بیعت ِ رِضوان اَ 

 بیعت ِ رِضوان اَ 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ذیقعد میں پیش آنے والا سیرت طیبہ کا اہم واقعہ!

اللہ تعالیٰ ٰاُن اہلِ ایمان(صحابہ کرام ؓ م)سے راضی ہوئے جب وہ ایک درخت کے نیچے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم)کے ہاتھ پر بیعت (علی الموت)کر رہے تھے اور ان کے دلوں میں جو کچھ(اخلاص اور پختہ عزم) تھا وہ بھی اللہ کے علم میں تھا۔ مذکورہ مفہوم قرآنی میں جس بیعت کا تذکرہ ہے اسے بیعت رضوان کہتے ہیں۔ بیعت رضوان ماہ ذوالقعدہ سن 6 ہجری میں وقوع پذیر ہوئی۔ موقع کی مناسبت سے اختصار و جامعیت کے ساتھ پیش خدمت ہے۔ 
مقام حدیبیہ
حدیبیہ؛ مکہ مکرمہ سے تقریباً 24 کلومیٹر کے فاصلے پر واقعہ ایک بستی کا نام ہے پہلے یہاں ایک کنواں ہوا کرتا تھا جسے ”حدیبیہ“ کہا جاتا تھا،بعد میں اسی کنویں کی وجہ سے اس علاقے کا نام بھی ”حدیبیہ“ معروف ہو گیا۔ اس کا اکثر حصہ حدود حرم میں ہے اور بعض حصہ حل(حدود حرم سے خارج)ہے۔ 
نبی کریم ؐ کا خواب مبارک
 6 ہجری میں اللہ کے نبی ؐ نے خواب میں دیکھا کہ آپ اپنے صحابہ کرام ؓ م کے ہمراہ مکہ معظمہ تشریف لے گئے اور کعبۃ اللہ کا طواف کیا، اس کے بعد کسی نے سر کے بال منڈوائے اور کسی نے کتروائے۔ آپ ؐ نے یہ مبارک خواب صحابہ کرام ؓ م کو سنایا سب نہایت خوش ہوئے۔
 مکہ مکرمہ کی جانب سفرکاآغاز
اس کے بعد آپ ؐ اسی سال یکم ذوالقعدہ بروز پیر مدینہ منورہ سے عمرہ کی نیت سے مکہ معظمہ کا سفر شروع کیا۔ صحیح روایات کی بنیاد پر آپ کے ہمراہ جماعت صحابہ کرام ؓ م کی تعداد بروایت براء بن عازب ؓ 1400 جبکہ بروایت جابر بن عبداللہ ؓ 1500 ہے۔ 
مقام ذُوالحُلیفہ پر
مقام ذوالحلیفہ پہنچ کر سب نے احرام باندھا، اس مبارک قافلے کے پاس اللہ کے نام پر ذبح کیے جانے والے جانور بھی موجود تھے جنہیں ایک خاص علامت لگا کر ساتھ لایا جاتا تھا۔ بُسر بن سفیان ؓ کو قریش مکہ کی خبر معلوم کرنے کے لیے روانہ فرمایا۔ مسلمانوں کا ارادہ چونکہ صرف عمرہ کا تھا، جنگ کا نہیں تھا اس لیے اسلحہ وغیرہ ساتھ نہیں تھا صرف اتنے ہتھیار ساتھ تھے جو عام سفر میں جان و مال کی حفاظت کے لیے ساتھ رکھے جاتے تھے۔ 
مقام غدیر اشطاط پر
غدیر اشطاط پر پہنچے تو آپ ؐ کو اطلاع موصول ہوئی کہ قریش مکہ نے آپ کی اطلاع ملتے ہی ایک بڑا لشکر جمع کیا ہے اور جنگ کی تیاری شروع کر دی ہے۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ خالد بن ولید(جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے)دو سو سواروں کے ساتھ لے کر مقام غمیم میں پہنچ گئے لہٰذا اس راستے سے ہٹ کر دائیں جانب کا راستہ اختیار کرو۔ 
رسول اللہ ؐ کی چاہت
 اس کے بعد آپ ؐ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ(قدرت)میری جان ہے اگر قریش مکہ مجھ سے کسی ایسی بات کا مطالبہ کریں جس میں وہ شعائر اللہ(اللہ تعالیٰ کی طرف سے حرمت وعزت والی چیزوں)کی تعظیم ہوگی تو میں اسے ضرور منظور کر لوں گا۔ پھر آپ ؐ نے اونٹنی کو اٹھایا تو وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ 
حدیبیہ کا آخری کنارہ
آپ ؐ مزید آگے کی طرف بڑھے اور حدیبیہ کے آخری کنارے پر ایک ندی کے قریب پڑاؤ ڈالا۔شدید گرمی کا موسم،پیاس کی شدت اور پانی کی قلت تھی۔ندی / کنویں میں پانی کم مقدار میں تھا جو تھوڑی ہی دیر ختم ہوگیا۔
رسول اللہ ؐ کا معجزہ
صحابہ کرام ؓ م نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ترکش سے ایک تیر نکالا اور فرمایا کہ اسے پانی والی جگہ پر گاڑ دو۔ اس کے بعد وہاں سے پانی جوش مار کر نکلنے لگا جیسے چشمہ ابل پڑا ہو۔ پورا لشکر اس سے سیراب ہوا، ان کی واپسی تک یہی حال رہا۔ 
اہل مکہ کے نام پیغام اور ان کا رویہ
