جیت
عامر گراؤنڈ پہنچا تو وہاں اسی کا انتظار ہو رہا تھا۔عامر اپنی ٹیم کا کپتان تھا۔ٹاس ہونے لگا۔ٹاس فاخر کی ٹیم نے جیتا اور پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا۔دونوں طرف سے بھرپور کھیل کا مظاہرہ ہو رہا تھا۔فاخر کی پوری ٹیم بیس اوورز میں 150 رنز بنا سکی۔اب عامر کی ٹیم کی باری تھی۔عامر کی ٹیم نے اچھا آغاز کیا۔
اب اسکورنگ کچھ یوں تھی 144 رنز جب کہ صرف تین گیندیں باقی تھیں۔اور دس رنز چاہئیں تھے۔میچ بہت سنسنی خیز ہو گیا تھا۔ابھی ناصر بیٹنگ پر تھا۔ایک بال مس ہو گئی،مگر پھر فوراً ہی اس نے ایک زور دار چوکا لگایا۔گویا اب ایک بال پر ایک چھکے کی ضرورت تھی اور ٹیم کی عزت عامر کے ہاتھ میں تھی۔عامر کا دل دھڑک رہا تھا۔
آخری گیند پھینکی گئی تو عامر نے پوری قوت سے ہٹ لگائی۔فوراً ہی وہ اور اس کی ٹیم کے گویا سانس ہی رْک گئے۔بال باؤنڈری پر کھڑے خرم کے ہاتھوں کی طرف بڑھ رہی تھی،مگر اچانک پھر ایک حیرت انگیز بات ہوئی۔بال خرم کے ہاتھوں سے پھسل کر باؤنڈری پار کر گئی تھی۔بس پھر کیا تھا،عامر کی ٹیم خوشی سے چیخی اور پھر انھوں نے عامر کو اپنے کندھوں پر اْٹھا لیا۔کچھ دیر کے بعد عامر کو ٹرافی دے دی گئی۔جب وہ ٹرافی لے کر ڈریسنگ روم کی طرف جا رہا تھا تو اس کے کانوں میں فاخر کی آواز آئی۔
وہ کہہ رہا تھا:”تم لوگوں نے اتنی بْری کارکردگی کیوں دکھائی؟“
کسی نے جواب دیا:”بات یہ ہے کہ ہمیں اپنے کھیل پر بہت ناز تھا،ہم نے سوچا کہ ہم تو اتنا اچھا کھیلتے ہیں،ہمیں پریکٹس کی کیا ضرورت؟“
”پریکٹس بہت ضروری ہوتی ہے کھیل کے لئے،محنت کریں،تبھی تو جیت حاصل ہوتی ہے۔“خرم نے کہا۔
عامر سوچ رہا تھا کہ واقعی جو محنت کرتے ہیں،جیت اْنہی کی ہوتی ہے اور جو اپنے اوپر ناز کرتے ہیں،وہ کچھ نہیں کر پاتے۔