ڈالر پاکستان کیوں نہیں آتے؟

   ڈالر پاکستان کیوں نہیں آتے؟
   ڈالر پاکستان کیوں نہیں آتے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 ہمارے ملک میں یہ بڑا شور مچایا جاتا ہے کہ زر مبادلہ کے ذخائر کم ہیں، ڈالرز کم ہیں اور سننے میں آیا ہے کہ بعض اوقات تو  وقتی ضرورت پوری کرنے کے لئے حکومت کو ڈالر مارکیٹ سے بھی خریدنے پڑتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ میرے خیال میں اس کی وجہ وہ سسٹم اور وہ پالیسیاں ہیں جن کی وجہ سے بیرون ملک کام کے سلسلے میں گئے ہوئے ہمارے پاکستانی بھائی قانونی طریقے سے اپنے پیسے پاکستان بھیجنے کے بجائے غیر قانونی طریقے استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کیونکہ ان میں انہیں آسانی اور سہولت ہوتی ہے۔ آج تک کسی نے اس ایشو پر توجہ دینے کی کوشش نہیں کی کہ نظام کو ہی کچھ بہتر بنا لیا جائے اور سسٹم میں کچھ ایسی سہولتیں پیدا کر دی جائیں کہ کوئی بھی غیر قانونی طریقے سے کام کرنے کی کوشش نہ کرے۔

ہنڈی، حوالے کے ذریعے رقوم کی منتقلی کے کاروبار کے حجم کے بارے میں کوئی واضح اور دوٹوک اعدادوشمار موجود نہیں جن کی بنیاد پر اس غیر قانونی طریقے سے رقوم کی منتقلی کے بارے میں یقین کے ساتھ کچھ کہا جا سکے' تاہم کچھ حوالوں سے یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ کچھ عرصہ قبل قانونی اور غیر قانونی ذرائع سے پاکستان منتقل ہونے والی رقوم کا حجم برابر تھا۔ آج سے اٹھارہ بیس سال پہلے اس غیر قانونی طریقہ ترسیل پر شور اُٹھنا شروع ہوا اور حکومت نے ان معاملات میں سنجیدگی اور سختی اختیار کی تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ غیر قانونی طریقے کے استعمال میں کچھ کمی واقع ہوئی، لیکن یہ پوری طرح ختم نہ کیا جا سکا تھا اور میرے خیال میں اس کی وجہ ہے رقوم کی ترسیل کے حوالے سے رائج پیچیدہ سسٹم۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر ممالک کے ایسے تارکین وطن مزدوروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے،جو  حوالے کے ذریعے اپنے خاندانوں کی مدد کے لئے رقم بھیجتے ہیں۔ عالمی بینک نے یہ بھی بتایا ہے کہ ترسیلات زر کا اصل سائز (روایتی اور غیر روایتی دونوں طریقوں سے) سرکاری اعداد و شمار سے بہت زیادہ ہے۔

