جبر اور جمہوریت۔۔۔کلثوم نواز شریف کی سیاسی جدوجہد کی چشم کشا کہانی،خود انکی اپنی زبانی ... چھٹی قسط
چند لمحوں کے لئے ملنے والی میاں صاحب کی قربت سے ہم خود کو کیسے محروم رکھ سکتے تھے۔ کبھی کبھار کسی اخبار میں آجاتا ہے کہ میری اور نصرت شہناز کی لڑائی ہے جبکہ آج تک ایسی کوئی بات نہیں ہوئی اور انشاء اللہ ہوگی بھی نہیں بلکہ اس کے برعکس ہمارا تو ایک دوسرے کو دعائیں دیتے وقت گزرتا تھا۔ بہرحال یہ ان کا مشورہ تھا لیکن ہم نے تو عدالت میں ضرور جانا تھا۔ نواز شریف سے ملنے کے لئے مجھے آگ کے دریا سے گزرنا پڑتا تو میں تب بھی جاتی۔ اس کے بعد ہمیں اخبار بھی ملنا شروع ہوگیا تھا۔
کراچی میں پیشی کے بعد میاں صاحب کو راولپنڈی لایا گیا لیکن یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ انہیں کہاں رکھا گیا ہے؟ کسی طرح معلوم ہوا کہ حسین نواز کو بھی راولپنڈی لایا گیا ہے۔ ایک دن مجھے بتایاگیا کہ میں حسین سے مل سکتی ہوں اور راولپنڈی میں ایک فوجی میس کا پتہ دیا گیا۔ میرے وہاں پہنچنے کے 15 بیس منٹ بعد گیٹ سے ایک گاڑی اندر داخل ہوئی۔ مجھے یوں لگا جیسے سول کپڑوں میں ملبوس دو افراد کے درمیان ایک کالے رنگ کا برقعہ پہنے کوئی عورت بیٹھی ہے۔ جب اس کو باہر نکالا گیا تو پتہ چلا کہ برقعہ نہیں اس کے اوپر کالی چادر ڈالی ہوئی تھی۔ چادر ہٹائی گئی تو دیکھا کہ اس کی آنکھوں پر سیاہ پٹی بندھی ہوئی ہے۔ بہرحال یہ پٹی کھول دی گئی، میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ وہ حسین کو اس حالت میں لائیں گے۔ حسین نے کبھی کوئی جرم نہیں کیا، وہ انتہائی نیک اور محب وطن نوجوان ہے۔ حتیٰ کہ اپنے پہلے بچے کی پیدائش پر اس نے اپنی بیوی کو لندن نہیں جانے دیا تاکہ اس کے بچے کی پیدائش پاکستان میں ہو، ایک ایسے شخص کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیا جارہا تھا۔
جبر اور جمہوریت۔۔۔کلثوم نواز شریف کی سیاسی جدوجہد کی چشم کشا کہانی،خود انکی اپنی زبانی ... پانچویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
حسین نواز کی زبانی معلوم ہوا کہ 12 اکتوبر 1999ء کی رات تقریباً دس بجے نواز شریف صاحب اور شہباز شریف کو فوجی اپنے ہمراہ لے گئے۔ ان کے جانے کے بعد تمام چیزوں کی تلاشی لی گئی، میرے وارڈ روب کی بھی مکمل تلاشی لی گئی۔ نواز شریف صاحب کے سارے سوٹ کیس الماریوں اور بریف کیسوں کی تلاشی لی گئی۔ ایک بریف کیس میں پاکستانی روپوں کے علاوہ کچھ ڈالر بھی تھے جو بالکل (White Money) سفید دھن تھے اور اس میں کوئی ایسی بات نہیں تھی جس کا ہم حساب نہ دے سکیں اور یہ سب کچھ انہوں نے قبضہ میں لے لیا۔ حیسن کے پاس کچھ کاغذات تھے، وہ بھی اس سے چھین لئے گئے۔ جس پر حسین نے قدرے مزاحمت بھی کی اور کہا کہ آپ لوگ یہ سب کس قانون کے تحت کررہے ہیں؟ آپ کو یہ تمام کارروائی کرنے کا کوئی حق نہیں۔ آپ مجھے سرچ وارنٹ دکھائیں، لیکن انہوں نے حسین کی بات پر توجہ دئیے بغیر اس سے سب کچھ چھین لیا۔
