کیا امن کی خرابی لازم اور مفید ہوگی؟
اب تو میں یہ سوچنے لگا ہوں کہ الیکٹرونک میڈیا اور اس کے بعد سوشل میڈیا والی ایجاد اور اس کے ذریعے درفنطنیوں کا سلسلہ شروع نہ ہوا ہوتا تو یہ ہمارے سیاست دان کیا کرتے کہ جب یہاں ایک سرکاری ٹیلی ویژن کے علاوہ صرف پرنٹ میڈیا تھا تو ہمارے سیاست دان بردبار اور سنجیدہ بھی تھے اور پھر ان سے تلخ سوال بھی کرلئے جاتے تھے، اس دور میں ہم نے کئی تحریکیں دیکھیں، ان کی کوریج کی لیکن ایسا کبھی نہ ہوا کہ ایک دوسرے کے رابطے ہی ختم ہو گئے ہوں، یہ درست ہے کہ ماضی کے دور میں مارشل لاؤں کے باعث کردارکشی کے واقعات ہوتے رہے لیکن اب جو تقسیم اور توہین کا سلسلہ چلا ہے ایسا تو کبھی نہیں ہوتا تھا، حتیٰ کہ دن کو جلوس ہوتا تو رات کو متحارب جماعتوں کے کارکن کسی نہ کسی چاء خانے پر گپ لگاتے بھی مل جاتے لیکن اب صورت حال بڑی ہی مختلف ہے۔ سوشل میڈیاتو اب گند میں لتھڑا نظر آتا ہے اور اس سے تخریب کاری ہی کا کام لیا جاتا ہے لیکن سیاسی حالات یہ ہیں کہ جب سے ”چوروں اور ڈاکوؤں“ سے بات نہ کرنے کا اعلان کیا گیا تب سے سیاست مقاطع اور گالی بن گئی، اس نظام نے پوری قوم کو تقسیم کر دیا حتیٰ کہ دنیا کے دوسرے ممالک میں جہاں تہذیب کا زیادہ خیال رکھنا ہوتا ہے بدتمیزی انتہا کو پہنچ گئی ہے، اس سے کوئی فائدہ تو ہوتا نہیں لیکن ملک کی بدنامی ضرور ہوتی ہے۔ یوں بھی بیرونی دنیا میں یہ شرف صرف ایک ہی جماعت اور ایک ہی مرشد کے پیروکاروں کو حاصل ہے کہ وہ کوئی لمحہ اور کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، ماضی کی کئی فوٹیج موجود ہیں اور اب تو تواتر سے یہ عمل کیا گیا، مریم نواز اور محمد نوازشریف پاکستان سے باہر اپنے نجی امور کی انجام دہی کے لئے گئے تو ہر جگہ، ہر ملک میں ان کے خلاف مظاہروں کی کوشش کی گئی بقول نواز شریف یہ حضرات گاڑیوں کے پیچھے بھی بھاگتے رہے اب تو سونے پر سہاگہ والی بات ہوئی کہ لندن میں خواجہ آصف کو دھمکیاں دی گئیں اور ان کے ساتھ بدتمیزی کی گئی جس کے بعد بات لندن ریلوے پولیس تک پہنچ گئی ہے، گزشتہ روز تو ایون فیلڈ والی رہائش کے باہر تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کے درمیان ہاتھا پائی ہو گئی اور پولیس کو مداخلت کرنا پڑی، حتیٰ کہ ہمارے مولانا فضل الرحمن کو بھی اس عمل کی پرزور مذمت کرنا پڑی، وہ بھی اپنے جماعتی امور کے حوالے سے برطانیہ گئے ہوئے ہیں۔
برطانیہ ہو یا امریکہ یا کوئی اور ملک جہاں جہاں بھی پاکستانی ہیں، ان میں سے زیادہ تر ان ممالک کے شہری بھی ہیں ایسے حضرات پر تو دہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اگر وہ دہری شہریت کے حامل ہو گئے ہیں تو ان کو قیام والے ملک کے قانون و قواعد کی مکمل اطاعت کرنا ضروری ہے اور جو صرف تعلیم یا روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں، ان کو تو زیادہ ذمہ داری کا ثبوت دینا ہوتا ہے میرے اپنے عزیز، رشتہ دار برطانیہ، امریکہ اور کئی دیگر شہروں میں مقیم ہیں۔ وہ سب تو بڑے سنجیدہ اور وہاں کے قوانین کا احترام کرنے والے ہیں، ہمارے قریباً تمام گھرانے ہی غیر سیاسی ہیں، برمنگھم جانا ہوا تو میرے داماد عظمت کے دوستوں کی طرف سے بڑی پذیرائی ہوئی تھی اور ایک سے زیادہ بار وہ سب اکٹھے ہوئے اور ان کے ساتھ تبادلہ خیال کا بھی موقع ملا، وہ لوگ سیاسی طور پر ہم خیال نہیں ہیں، لیکن ان کی دوستی اور مہذب پن میں فرق نہیں آیا۔ وہ لوگ سیاست پر بات کرتے اور اختلاف بھی کرتے ہیں لیکن تنازعہ کبھی نہیں ہوا بلکہ جب میں نے اپنے طور پر ملکی سیاست کا ذکر کیا اور غیرجانبدارانہ تجزیہ کرتے ہوئے ہر ایک کی جماعت کے حوالے سے بات ہوئی تو سب نے تحمل سے سنی البتہ سوال کرتے رہے۔ لیکن بدقسمتی سے اب جو لوگ بیزار کن عمل کررہے ہیں، ان کا تعلق ایک ہی جماعت سے ہے اور وہ بھی مرشد ہی کے مرید ہیں، میں اس تقسیم کا قائل نہیں کہ یہ برائی پاکستان کے ہر شعبہ زندگی میں شامل ہو چکی ہے حتیٰ کہ عدلیہ اور دیگر ادارے بھی متاثرین میں شامل ہیں، جس کا خمیازہ قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔
ہمارے ایک محترم جو ہمارے کالم نگار بھی ہیں اور ان کو وکالت کی تعلیم کے دوران شریعہ احکام پڑھانے کا فخر حاصل ہے ان کے مطابق تو اعلیٰ عدالتوں کے لئے وکلاء ہی کو منتخب کرنا بھی اس تقسیم کا باعث ہے، ان کے خیال میں تو حکومتوں کو سیشن جج سے ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ تک ترقی دینا چاہیے تاکہ ان کا عدالتی تجربہ کام آئے۔ یہاں تو سیاسی بنیادوں پر وکلاء کو ترجیح دی جا رہی ہے بلکہ کئی بار تو ایک ہی چیمبر سے تعلق رکھنے والے کئی حضرات جج بنا دیئے جاتے ہیں اور یہ اپنے تصورات ساتھ لاتے ہیں جس کا ثبوت ملتا رہتا ہے ان کے خیال میں بہتری اور تجربے کے طور پر عدلیہ ہی سے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے لئے ترجیح ہونا چاہیے کہ کم از کم شعبہ جاتی تعصب تو نہ ہو۔ پھر جو نیچے سے اوپر آئیں گے ان کو قانون کے علاوہ حالات کا بھی تجربہ ہوگا، اس لئے قبلہ درست کریں اور اب جو آسامیاں 26ویں ترمیم کے ذریعے بنی ہیں ان کے لئے نچلی عدالتوں اور وہاں کی خالی نشستوں کے لئے اس سے نیچے کی عدالتوں سے فاضل جج لئے جانا چاہئیں تاکہ فیصلے بلا تعصب ہوں۔
آج کے حالات میں جو بڑا ایشو میڈیا کے ہاتھ لگا وہ 24نومبر کے لئے تحریک انصاف کے سابق چیئرمین اور وزیراعظم عمران خان کی طرف سے احتجاج کی کال ہے، میں ان کی جماعت کے حوالے سے تو کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن عام لوگوں میں زندگی بسر کرتے ہوئے یہ ضرور عرض کروں گا کہ بانی جماعت کی ہمشیرہ نے ان کی طرف سے جو ہدایات دہرائیں اور کہا ہے وہ پورا نہیں ہو سکتا کہ لوگ دیوانہ وار گھروں سے نکل کر حکومت کا تختہ الٹ دیں، عام پبلک تو نہیں ہوگی البتہ اس جماعت کے کارکن ضرور نکلیں گے اور روپوش رہنماؤں کی ہدایات پر زیادہ عمل ہوگا جو یقینا غصہ میں بھرے پھر رہے ہیں، اس سے اور تو کچھ ہو نہ ہو، لیکن ہنگامہ ضرور ہوگا کہ شاید حکومت اس مرتبہ برداشت نہ کرنے کا تہیہ کئے بیٹھی ہے۔ اگرچہ اصولی طور پر میں اور میرے ہم خیال دوست تحریر و تقریر اور اجتماع کی آزادی کے حق میں ہیں اور اس مقصد کے لئے صعوبتیں بھی برداشت کئے ہوئے ہیں، اس کے باوجود ہم پرامن حالات کے قائل ہیں اور ہم نے آزادی صحافت، تقریر و تحریر کے لئے جب بھی مظاہرے کئے ان کو پرامن رکھنے کی ہر ممکن کوشش اور جدوجہد کی تاہم نعرہ بازی کو روک نہیں پاتے تھے اور پھر اگر ہم نہیں کرتے تو پاسداران امن کو خارش ہو جاتی تھی اور ہم بھی لاٹھی چارج، حوالات اور جیل کا مزہ چکھ لیتے تھے اور یہ تو محاذ آرائی ہے اور تخت یا تختہ کا نعرہ دیا گیا ہے، اس صورت حال میں مخالف فریق سے کسی تحمل کی توقع عبث ہے اس لئے ہنگامہ آرائی لازم ہے اور یہ سب ملکی استحکام اور امن کے منافی ہے اس سے ملکی حالات مزید متاثر ہوں گے اور معیشت کو بھی دھچکا پہنچے گا اس لئے ان رہنماؤں کی بات اور دلائل میں وزن ہے جو موخر کرانا چاہتے ہیں کہ اسی میں بہتری ہے۔