ڈوب مرنے کا مقام!

   ڈوب مرنے کا مقام!
   ڈوب مرنے کا مقام!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 ڈوب مرنے کا مقام! معاف کیجئے، یہ میں نہیں کہہ رہا یہ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے یہ شرم اپنے سمیت اپنی پوری انتظامیہ کو دلائی ہے کہ اگر انہوں نے موجودہ مرحلے سے فارغ ہو کر آئندہ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی پالیسی ترک نہ کی۔ میں پاکستان کی خود مختاری کو داؤ پر لگا کر غیر ممالک یا بیرونی اداروں کی ڈکٹیشن کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے قبول کرنے کا سخت مخالف ہوں۔ لیکن میں اپنی ”ذاتی پالیسی“ کے تحت تنقید کرتے ہوئے محاورے کے ”غم و غصہ“ کے اظہار سے پرہیز کرتا ہوں۔ صرف ”غم“ بیان کر سکتا ہوں لیکن مجھے ”غصہ“ نہیں آتا۔ آئی ایم ایف کے حوالے سے کہنا تو میں بھی وہی چاہتاہوں جو وزیر اعظم نے کہا ہے لیکن اپنے ری ایکشن کو غصے کے یہ انتہائی الفاظ استعمال نہ کرتا۔ اس طرح وزیر اعظم نے میرا کام آسان کر دیا۔ ان کے الفاظ دہرا کر میری Catharsis بھی ہو گئی اور میں غصے کے بیان سے بھی بچ گیا۔

آپ کو پتہ ہے مجھے داستانیں سنانے کا کتنا شوق ہے کالم کے موضوع کی طرف آتا ہوں لیکن پہلے میرے ری ایکشن میں مثبت تبدیلی سے وابستہ Nostalgia کی کہانی سن لیجئے۔ اوکاڑہ میں سکول کے زمانے میں کبھی اکیلے اور کبھی اپنے گروپ کے ساتھ مخالف پارٹیوں سے باقاعدہ لڑائیاں لڑتا تھا۔ ہمارے محلے کے ایک سینئر نوجوان نے باہر کھیتوں میں پہلوانی کا اکھاڑہ بنایا جہاں ہم نے بھی پہلوانی شروع کی میرا یہ استاد ہر ہفتے کسی نہ کسی لڑکے سے میرا جوڑ ڈلواتا اور میں ہمیشہ چت کر دیتا تھا۔

میری پہلوانی کے شوق کی فیملی کو بھی خبر پہنچ چکی تھی اوکاڑہ شہر کے قریب 42 تھری آر میں میرے رشتے کے ماموں روشن دین کے پاس کبھی گیا تو وہ اپنے بیٹے مقبول سے کُشتی ضرور کرواتے۔ اس طرح کبیر والہ کے قریب جودھ پور میں اپنی ایک پھوپھی کے گاؤں جاتا تو میرا بڑا کزن اصغر میرے ایک ہم عمر لڑکے سے میرا مقابلہ کرواتا۔ لیکن فیملی کے اندر یہ مقابلے ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہو جاتے کیونکہ ان کا مقصد مقابلے سے زیادہ تفریح تھا۔

کالج میں گیا تو دنیا ہی بدل گئی۔ میں بالکل ”بیبا بچہ“ بن گیا۔ لڑائی جھگڑا تو دور کی بات کسی سے ناراضی میں اونچی آواز میں بات تک نہیں کی۔ چھوٹے بڑوں سب کو احترام سے بلانا اور نرمی سے بات کرنا ایک عادت بن گئی۔ نفرت اور غصہ زندگی سے خارج ہو گیا۔ کوئی چیز نا پسند ہوئی تو اُٹھ کر چل دیئے، ہنگامہ کھڑا نہیں کیا۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ کہانیاں لکھیں، شاعری کی اور کالم نگاری شروع کی تو اخلاق کے دائرے سے کبھی باہر نہیں نکلا کالم نگاری میں خاص طور پر منفی ری ایکشن کے لئے نرم الفاظ تلاش کرنے کی کوشش کی۔

