گھڑے کی مچھلیاں آزاد ہو رہی ہیں
شیدے ریڑھی والے نے مجھے فون پر اطلاع دی کہ اُس نے سبزی و پھلوں کی بجائے مچھلی بیچنے کی ریڑھی لگا لی ہے اِس لئے مچھلی کھانے کا دِل کرے تو کہیں اور نہیں میرے پاس آئیں۔مجھے یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی،کیونکہ سردی کے آتے ہی مچھلی کا استعمال بھی شروع ہو جاتا ہے، شیدا چونکہ ایک دیکھا بھالا آدمی ہے اِس لئے مناسب ریٹ پر مچھلی مل جایا کرے گی یہ حُسن ِ اتفاق ہے جس وقت شیدے کا فون آیا، اُس وقت اہلیہ سے یہ بات چل رہی تھی کہ آج مچھلی نہ پکا لی جائے،میں نے جب اُنہیں بتایا کہ سبزی والے نے مچھلی بیچنا شروع کر دی، تو انہوں نے کہا پھراُسی سے لے آئیں۔ میں نکلا اور سیدھا شیدے کے پاس پہنچ گیا۔ ریڑھی پر کئی اقسام اور مختلف وزن کی مچھلیاں رکھی ہوئی تھیں،میں نے اُسے مبارکباد د ی اور کہا لگتا ہے اس بارسیزن لگ گیا تو تمہارے وارے نیارے ہو جائیں گے۔اُس نے کہا باؤ جی یہ جتنا مال پڑا ہے اُدھار پر لایا ہوں،کیونکہ اس کاروبار میں اُدھار چل جاتاہے، بہت بڑے بڑے مچھلی فارم بن گئے ہیں،جہاں بے تحاشہ مچھلی پیدا ہوتی ہے۔ظاہر ہے انہیں بیچنے کے لئے ہم جیسے مزدور چاہیئے ہوتے ہیں اس لئے یہ40ہزار کا مال اٹھا دیا ہے یہ سارا بک گیا تو مجھے تین چار ہزار روپے بچ جائیں گے۔ اُس کی باتیں خاصی معلومات افزاء تھیں، میں نے پوچھا آج کون سی مچھلی دو گے، کہنے لگا ”ڈمرا“ فش لے جائیں بہت اچھی،ذائقے والی ہوتی،کانٹے بھی زیادہ نہیں ہوتے۔ میں نے کہا تمہیں یہ معلومات کیسے ملیں،آج تو پہلا دن ہے، کہنے لگا،ہماری بھی دو دن ٹریننگ ہوتی ہے۔ میں نے کہا یہ دریائی اور فارمی مچھلی کا کیا فرق ہے۔کہنے لگا بابو جی سب فارمی ہے،ریٹ بڑھانے کے لئے دریائی مچھلی کہہ دیتے ہیں، مچھلی پانی سے باہر آ جائے تو کیا پتہ چلتا ہے وہ دریا کے پانی سے آئی ہے یا فارم کے،میں نے کہا شیدے تمہیں پتہ ہے ایک گھڑے کی مچھلی بھی ہوتی ہے۔ کہنے لگا بابو جی اِس ملک میں گھڑے کی مچھلی تو ہم غلام ہیں جنہیں جب چاہیں پکڑ لیتے ہیں۔اُس کی اِس بات پر میں چونکا، شیدے نے کیسی پتے کی بات کر دی۔عوام گھڑے کی مچھلی، کیا زبردست عنوان ہے اور اس کے پیچھے کس قدر تلخ سچائی موجود ہے۔میں سوچنے لگا شیدے ریڑھی والے جیسے لوگوں کو ہم بدھو،احمق اور ناسمجھ عوام ترلہ دے کر بڑے بڑے چکمے دیتے،جھوٹ بولتے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے یہی لوگ سمجھ دار ہیں اور ہمیں زمینی حقائق کو سمجھنے کا موقع دیتے ہیں۔میں نے اُسے ایک درمیانے سائز کی مچھلی دینے کو کہا۔ وہ اڑھائی کلو وزنی تھی میں اسے بنوا کر گھر کی طرف چل پڑا،مجھے راستے میں کئی مناظر نظر آئے،کہیں موٹر سائیکل ٹھیک کرنے والوں کی دکانیں،کہیں کریانہ فروش،کہیں ریڑھی پر چنے بیچنے والے اور چنگ چی رکشہ والوں کی آوازیں مجھے اپنی متوجہ کرتی رہیں۔ایک جگہ تعمیر ہو رہی تھی اور مزدور کام پر لگے ہوئے تھے۔میں سوچنے لگا کیا یہ سب اپنا پیٹ بھرنے کے لئے یہ سب کر رہے ہیں یا ان کی وجہ سے معاشرے کا نظام بھی چل رہا ہے۔کیا یہ ہیں وہ گھڑے کی مچھلیاں جن کی طرف شیدے ریڑھی والے نے اشارہ کیا تھا؟ان لوگوں کو مچھلیوں سے انسانوں کا درجہ کب ملے گا۔ کب اس ملک کی سیاست، اس ملک کا نظام انہیں یہ درجہ دے گا کہ انہیں بولنے،سوچنے،اپنی رائے دینے کا حق بھی ملے۔اب تو ایک طبقہ اشرافیہ ہے جو اسمبلیوں میں بیٹھ کے انہی کے ووٹوں کی برکت سے اقتدار میں آ کر بالا بالا فیصلے کرتا ہے اور ان پر انہیں نافذ کر دیتا ہے۔یہ تمام فیصلے ایسے ہوتے ہیں جن میں اِس بات کا خاص طور پر خیال رکھا جاتاہے،ان گھڑے کی مچھلیوں کو آزادی نہ مل جائے۔یہ غلام رہیں اور گھڑے کی چار دیواری سے باہر آنے کا سوچیں بھی ناں۔
