آسمانی مخلوق سے سپہ سالار تک

حزب اختلاف اور چیئرمین پی اے سی نے جب قومی اسمبلی میں فرمایا کہ پاکستان کے دوست ممالک چین ، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سے آنے والے ڈالرز ان ممالک نے موجودہ حکومت کو نہیں بلکہ سپہ سالار کو دیے ہیں تو میں چکرا گیا کہ کیا گلیوں گلیوں کیوں نکالا کے نعروں اور جی ٹی روڈ کا کیا لانگ مارچ قصہء ماضی بننے جا رہے ہیں اور بدلے میں انقلابی کیا پھر بدل رہے ہیں۔ کیا پھر وہی ڈیل کے اشارے ہیں کہ جو ہوتی آئی ہے اسی لئے گنگ راہنما اپنی خود ساختہ زباں بندی کے ثمرات سے فیض یاب ہونے جا رہے ہیں۔
سنا ہے کہ اسلام آباد میں ضمانتوں کے دبے دبے اشارے اور نرم لہجے اور شکریہ کے ٹویٹ یقیناً کچھ تو ہے کہ جس پہ احتساب شرمندہ ہو رہا ہے اور قومی اسمبلی میں چئیرمین نیب کو پیش ہونے کی رائے پہ تھپتھپائے میز اس جوش و خروش کے رنگ میں ست رنگ بھرتے نظر آ رہے تھے کہ سسٹم پھر یرغمالی کی طرف بڑھ رہا ہے 150 روز ہمیں لوٹ مار کے قصے سنا کے ، کسی کو ملزم ٹھہرا کے اور ہمارا خون گرما کے اب پھر کس رستے پہ ڈالا جا رہا ہے 150 کیا کسی کا مقصد پورا ہوگیا کہ رائے عامہ بدلنے کی تیاری ہے 150 کیا ہم ، ہمارے قلم اور ہماری دانشوری آپ کے یوں تابع ہے کہ جیسے آپ کہیں ہم بولتے جائیں۔ کل کی خدائی مخلوق اور آج کے سپہ سالار 150 کل مجرمانہ غفلت کے مرتکب اور آج ان کے متشکر ہمیں کس امتحان میں ڈال رہے ہیں۔ کل جہازوں سے اتارے گئے اور آج سنا ہے کہ دس دن کے لئے باہر جانے کے اجازت نامے لئے ہوئے مسرور ہیں کہ دباؤ بڑھانے سے مقاصد حل ہو تے ہیں۔ بات تو ٹھیک ہے یہ شاید ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ ہے کہ کوئی جیل سے آیا ملزم پروٹوکول میں گھومتا ہے اور چئیر مین کے روپ میں کاروبارِ حکومت کی شفافیت کے بھاشن دیتا ہے۔ نندی پور پاور پلانٹ کا کیس اور تحقیقات رینگ رہی ہیں لیکن کھربوں لگا دینے والا روشن پاکستان اگلی حکومت کو پلیٹ میں پیش کر رہا ہے۔ بات تو ٹھیک ہے کہ تبدیلی کی باتیں کرنے والے تبدیلی تو لا رہے ہیں کہ جس میں ملزم یا حاکم ہر تمیز اور فرق سے بالا تر ایک صف میں کھڑا ہے۔ سنا ہے حکومت کے امور چلانے کے لئے یہ کڑوا گھونٹ پینا پڑا تو صاحب اس کڑوے گھونٹ کے بعد کیا اسمبلی کی کارروائی چل رہی ہے یا نظامِ حکومت ساکت ہوا پھر بلیک میل ہو رہا ہے اور پنجاب میں بھی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چئیرمین کی نشست پہ انہیں کو بٹھانے کی تیاری ہے کہ احتساب کے اوپر وہ احتساب آ بیٹھے کہ احتساب بغلیں جھانکتا ہوا لونڈی بنے ہر حکم بجا لائے 150
ایک عرصہ سے چلی آ رہی سیاست میں بھی تبدیلی چاہئے 150 دائیں بازو کی مسلم لیگ ن اور بائیں بازو کی پیپلز پارٹی جب یک جان دو قالب ہوتے بغل گیر ہوئی تو یہ بازو سمٹ کے ایک ہی سمت کے ترجمان بن گئے کہ کیسے مل کے کرپشن کا دفاع کیا جائے۔ حکومت چل نہیں رہی یا چلانے نہیں دی جا رہی یہ بات غور طلب ہے کیونکہ کچھ اہلیت کی کمی اور کج اوکھیاں راواں دونوں ہی زیر قلم رہی ہیں لیکن حقیقت میں افسر شاہی کا گٹھ جوڑ زیادہ تکلیف دہ ہے کہ وہ بھی بالوں تک اسی کرپشن کی دلدل میں گرے دفاع میں نظامِ حکومت منجمد کئے بیٹھے ہیں۔ ان چند ماہ میں عوام کی بات کی بجائے جب اس رات کی بات ہوتی ہے کہ جو کالے مقدروں پہ چھائی ہوئی ہے تو احساس ہوتا ہے کہ یہ قومی نمائندے نہیں بلکہ دولت کے وہ رکھوالے ہیں کہ جن کی اسمبلیوں کے باہر آج بھی کسان بیٹھا احتجاج کر رہا ہے اور خود کو اس ٹھٹھرتی سردی میں گرم رکھنے کے لئے آگ سینک رہا ہے۔ کون کرے اس کے آلو ، بجلی اور کھاد کی بات کیونکہ بجلی کے نرخ طے کرنے والے اور بجلی بنا کے بیچنے والے دونوں کے مفادات کے سامنے اس کے مفادات کیا معنی رکھتے ہیں۔
سب اداروں کو رام کر لینے والوں نے اب یہ بھانپ لیا ہے کہ جو دباؤ میں نہ آئے اسے تعریفوں سے دوست بنا لیا جائے 150 ورنہ سپہ سالار تو ہر محفل اور ان کے ڈی جی آئی ایس پی آر صاحب تو یہ کہہ رہے ہیں کہ ملک اور ملکی معیشیت پٹڑی پہ چڑھ رہے ہیں 150 انہیں تو حکومتی نمائندے اپنی سمت درست کرتے نظر آ رہے ہیں لیکن آپ کی سر پہ رکھی بانہیں اور آپس کا اتحاد کس مقصد کے لئے ہے۔ آپ نے اپنی اپنی باریوں میں کیا کیا گل کھلائے ہیں سب سامنے ہے کہ ملک گھٹنوں کے بل ہے اور کیا آپ اپنی اعلیٰ گورنس اور منصوبہ سازی میں اوجِ ثریا کے حصول کے نعرے لگا رہے ہیں۔ پانچ ارب سے اڑھائی سو ارب تک کی عدالتِ عظمیٰ میں سودے بازی کرتے اور نیلام گھر کھیلتے کھیلتے بڑی زمینوں کے بڑے بڑے پہیے تیار کرنے والے اور پھر فائلوں کو لگا دینے والے سرمایہ کار کیا یہ پیسے ملکی محبت میں دے رہے ہیں یا کچھ ان بد عنوانیوں پہ پردہ ڈالنے کی قیمت ہے جو ان حکومتوں کی شہ پر ہوئی ہیں ورنہ لاہور کا بلاول ہاؤس اور پچھلی حکومت کی لاہور ہی میں اربوں کی مالیت میں زمینیں خرید کے رہائشی پلاٹ کاٹنے والے کو کیا پڑی تھی کہ وہ یہ دام دے رہا تھا اور داد لے رہا تھا کہ ادارے اس کی مٹھی میں تھے اور اس کی دولت کے انبار افلاک کو چھو رہے تھے۔ جنگل کٹ رہے تھے اور اس کی زمینیں ہموار ہو رہی تھیں۔ وزیرِ اعظم کو کسی کو چپڑاسی نہ رکھنے اور ڈاکو کہنے پہ رگیدنے والوں نے کبھی یہ بھی سوچا کہ وہ ایک شخص کی ایک شخص کے لئے ان حالات میں اپنی رائے تھی اور اگر وہ اس کے اب قریب ہے تو کسی کرپشن یا بدعنوانی پہ پردہ ڈالنے کے لئے نہیں ہے150 اگر بات ڈاکو کی تھی تو کیا نیب میں چلتے ان کیسز پہ وزیر اعظم اثر انداز ہو رہے ہیں 150 کیا علیمہ خان اگر عدالت میں ہیں تو ان کے ساتھ ملکی وزیر بھی عدالت میں پیش ہو رہے ہیں۔ کیونکہ میری آنکھوں نے ایک ملزم کے ساتھ سب کام چھوڑ کے بیٹھے تو بہت سے حکومتی وزراء دیکھے ہیں کہ جنہوں نے روز کی بنیاد پہ عدالت کے باہر ان کا مقدمہ لڑا۔
میرا تو بس ایک سوال ہے کہ آسمانی مخلوق سے سپہ سالار تک ہونے والی موقف میں تبدیلی اور بے یقینی کی کیفیت میں کوئی باہر آئے اور عوام کو اعتماد میں لے کہ ملکی لوٹا پیسہ واپس ملکی خزانے میں لایا جائے گا اور کوئی رعایت کسی سے بھی نہ ہوگی۔
۔
نوٹ: یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارہ کا اتفاق کرنا ضروری نہیں ہے ۔