انتخابی غلطیوں کی درستی، عدالتوں سے رجوع کریں
سینٹ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات کے بعد ضمنی انتخابات بھی ہو چکے۔ ان میں ناکام رہنے والے بعض امیدوار انتخابی عمل میں دھاندلی کا الزام لگا کے اپنی متاثرہ نشستوں پر دوبارہ انتخابات کرانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جبکہ ہارنے والے امیدواروں کے قانونی طور پر متعلقہ ٹربیونلز اور اعلیٰ عدالت سے رجوع کر کے ریلیف حاصل کرنے کے لئے عذر داریوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس قانونی لائحہ عمل پر تا حال اکثر متاثرہ انتخابی امیدوار اپنی کاوشیں بروئے کار لا رہے ہیں۔ عدالتی اختیار کرنے سے ہی ان درخواست گزار افراد کو ریلیف ملنے کے امکانات ہوتے ہیں۔ جب ہ اپنا کیس، ٹھوس اور مضبوط قانونی شواہد کے ساتھ پیش کرکے جج صاحبان کو اپنے خلاف غیر منصفانہ کارروائی سے ہرائے جانے کے ثبوت واضح کر دیں۔ اس امر کے لئے متعلقہ عدالتوں میں آئین و قانون اور قابل اعتماد شواہد کی فراہمی لازم ہے۔ لیکن مذکورہ بالا معیار کے حقائق کے بغیر اپنی انتخابی شکست کا واویلا کرنا ان کے لئے سود مند اور یقینی کامیابی کی ضمانت نہیں بن سکتا۔ جج صاحبان سے توقع یہی کی جاتی ہے کہ وہ کسی فریق کی ناجائز طور پر حمایت یا مخالفت سے اجتناب کر کے اپنے فرائض غیر جانبداری اور انصاف کے متعلقہ اصولوں کے تحت سرانجام دیں گے۔ اگر ایسا منصفانہ کردار ان کے فیصلوں سے واضح نہ ہو تو پھر ان کی غلط انداز کی کارروائی پر تنقید کی جا سکتی ہے۔
سیاسی رہنماؤں کو حصول اقتدار کے لئے آئینی و قانونی طریقوں اور راستوں پر ہی اپنی سرگرمیاں محدود کرنا ہوں گی کیونکہ بلا جواز عدالتوں میں جانے سے نہ صرف وہاں جج صاحبان کا قیمتی وقت ضائع ہوگا۔ نیز درخواست گزار افراد کو کچھ مالی اخراجات اور کئی ماہ کی ذہنی اور جسمانی مشقت کے مراحل سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ بلکہ ایک راستہ یہ ہے کہ اس کارروائی کی بجائے عوام کے جائز مسائل اور مشکلات کے حل میں ان کی معاونت کر کے آئندہ کسی انتخابی معرکہ آرائی میں حصہ لینے کے لئے ان کی حتی الوسع حمایت حاصل کرنے کی تگ و دو پر توجہ دے کر کامیابی کے امکانات بہتر بنائے جائیں۔
حالیہ عام انتخابات 8 فروری اور ضمنی انتخابات 21 اپریل کو منعقد ہوئے ہیں تو کیا بعض ناکام انتخابی امیدوار حضرات کے مطالبہ اور احتجاج پر کئی نشستوں پر فوری طور پر انتخابات کا جلد دوبارہ انعقاد کرانا کوئی مثبت لائحہ عمل ہے؟ جبکہ سب امیدواروں کو علم ہے کہ ان کے ذاتی قانونی لاکھوں روپے کے اخراجات کے علاوہ الیکشن کمیشن کو بھی ہر حلقہ میں کروڑوں روپے کے اخراجات قومی خزانے سے ادا کرنا پڑتے ہیں۔ واضح رہے کہ وطن عزیز تا حال یہاں کے کئی غلط کار رہنماؤں، افسروں اور دیگر طبقہ فکر کے افراد کی تسلسل سے بدعنوانیوں کی بنا پر معاشی لحاظ سے بہت ابتر اور مخدوش حالات سے دو چار ہے۔ اس لئے سب معترض رہنماؤں اور امیدوار حضرات و خواتین سے گزارش ہے کہ وہ محض چند ہفتوں کے بعد متعدد قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر دوبارہ انتخابات کے انعقاد کے مطالبہ پر نظر ثانی کر کے اپنی عذر داریوں کے ذریعے ہی اپنی جائز انتخابی شکایات کے ازالوں کے لئے جلد متعلقہ عدالتی فورمز سے رجوع کر کے ریلیف حاصل کرنے کی سعی کریں۔ قارئین کرام جانتے ہیں کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران، کئی ایسی عدالتوں میں مختلف امیدوار حضرات کو فوری طور پر عارضی نوعیت کا ریلیف ملا ہے یعنی حکم امتناعی یا زیریں عدالتوں کے احکام کو معطل کر کے ان پر عمل درآمد روک دیا گیا ہے اور مخالف فریقین کو ان عدالتوں میں پیش ہو کر آئندہ جواب دہی کے احکامات جاری کر کے طلب کر لیا گیا ہے۔ اس طرح آئندہ محض چند مواقع پرسماعت کر کے حتمی فیصلے صادر کئے جانے کے قوی امکانات ہیں۔ یوں متنازعہ حلقوں میں دوبارہ انتخابات کے انعقاد کے مطالبہ کی نسبت جلد اور کم خرچ پر انہیں مقررہ عدالتوں سے آئینی و قانونی طور پر درست و جائز حد تک ریلیف مل سکتا ہے۔ لہٰذا دوبارہ انتخابات کرانے سے یہ راستہ مختصر وقت اور کم اخراجات والا ہونے کی بنا پر ان کے لئے اختیار کرنا ہر لحاظ سے قابل ترجیح معلوم ہوتا ہے۔ اس امر سے کوئی اختلاف نہیں کہ انتخابی نتائج کی غلطیوں کی درستی جلد کی جائے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو چاہئے کہ حالیہ گندم سکینڈل کے حوالے سے غیر جانبداری سے عوام کو نہایت واضح اور درست حقائق اور واقعات سے جلد آگاہ کیا جائے۔ غلط کار افسروں اور دیگر ذمہ دار اورمفاد پرست عناصر کو قومی مفاد کی بنا پر جلد شناخت اور بے نقاب کر کے، ان سے خورد برد کی بڑی رقوم واپس لی جائیں، یہ ایسا افسوس ناک اور شرمناک واقعہ ہے جس سے عوام کے اربوں روپے کے فنڈ کھلی غنڈہ گردی اور بد عنوانی کے ارتکاب سے لوٹ لئے گئے ہیں۔ ایسے واقعات وطن عزیز میں آئے روز وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں لیکن بدقسمتی سے اپنے اثر و رسوخ کے تحت ان کے بڑے ملزمان اکثر اوقات قانون کی گرفت میں آنے سے بچ جاتے ہیں۔ گندم کی بوریوں میں مٹی بھرنا، بددیانتی کی انتہائی کارروائی ہے۔ اس امر کا روایتی انداز کار غیر قانونی ہوتے ہوئے ملزمان کے لئے جلد تادیبی کارروائی کا باعث کیوں نہیں بنایا جاتا؟ ان کی شناخت اور نام ذرائع ابلاغ میں جلد ظاہر کرنے میں آخر کیا امر مانع ہے؟ آئندہ ایسے غیر قانونی واقعات کی روک تھام کے لئے گندم سکینڈل کے ملزمان کی جلد سرکوبی ہونا لازمی ہے۔