انسانی مظالم پر احتجاج کرتے ہوئے یا ریاست میں لوٹ مار اور اس کے اثاثوں کو برباد کرنے کا ذکر کرتے ہوئے بعض اوقات سخت الفاظ استعمال کرنے کی ترغیب ہوتی لیکن لکھتے وقت پرہیز کر لیتا ہوں۔ آئی ایم ایف کے حوالے سے وزیر اعظم نے یہ الفاظ استعمال نہ کئے ہوتے تو ان قرضوں پر شدید تحفظات کے باوجود ایسے محاورے استعمال نہ کرتا۔ اب ذرا حقیقت پسندی سے مختصر طور پر جائزہ لیتے ہیں کہ پاکستان کس طرح اپنے قرضوں کے بوجھ کو پہلے کم کرے اور پھر کسی وقت ان کو ختم کرے، اپنی معیشت کو مضبوط کرے اور اپنی ریاست کے اثاثوں یا دولت میں اضافہ کرے تاکہ آئی ایم ایف جیسے اداروں کی محتاجی باقی نہ رہے۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ بجائے وقت گزرنے کے ساتھ ہمارے قرضوں میں کمی واقع ہو یہ الٹے بڑھ رہے ہیں۔ مطلب یہ کہ ایک حکومت اپنا ڈنگ ٹپانے کے لئے قرضوں کے بوجھ میں اپنے حصے کا اضافہ کر کے اسے اگلی حکومت کے حوالے کر دیتی ہے۔ اندازہ لگائیں جو قرضہ 2015ء میں 65 ارب ڈالر تھا وہ اب بڑھ کر دوگنا یعنی 130  ارب ڈالر ہو چکا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ پاکستان تکنیکی اعتبار سے ڈیفالٹ کر چکا ہے کیونکہ اسے 2023ء سے 2025ء تک 73 ارب ڈالر قرضے کی واپسی کرنا ہے جو حکومت کے بس میں نہیں ہے۔ حکومت کے معاشی فیصلہ سازوں کے پاس آئی ایم ایف کی آمدن بڑھانے کی شرط پوری کرنے کا واحد حل عام آدمی پر ٹیکسوں اور مہنگائی کا بوجھ ڈالنا ہے۔ ایوان صدر، گورنر ہاؤسز، کئی کئی وزیر اعظم ہاؤسز، وزرائے اعلیٰ ہاؤسز جیسے ”سفید ہاتھیوں“ کے اخراجات کم کرنے کی بجائے ”عیاشیوں“ کو برقرار رکھنے کے لئے ان کے بجٹ میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے۔ اس طرح ہم ڈیفالٹ سے بچے نہیں ہیں بلکہ مزید قرضے لے کر اس ڈیفالٹ کو صرف آگے دھکیلتے جا رہے ہیں۔

مخالف سیاست دانوں کو گھٹنے کے نیچے رکھ کر مسلسل مقدمات میں جکڑ کر رکھنے کی بجائے تمام سیاست دانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے ”معاشی ایمرجنسی“ نافذ کرنے کا متفقہ اعلان کیا جائے۔ ایک ”قرضہ فنڈ“ سٹیٹ بنک کے ذریعے قائم کیا جائے جس کی شفافیت کے لئے سپریم جوڈیشل کونسل اس کی نگرانی کرے۔ اس فنڈ کا وفاقی بجٹ سے کوئی تعلق نہ ہو اور سیاسی جماعتوں کی مشترکہ لیڈر شپ فنڈ کو کنٹرول کرے۔ تمام بڑے صنعت کاروں، تاجروں اور شریف فیملی، زرداری فیملی سمیت تمام دولت مند سیاست دانوں سے  فنڈ میں کھلے دل سے چندہ دینے کی اپیل کی جائے۔ اگر رضا کارانہ طریقہ کامیاب نہ ہو تو پارلیمینٹ کے بل کے ذریعے ان دولت مندوں کی دولت پر ایک خاص شرح سے اس فنڈ میں وصولی کی جائے۔

یہ ایک آئیڈیا ہے۔ مطلب یہ کہ بچت کی ہنگامی مہم چلا کر اسے ایک تحریک کی شکل دے دی جائے۔ حکومت بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں کو خطیر ادائیگیاں روکنے کے لئے ان کے ساتھ قانونی معاہدوں کو منسوخ کرے اور سپریم کورٹ سے منسوخی کا اختیار لے۔ ان کی بلیک میلنگ سے بچنے کے لئے بین الاقوامی اداروں کو پہلے ہی آگاہ کر دیا جائے کہ معاشی بحران کے سبب ان معاہدوں پر عمل درآمد نہیں ہو سکتا۔

بیرون ملک بسنے والے صاحب حیثیت پاکستانیوں کو اگر اعتماد ہو کہ ان کی امداد خورد برد نہیں ہو گی تو وہ معاشی بحران سے نکلنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔بیرون ملک پاکستانیوں سے کیا اور کس طرح مدد لی جا سکتی ہے اس پر ایک مکمل تحریر آئندہ کسی وقت لکھوں گا۔ کالم کا دامن ختم ہو رہا ہے۔ ڈوب مرنے کے مقام تک پہنچنے سے پہلے زندہ رہ کر مسائل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ 

مزید :

رائے -کالم -