دبئی اور دوسرے متعدد ملکوں میں ڈالرز کے ذریعے ٹریڈنگ کا بڑا واضح اور کھلا نظام رائج ہے۔ ان کے اپنے بینکوں کے ذریعے ساری ایل سیز A letter of credit (LC) کھلتی ہیں۔ ان کی معیشتیں کتنا پھل پھول رہی ہیں۔ یہ بالکل سامنے کی بات ہے، لیکن ہمارے ہاں یہ سہولت موجود نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمیں اس طرح کی سہولت کیوں نہیں مل رہی ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ باہر کام کرتے ہیں انہوں نے باہر ہی اکاؤنٹ کھولے ہوئے ہیں۔ ان کے ڈالرز باہر ہی رہ جاتے ہیں۔ پاکستان میں ان کو سہولت ہی نہیں ملتی کہ وہ ڈالرز میں کاروبار کریں۔ اس سختی کی وجہ سے جنہیں کوئی چیز امپورٹ کرنی ہو تو انہیں دبئی کے ذریعے پیسے بھجوانے پڑتے ہیں یا پھر ہنڈی کے ذریعے پیسے بھجوانے پڑتے ہیں۔ ایل سیز یہاں کھلتی نہیں ہیں۔ کسی کا یہاں پر ڈالر اکاؤنٹ ہے اور کوئی باہر سے ریمیٹنسز (Remittances) بھیجتا ہے یا پاکستان میں اپنے ڈالرز بھیجتا ہے تو یہاں پر اس کو ان ڈالرز کے بدلے میں پاکستانی روپے ملتے ہیں۔ لوگوں کے ڈالر اکاؤنٹ کھلے ہوئے ہیں، لیکن ان کا انہیں کوئی فائدہ ہی کوئی نہیں ہے۔ اس ساری تمہید کا لب لباب یہ سوال اٹھانا ہے کہ پاکستان میں کیوں یہ پابندیاں ہیں؟ پاکستان میں ہر چیز آنی چاہیے، ڈالر آنے چاہئیں، جس نے جس کرنسی میں رقم جمع کرائی ہے اسے وہی کرنسی پاکستان میں ملنی چاہئے۔ مطلب میرا یہ ہے کہ اگر میرے ڈالر اکاؤنٹ میں ڈالرز آتے ہیں تو مجھے ڈالرز ہی ملنے چاہئیں اور میں یہاں بیٹھ کر اگر کوئی چیز پاکستان کے باہر سے لیتا اور لاتا ہوں تو مجھے یہیں سے اس کی ٹریڈنگ کروانی چاہئے۔اس مقصد کے لئے مجھے دبئی کے بینکوں وغیرہ کا سہارا تلاش نہیں کرنا چاہئے۔ ہمارے بینکوں کو یہ سہولت ہونی چاہئے۔ سارا کچھ ہی دبئی سے ہو رہا ہے' دوسرے ممالک میں ہو رہا ہے۔ ہم نے یہ سختیاں کر کر کے خود کو بالکل ہی برباد کر لیا ہے۔ کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ 1998ء میں حکومت نے جب ڈالر فریز کیے تھے اور اس کے بدلے پاکستانی کرنسی لوگوں کو دی گئی تھی تو اس کے بعد سے یہ سارے ایشوز اسی طرح چل رہے ہیں۔ میرے خیال میں ملک میں ڈالر لانے ہیں تو اپنے ملک میں ڈالرز کی ٹرانزیکشنز کو بڑھانا ہو گا،جو جس طرح بھیجتے ہیں انہیں اسی طرح ملیں تو کوئی وجہ نہیں کہ لوگ حوالہ ہنڈی کا طریقہ استعمال کریں۔ پھر ویسے بھی لوگ جتنے ڈالر بھیجتے ہیں انہیں اس حساب سے پیسے ملتے ہی نہیں ہیں۔اب بازار میں مثال کے طور پر ڈالر اگر 280 روپے کا ہے تو بینک کے ذریعے بھیجیں تو انہیں 275 کے حساب سے پیسے ملتے ہیں، یعنی بینک والے پانچ روپے فی ڈالر ویسے ہی رکھ لیتے ہیں، جبکہ حوالہ ہنڈی میں پیسے تو لگتے ہیں لیکن اتنے زیادہ نہیں۔ اسی لئے لوگ قانونی طریقے کو چھوڑ کر غیر قانونی طریقے کی طرف آتے ہیں جس میں سارا نقصان ملک اور حکومت کا ہوتا ہے۔ جب ایل سیز نہیں کھلتیں تو جو لوگ تجارت کرتے ہیں دوسرے ممالک سے چیزیں منگواتے ہیں وہ پھر حوالہ ہنڈی کے ذریعے پیسے بھیجتے ہیں۔اسی طرح جو پاکستان سے باہر ہیں اور امپورٹ ایکسپورٹ کا کاروبار کرتے ہیں تو ان لوگوں کے اکاؤنٹ ہی باہر کھلے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں پوری پیمنٹ آتی نہیں ہے۔اس لئے ارباب بست و کشاد کو چاہئے کہ غیر ملکی کرنسیوں خصوصاً ڈالر کے حوالے سے پاکستان میں پورا ایک نظام قائم کریں جس طرح پوری دنیا میں ہے تاکہ تجارت ٹرانزیکشنز کے ذریعے ہو۔ اس کا نتیجہ ڈالر کے سستا ہونے کی صورت میں بھی  نکلے گا اور گورنمنٹ کو جب ٹیکس کی مد میں پیسے ملیں گے تو ریونیو میں اضافہ ہو گا۔ امپورٹ ایکسپورٹ دونوں پراپر (Proper) طریقے سے ہوں گی تو زرِ مبادلہ کے ذخائر خود بخود بڑھنا شروع ہو جائیں گے۔

 اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمارے ملک سے ڈالر سمگل بھی ہوتے ہیں اس سمگلنگ کو روکنے کی بھی اشد ضرورت ہے، کیونکہ اگر ڈالر آتے بھی رہیں، خریدے بھی جاتے رہیں اور دوسری طرف سے سمگل ہوتے رہیں تو ظاہر ہے کہ نہ روپے کو استحکام مل سکتا ہے اور نہ ہی زر مبادلہ کے ذخائر اطمینان بخش حد تک بہتر ہو سکتے ہیں۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -