اعلیٰ عدلیہ اور پیسنجر ٹرین کے مسافر

  اعلیٰ عدلیہ اور پیسنجر ٹرین کے مسافر
  اعلیٰ عدلیہ اور پیسنجر ٹرین کے مسافر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر سید احمد محمود مرحوم کی تسلی ایک ایل ایل ایم پر نہ ہوئی تو وہ مشی گن لا اسکول جا پہنچے۔ نہ میں نے کبھی ان کی کلاس چھوڑی، نہ کلاس کے اندر ان سے کچھ زیادہ سیکھ پایا۔ شاید یہ بات مہمل سی لگے۔ موصوف انگریزی میں موتی لنڈھاتے تو میں ان کی گھن گرج سے سہم جاتا۔ اردو بولنے پر آتے تو نافعہ آہو میں امانتاً رکھا انگبیں کانوں میں ٹپکنے لگتا، جنبش ابرو اور جھومتے ہاتھ وغیرہ سنوں دیکھوں یا پڑھائی کروں؟ کنویں کی مٹی کنویں ہی میں لگتی ہے۔ یونیورسٹی نئی تھی، سند ملتے ہی مجھ لیکچرر نے ان کی انگلی پھر سے پکڑ لی۔ مزاج اور افتاد طبع کے پیمانے پر عرب انتظامیہ و اساتذہ زندہ اولیا،  لیکن مقامی مزاج اور نزاکتوں سے مطلقا نابلد! ابلتے خون نے اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن بنائی جو باشندگان ارض فراعنہ کے لیے آلہ استعجاب تھی۔

پہلے اجلاس میں ظلم زیادتی، مظلوم اساتذہ، یہ مطالبہ، وہ الاؤنس اور ظلم کے ضابطوں پر تیزابی تقریریں ہوئیں۔ تین اجلاس مزید ہوئے پر پروفیسر محمود پھر نہیں آئے۔ منہ چڑھا مصاحب تھا، پوچھا: "محترم! آپ پھر کسی  اجلاس میں کیوں نہیں آئے"؟ خفگی سے لبالب گاگر ایک دم سے مجھ پر الٹ کر بولے: "اماں یہ کیا سوانگ رچا رکھا ہے تم لوگوں نے؟ پروفیسر ہو تم یا مزدور لیڈر؟ استاد اور مزدور لیڈر کا فرق پتا ہے تمہیں؟ سنو! یہ جو استاد وغیرہ ہوتے ہیں نا، خودداری ان کا اثاثہ ہوتا ہے۔ لیتے نہیں یہ دیتے ہیں۔ اور تم محمود صاحب کو لینے آئے ہو کہ آؤ تم بھی مزدور لیڈر بن کر بھاٹی لوہاری والی بولی بولو۔ پتا ہے،میرے بابا نے 1912 میں نئی گاڑی لی تھی۔ استعفیٰ دے دوں گا، چٹکی بھر خودداری سے خود کشی کر لوں گا، مطالبہ نہیں کروں گا۔ چھٹ بھیا سمجھ لیا ہے مجھ کو یار شام صاحب؟ بیٹھو بیٹھو! خفا نہ ہو، چائے پی کر جانا"۔

 یوں روایتی پڑھائی سے کہیں زیادہ انہوں نے مجھے مختصراً بہت کچھ پڑھا دیا۔ زندگی ڈاکٹر انیس، ڈاکٹر غازی رحمہ اللہ اور ڈاکٹر انوار مرحوم جیسے پر شکوہ ہمالیائی مدبرین کے ساتھ گزری تھی کہ ایک دن دفعتاً اقربا پروری کی تلچھٹ مجھ پر آگری۔ بی ایس سی تھرڈ ڈویژن، ایم اے سیکنڈ ڈویژن والا یونیورسٹی میں بطور ملاقاتی جائے تو جائے، اسے کلرک سے اوپر ملازم  نہیں لیا جاتا۔ لیکن وہ عزیز کنسلٹنٹ میرے افسر اعلیٰ کے کمرے میں بٹھا دئیے گئے۔ بستر پر جاؤں تو 15 منٹ بعد ڈھول پیٹتے رہو، مجھے خبر نہیں ہوتی پر وہ دو راتیں رت جگے کی نذر ہوئیں۔ پروفیسر مرحوم کا نورانی چہرہ گاہے یاد کرا دیتا: "پروفیسر مطالبہ نہیں کرتا حکم دیتا ہے". دو دن بعد آنکھوں میں سرخ ڈورے لیے افسر اعلیٰ صاحبزادہ ساجد الرحمٰن کے پاس جا دھمکا۔ کنسلٹنٹ صاحب نے ڈائریکٹر جنرل کا کمرہ تو لے لیا تھا لیکن ابھی افسر اعلٰی نہیں بنے تھے۔

