی میں مجھے بلایا۔میرے لئے بلاشبہ یہ ایک اعزاز ہے۔لودھی صاحب پاکستان کے سچے اور مضبوط سپاہی اور محب وطن انسان ہیں“ چند منٹ پہلے میں کرنل (ر) غلام جیلانی خان سے بات کر رہا تھا کہ ہمارے میڈیا میں ایسے صحافی موجود نہیں ہیں جو دفاعی یا عسکری معاملات میں علم یا مہارت رکھتے ہوں۔ میں سمجھتا ہوں یہ ایک افسوسناک بات ہے۔ اگر آپ امریکہ کی مثالیں دیں تو وہاں میڈیا اور فوج کے درمیان آپ کو گہرا رشتہ دکھائی دے گا۔میڈیا اور فوج ایک دوسرے کی بہت مدد کرتے ہیں۔ عراقی جنگ میں انہوں نے ہر جگہ ہر یونٹ میں اخبار نویس بھی اور ٹیلی ویژن کے صحافی بھی تعینات کر دیئے تھے۔ہر روز پینٹاگون میں پریس کوبریفنگ دی جاتی تھی۔ان صحافیوں کے ساتھ مکمل تعاون کیا جاتا تھا اور سوائے نیشنل سیکرٹس معاملات کے انہیں ہر طرح کی معلومات فراہم کی جاتی تھیں۔یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔”شاہد حامد صاحب نے آئی ایس پی آر کے کرنل سجاد حسین اور میجر سیدشاہد عباس کو مخاطب کرکے کہا کہ میں ان کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ مشورہ دیتا ہوں کہ آپ بھی ہر اخبار اور ٹیلی ویژن سے چند صحافی لے کر اپنی ایجنسیوں سے ان کی حب الوطنی کی کلیرنس حاصل کریں اور ان کے ساتھ ایسی معلومات بھی شیئر کریں جو عوام الناس کے بہترین مفاد میں ہو ں اور جس سے عوام میں موجود فوج کے حوالے سے منفی تاثر کو یکسر زائل بھی کیا جاسکے“۔یاد رہے کہ فوج اور عوام یکجان اور یک قالب ہیں۔قوم کے فرزند پاک فوج میں ہیں اور فوج کے محبت کرنے والے عوام ہیں۔ کسی کا باپ، کسی کا بیٹا،کسی کا بھائی سرحدوں پر دشمن کے سامنے سینہ سپر ہو کر فاع وطن کے تقاضے پورے کررہا ہے تو کسی کا باپ اپنے لہو سے یہ فریضہ انجام دے رہاہے۔مجھے یاد ہے کہ دس پندرہ سال پہلے میجر جنرل شوکت سلطان لاہورآیا کرتے تھے تو ان کی ملاقات الیکٹرونکس اور پیپر میڈیا کے معتبر نمائندوں سے بطور خاص کروائی جاتی تھی اور جنرل صاحب ترجمان کی حیثیت سے فوج کی حکمت عملی اور سرگرمیوں کے بارے میں میڈیا کو بریف کیا کرتے تھے، لیکن افسوس کہ ان کے بعد یہ سلسلہ جاری نہ ر ہ سکا۔جس کی وجہ سے ایک خلا سا محسوس ہورہا ہے۔یہ کام جتنی جلدی دوبارہ شروع کر دیا جائے،اتنا ہی بہتر ہے۔ یہ سلسلہ فوج اور عوام کے درمیان ایک مضبوط رشتے کی بنیاد کو استوار کرنے کا باعث بنے گا۔ مجھے یاد ہے کہ کرنل سید شاہد عباس صاحب نے ایک دن مجھے اپنے دفتر میں آنے کی دعوت دی،ملاقات پر انہوں نے بتایا کہ ہائی کمان کا حکم ہے کہ آپ نشانِ حیدر حاصل کرنے والے پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کے صرف جنگی کارنامے مختصر لکھ کر ہمیں دیں جو ریڈیو پر نشر کیے جائیں گے۔ چنانچہ میں نے87صفحات پر مشتمل ایک کتابچہ ان کے سپرد کردیا جس کو بلاشبہ سراہا بھی گیا،مجھے علم نہیں کہ وہ کہانیاں کب ریڈیو پاکستان پر نشر ہوئیں لیکن مجھے تو اتنا علم ہے کہ وفاقی وزرات تعلیم کے ماتحت ادارے ”اردو سائنس بورڈ“ نے اسے کتابی شکل دے کر اس خیال سے شائع بھی کردیا کہ ہو سکتا ہے،کتاب تو چھپ گئی جو میرے پاس محفوظ ہے لیکن باقی معاملات کا مجھے علم نہیں۔اس سال عیدالفطر کے دن”ڈسکور پاکستان“ کے سنیئر صحافی نصیر عباسی کی قیادت میں ایک ٹیم نے کشمیر کنٹرول لائن اورافغان سرحد پر تعینات فوجی افسروں اور جوانوں کے انٹرویو کیے تھے جو مجھ سے سمیت بیشمار لوگوں نے یقینا دیکھے ہوں گے۔ فوجی جوان سے ایک سوال کیا گیاکہ کیا عید کے دن آپ کو اپنے پیاروں کی یاد نہیں آتی؟فوجی جوان نے بہت اچھا جواب دیا۔”ہم اپنے محبت کرنے والوں کے تحفظ کے لیے ہی دشمن کے سامنے سینہ سپر ہیں تاکہ وہ عید کی خوشیاں اطمینان سے گزار سکیں۔ عیدیں تو آنی جانی چیز ہیں۔اصل مسئلہ اپنی قوم اور ملک کا تحفظ ہے جس کو ہر لمحے مقدم رکھنا ہے، ہمیں اپنی جان کی ہرگز فکر نہیں،بلکہ ہم اس لیے مستعد اور چوکس رہتے ہیں کہ کوئی دشمن ہمارے وطن کی طرف بری نظر سے دیکھنے کی جرأت نہ کرسکے“۔مجھے یاد ہے کہ پندرہ بیس سال پہلے 6ستمبر کو ملک بھر میں عام تعطیل ہوا کرتی تھی کہ عوام الناس اپنی فیملی اور بچوں کے ساتھ نہ صرف دفاعی نمائش کو دیکھا کرتے تھے،بلکہ آسمان پر اڑتے ہوئے شاہینوں کو دیکھ کر اپنے جذبوں کو تازہ کرلیا کرتے تھے۔ افسوس کہ یہ سلسلہ بھی ختم ہو چکا ہے اور اب 6ستمبر عام دنوں کی طرح ورکنگ ڈے کی طرح گزر جاتا ہے۔چند عشرے پہلے آٹھ دس فوجی ڈرامے آئی ایس پی آر کے تعاون سے تیار کرکے دکھائے جاتے تھے جن میں الفا براؤچارلی، صنف آہن، عہد وفا، آہن،میجر عزیز بھٹی شہید، پرواز ہے جنون، فلائٹ لیفٹیننٹ مریم شہید وغیرہ شامل ہیں۔میں یہ بات دعوی سے کہتا ہوں کہ یہ فوجی ڈرامے جب آن آیئر ہوا کرتے تھے تو سڑکیں اور گلیاں سنسان ہوجایا کرتی تھیں،لیکن اب یہ سلسلہ بھی یکسر ختم ہو چکا ہے، جسے جاری رکھنا بہت ضروری ہے۔اس حوالے سے معروف ڈرامہ نگارمصنفین کا تعاون آئی ایس پی آر کو حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔یہ فوجی ڈرامے قوم کا مورال بلند کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔مزید برآں یکم ستمبر سے 30ستمبر تک ملک کے تمام تعلیمی اداروں میں ایجوکیشن کور کے ٹرینڈ اساتذہ کے لیکچر ہونے ضروری بھی ہیں۔پہلے تمام ہائی سکولوں اور کالجز میں فوجی تربیت کا اہتمام ہوتا تھا،وہ بھی دوبارہ شروع کرنے کی ضرورت ہے،بلکہ تمام سکولوں کے طلبہ و طالبات کو سال میں ایک مرتبہ آرمی میوزیم کادورہ کروانا ضروری ہے،جس علاقے میں پاک فوج کا جوان وطن عزیز کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہوکر مدفن ہوتا ہے اس شہید کی نماز جنازہ میں تمام ضلعی، تحصیل اور سٹی انتظامیہ شریک ہو،بلکہ شہید کے لواحقین کی دیکھ بھال کرنا مقامی انتظامیہ پر قانونی طورپر فرض کردیا جائے۔
٭٭٭٭٭