دو روز پہلے میں نے ایک عجیب منظر دیکھا تھا،میں جس علاقے میں رہتا ہوں وہاں ملی جلی آبادی ہے، دو چار اچھی کالونیاں بھی ہیں اور زیادہ تر عام اور متوسط طبقے کی آبادیاں ہیں یہاں ایم این اے یا ایم پی اے کی سیٹ کا مکمل حلقہ نہیں البتہ دوسرے حلقوں سے مل کر ایک حلقہ بن جاتا ہے۔گویا امیدواروں کو ووٹ لینے کے لئے اِس علاقے میں بھی آنا پڑتا ہے۔زیادہ تر گیلانی، قریشی، بھٹے اور بوسن اِس علاقے کے امیدوار بنتے ہیں۔ پچھلی بار یہاں سے پہلے سید یوسف رضا گیلانی جیتے تھے، جب چیئرمین سینٹ بن گئے تو اُن کی جگہ اُن کے بیٹے امیدوار بنے۔ اِس سے پہلے ملک سکندر حیات بوسن اور احمد حسین ڈیہڑ بھی کئی بار جیتے۔ منظر جس کا میں ذکر کر رہا ہوں، اسی علاقے کے واحد بازار میں دیکھا،میں بھی چھوٹی موٹی معمول کی خریداری کے لئے موجود تھا۔ ایک لینڈ کروزر آکر رُکی، اس میں سے ایک سیاستدان اُترے۔ میرا خیال تھا، ابھی اردگرد کے سب لوگ اپنا کام چھوڑ کر اس کے گرد کھڑے ہو جائیں گے، گھٹنوں کو چھوئیں گے،ملک صاحب، ملک صاحب کریں گے، مگر یہاں تو منظر میں کچھ اور تھا۔ ایک موچی بیٹھا تھا اُس نے دیکھا اور جوتی گانٹھنے میں محو رہا، دوسبزی فروش تھے،دیکھ کرسبزی کی آوازیں لگانے لگے۔ ایک پنکچر لگانے والے کی دکان تھی اس نے ملک صاحب کو ایک نظر دیکھا اور ٹیوب کے پنکچر والی جگہ کو رگڑنے لگا۔ بچوں کے کھلونے بیچنے والا ایک شخص بھی ملک صاحب کی طرف متوجہ ہونے کے باوجود لپک کر ان کی طرف نہیں بڑھا۔ میرے لئے یہ سب حیران کن تھا۔ یہ تو اس علاقے کا کلچر ہی نہیں تھا۔ یہاں تو نسل در نسل ان وڈیرے سیاستدانوں کے آگے پگڑیاں بچھانے والے لوگ رہتے تھے۔ یہ اُلٹی ہوا کیسے چل پڑی ہے گھڑے کی یہ مچھلیاں قابو سے باہر کیسے ہو گئی ہیں۔میں نے دیکھا وہ سیاسی وڈیرا خود ایک دکان کی طرف بڑھا۔ اس نے بلند آواز میں کہا، رفیق صاحب کیا حال ہے۔ میں نے سوچا آپ لوگوں کا حال احوال ہی پوچھ آؤں۔ محمد رفیق نے کہا سب ٹھیک ہے، آپ سنائیں، سیاسی وڈیرے کی حالت دیدنی تھی، اتنی بلند آواز لگانے کے باوجود کوئی اپنا کام چھوڑ کر ان سے ہاتھ ملانے نہیں آیا تھا۔ میں نے ایک جاننے والے سے پوچھا یہ آج ملک صاحب کے ساتھ کیا بنی؟اُس نے کہا اس کے ڈیرے پر حلقے کے لوگوں کی تذلیل کی جاتی ہے۔ یہ کسی کا کوئی کام نہیں کرتا۔اِس لئے سب اس سے نفرت کرتے ہیں۔
کوئی اِس بات کو تسلیم کرے یا نہ کرے، مگر یہ حقیقت ہے اِس وقت عوام کا سیاسی شعور اپنی بالائی حد کو چھو رہا ہے، کسی کو ہوش آئے یا نہ آئے، عوام کو ہوش آ چکا ہے۔ 8فروری کے انتخابات میں عوام نے جس سیاسی شعورکا مظاہرہ کیا، اسے فارم 45یا فارم 47کی بحث میں اُلجھا کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ایک بڑی زمینی حقیقت ہے۔ایک طرف اشرافیہ اپنے بچاؤ کے لئے نت نئے ہتھکنڈے آزما رہی ہے اور دوسری طرف عوام کی شعوری آنکھ اُنہیں وہ مناظر بھی دکھا رہی ہے، جو تمام تر پروپیگنڈے کے باوجود انہیں نظر آ رہے ہیں انہیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کے سیاست کرنے کی حکمت عملی اب دریا برد ہو چکی ہے۔ عوام کا سامنا کرنے کی سکت بھی آخری دموں پر ہے۔گھڑے کی مچھلیاں آزاد ہو رہی ہیں،سوائے کوتاہ نظروں کے یہ منظر سب کو صاف نظر آ رہا ہے۔