آپ ؐ نے حضرت خراش بن امیہ خزاعی ؓ کو ایک اونٹ پر سوار کر کے قریش مکہ کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا کہ ہم صرف عمرہ کرنے کی غرض سے آئے ہیں جنگ و قتال کے لیے نہیں۔ قریش مکہ نے آپ ؐ کے قاصد کے اونٹ کو ذبح کر ڈالا اور قاصد کو بھی قتل کرنا چاہا لیکن کچھ لوگوں نے بیچ میں پڑ کر بچ بچاؤ کرا دیا۔ حضرت خراش ؓ واپس حدیبیہ پہنچے اور آپ ؐ کو ساری صورتحال سے آگاہ فرمایا۔ 
بیعت ِرضوان
 اس خبر سے رسول اللہ ؐ کو شدید صدمہ پہنچا، آپ ؐ اٹھے اور میدانِ حدیبیہ میں موجود ایک ببول(کیکر)کے درخت کے نیچے تشریف لے گئے۔ آپ ؐ نے صحابہ کرام ؓ م کو بلایا اور حضرت عثمان ؓ کا بدلہ لینے کے لیے موت کی بیعت لی۔سب سے پہلے ابوسنان اسدی ؓ بیعت کی۔ 
مفہوم آیت: اللہ تعالیٰ ان اہل ایمان سے راضی ہوئے جب وہ ایک درخت کے نیچے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر رہے تھے اور ان کے دلوں میں جو کچھاخلاص اور پختہ عزم تھا وہ بھی اللہ کے علم میں تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان پر سکینت سکون و اطمینان کی سب سے اعلی کیفیت نازل فرمائی اور ان کوبطورانعام کے ایک قریبی فتح(فتح خیبر)عطا فرمائی۔ (سورۃ الفتح، رقم الآیۃ:18)
جب آپ ؐ بیعت لے رہے تھے تو آپ ؐ نے اپنے ایک ہاتھ کو سیدنا عثمان ؓ کا ہاتھ قرار دیا۔ اسی بیعت کو ”بیعتِ رضوان“ کہتے ہیں لیکن بعد میں پتہ چلا کہ شہادت عثمان والی خبر سچی نہ تھی۔آپ ؐ نے حکم دیا کہ کفار کے کچھ لوگوں کو قید کر لو، مسلمانوں نے کفار کے چند لوگوں کو قید کرلیا۔ تب کافروں نے مجبور ہو کر حضرت عثمان اور ان کے ہمراہ صحابہ کرام ؓ م کو رہا کیا اور اس کے بدلے اپنے لوگوں کو رہا کروایا۔ 
شجرہ رضوان
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانی دیوبندی رحمہ اللہ معارف القرآن میں شجرہ رضوان سے متعلق فرماتے ہیں:شجرہ، جس کا ذکر اس آیت میں آیا ہے ایک ببول کا درخت تھا اور مشہور یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد کچھ لوگ وہاں چل کر جاتے اور اس درخت کے نیچے نمازیں پڑھتے تھے۔ حضرت فاروق اعظم ؓ کو خطرہ ہوا کہ کہیں آئندہ آنے والے جہلاء اسی درخت کی پرستش نہ شروع کر دیں جیسے پچھلی امتوں میں اس طرح کے واقعات ہوئے ہیں اس لئے اس درخت کو کٹوا دیا۔ مگر صحیحین میں ہے کہ حضرت طارق بن عبدالرحمٰن رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حج کے لئے گیا تو راستے میں میرا گزر ایسے لوگوں پر ہوا جو ایک مقام پر جمع تھے اور نماز پڑھ رہے تھے میں نے ان سے پوچھا کہ یہ کون سی مسجد ہے انہوں نے کہا کہ یہ وہ درخت ہے جس کے نیچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیعت رضوان لی تھی، میں اس کے بعد حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ کے پاس حاضر ہوا اور اس واقعہ کی خبر ان کو دی، انہوں نے فرمایا کہ میرے والد ان لوگوں میں سے تھے جو اس بیعت رضوان میں شریک ہوئے انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ ہم جب اگلے سال مکہ مکرمہ حاضر ہوئے تو ہم نے وہ درخت تلاش کیا ہمیں بھول ہوگئی اس کا پتہ نہیں لگا۔ پھر سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ ؓ م جو خود اس بیعت میں شریک تھے ان کو تو پتہ نہیں لگا تمہیں وہ معلوم ہو گیا عجیب بات ہے کیا تم ان سے زیادہ واقف ہو (روح المعانی) اس سے معلوم ہوا کہ بعد میں لوگوں نے محض اپنے تخمینہ اور اندازہ سے کسی درخت کو متعین کرلیا اور اس کے نیچے حاضر ہونا اور نمازیں پڑھنا شروع کردیا، فاروق اعظم ؓ کو یہ بھی معلوم تھا کہ یہ وہ درخت نہیں پھر خطرہ ابتلائے شرک کا لاحق ہو گیا اس لئے اس کو قطع کرا دیا ہو۔ کیا بعید ہے۔
٭٭٭

مزید :

ایڈیشن 1 -