 سر سید کالج کے پروفیسر مشتاق قمر مرحوم کہا کرتے تھے: "سرنگیے نااہل ہوتے ہیں، لہذا بذریعہ سرنگ راستہ بناتے ہیں "۔ صاحبزادہ صاحب ازراہ تفنن بولے: "یار شہزاد، کام ہی تو کرنا ہے تم نے. میرے ساتھ کیا یا اس کے ساتھ". میں نے بھی ازراہ تفنن نہ کہ بر بنائے تحقیر عرض کیا: "جی قبلہ گاہی! ببر شیروں کے ساتھ کھایا اور کام کیا ہے، خود بھی کسی چیتے، تیندوے سے کم نہیں ہوں۔ اور آپ چاہتے ہیں کہ یہ چیتا اب لکڑ بھگے یا لدھر کی اردل میں جائے؟ یہ رہا میرا استعفیٰ بصد فرحت و انبساط"۔ تب میری مدت ملازمت 25 سال نہیں تھی کہ پینشن مل جاتی. مستقبل کالے گھنگھور سناٹے میں ملفوف تھا۔ راجہ ظفر الحق کے سمدھی صاحبزادہ صاحب بھی خاندانی اعتبار سے خونخوار ببر شیر ہیں. بات فورآ سمجھ گئے  اور استعفیٰ ککو بنا کر پھینک دیا۔

پروفیسر محمود کی اس تربیت کی روشنی میں آج معززین عدلیہ کو دیکھتا ہوں تو دل ڈوبنے لگتا ہے۔ مزدور رہنما تو پھر کچھ محتاط رہتے ہیں لیکن 6 منصفوں نے چیف جسٹس کو خفیہ ادارے کی شکایت کا خط لکھا تو چیف سے پہلے امریکی انتظامیہ کے عہدے دار وہ خط لہرا رہے تھے۔ بہت خوبصورت بہت نیک تھا وہ، ہزاروں جوانوں میں بس ایک تھا وہ۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے جو صنعت نامہ نگاری رائج کی، ایوان عدل سے اس کی نسبت نہیں تھی۔ یہ سننے پر کہ 5 منصفین کا مطالبہ ہے کہ دیگر صوبوں کے جج اسلام آباد نہ لائے جائیں، پروفیسر محمود کانوں پر تازیانے برسانے لگے: "اعلیٰ عہدے دار مطالبہ نہیں کرتے, حکم دیتے ہیں. لیتے نہیں, دیتے ہیں ".

پیسنجر ٹرین کے دروازوں پر کھڑے مسافر  نئے لپکنے والوں کے لیے "جگہ نہیں ہے, نہیں ہے" کی صدا لگاتے ہیں. دھکم پیل کے بعد اندر آ کر وہ باہر والے بھی"جگہ نہیں ہے, نہیں ہے" کی کائیں کائیں کرنے لگتے ہیں۔ باقی صوبوں کے لیے "جگہ نہیں ہے, نہیں ہے" کی صدا لگانے والے یہ 5 جج کاش نوشتہ دیوار پڑھ لیں۔ عدلیہ بہت با اختیار سہی لیکن دیے گئے آئینی احترام سے خالی فیصلہ اہم ہوتا ہے نہ منصف۔ انتظامیہ کی بنائی ریڈ زون والی تین عمارتیں بغور دیکھیے۔ پارلیمان اور ایوان وزیراعظم کی پروقار عمارتیں باجبروت سپریم کورٹ کی بغل میں گویا دو ننھے بٹیر ہمک رہے ہیں۔ اسے یہ خاموش تمکنت 60 کی دہائی میں انتظامیہ ہی نے دی تھی۔جسٹس یحییٰ آفریدی صاحب! یہ تمکنت دریا برد کرنے والوں کو کٹہرے میں لائیے۔

عدلیہ کی آئینی تمکنت ہے سو ہے،  اس ملفوف تعمیراتی اشارے کے توسط سے انتظامیہ کہتی ہی رہی کہ آپ محترم ترین ہیں۔ لیکن "آپ" نے انتظامیہ کو دیوار سے لگا کر چھوڑا۔ تو دیوار سے پشت لگائے مجبور میں 26 ویں ترمیم کی طاقت کیوں نہ آئے؟ صوبوں کے شکار پر گھر سے نکلے ان 5 کو سپریم کورٹ سے 4 کی مکتوبی کمک بھی مل گئی۔ دو نے تحریک انصاف کی معیت میں جوڈیشل کمیشن سے واک آؤٹ کر کے جو ثابت کیا وہ جانیں نہ جانیں، باغ تو سارا جانے ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن کایاں نکلے، نوشتہ دیوار پڑھتے ہی مستعفی ہو گئے۔ تہی دامن پروفیسر بدون پینشن استعفیٰ دے سکتا ہے، جسٹس اعجاز پینشن بچا سکتے ہیں، تو کیا امر مانع ہے گالف کلب جانے میں کہ جب پینشن بھی مل رہی ہو؟ ورنہ وہی جونیئر کی اردل! اس اردل میں کام کرنا پروفیسر کے لیے ناقابل عمل ٹھہرا تو پینشن چھوڑ دی۔ "آپ" پینشن لیں یا جونیئر کی اردل۔ 26 ویں ترمیم  مقتدرائی فیصلوں کا ایک سالہ ٹریلر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فلم سے قبل!

مزید :

رائے -کالم -