میرا خیال ہے کہ وہ ان کاغذات یا نوٹیفکیشن کی تلاش میں تھے جس کے تحت آرمی چیف کو برطرف کیا گیا تھا لیکن ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود وہ نوٹیفکیشن انہیں نہ مل سکا حالانکہ وہ ان کے سامنے ہی پڑا تھا۔ خدا نے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی تھی اور یہ قدرت کا کرشمہ ہے کہ وہ ان کی آنکھوں سے اوجھل رہا۔ اس سلسلہ میں حسین سے بھی بہت پوچھ گچھ کی گئی۔ پھر وہ نوٹیفکیشن کسی نہ کسی طرح میرے پاس پہنچ گیا۔
جی ہاں! تو ذکر بیٹے حسین نواز سے ملاقات کا ہو رہا تھا۔ اس موقع پر ایک مدت کے بعد اپنے باپ (حسین) کو دیکھ کر ساڑھے تین سالہ زکریا کی جو حالت ہوئی، اسے دیکھ کر ہر آنکھ اشک بار ہوگئی۔ حتیٰ کہ وہ فوجی جو حسین کو لائے تھے، ان کی آنکھوں سے بھی آنسو چھلک پڑے۔ اس ایک گھنٹے کی ملاقات کے بعد یہ انتہائی رقت آمیز منظر تھا جس کی یاد آج بھی نگاہوں میں چبھن پیدا کردیتی ہے۔ معصوم زکریا باپ سے جدا نہیں ہونا چاہتا تھا۔ وہ بلک بلک کر فریاد کررہا تھا، میں ابو کے ساتھ جاؤں گا۔ فوجیوں نے اس چیختے چلاتے بچے کو کھینچ کر حسین سے جدا کیا۔ اس دلخراش منظر نے پورا ماحول سوگوار کردیا۔ یہاں موجود فوجی بھی اس کا اثر قبول کئے بغیر نہ رہ سکے۔
اس کے بعد دو ہفتوں کے دوران دو مرتبہ ہم اسی میس میں جاکر حسین سے ملے، اس وقت سردی کا موسم تھا، میں نے دیکھا کہ حسین نے شہباز بھائی کا کوٹ پہن رکھا ہے۔ میں نے حسین سے پوچھا کہ یہ شہباز بھائی کا کوٹ ہے؟ حسین نے بتایا کہ یہ اسے فوجیوں نے لاکردیا ہے اور اسے پہن کر مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے انکل میرے ساتھ ہیں۔ اس کوٹ سے آنے والی ان کے جسم کی خوشبو مجھے ان کی قربت کا احساس دلاتی رہتی ہے۔
نیرنگئی سیاست
خیالات کا ایک ہجوم ہے جو ماضی کے دریچوں سے نکل کر صفحہ قرطاس پر منتقل ہونے کے لئے برقرار ہے۔ جب میں اس امر کے متعلق سوچتی ہوں کہ ایک گھریلو عورت، جس کی زندگی بچوں کی پرورش اور امور خانہ داری میں صرف ہورہی تھی دفعتاً کیسے سیاست کی پرخاروادی میں داخل ہوئی اور کم و بیش ایک سال تک رائے عامہ کو اصلی صورتحال سے آگاہ کرنے اور متحرک کرنے کے لئے قریہ قریہ صدائے حق بلند کرتی پھری تو حیران رہ جاتی ہوں کیونکہ نواز شریف صاحب کے سیاست میں ہونے کے باوجود نہ تو میں نے کبھی عملی سیاست میں حصہ لیا بلکہ حصہ لینا تو درکنار میں میاں صاحب سے سیاسی معاملات پر کبھی گفتگو بھی نہیں کرتی تھی۔
12 اکتوبر کے شبخون کے بعد جیسا کہ میں آپ کو بتاچکی ہوں کہ ہم لوگ رائیونڈ زرعی فارم پر نظر بند رہے۔ اخبارات کی عدم دستیابی کے سبب ہم نہ صرف پرویز مشرف کے اقدامات سے بے خبر تھے بلکہ اپنوں کی بے وفائی کی اطلاعات بھی ہم تک نہیں پہنچ رہی تھیں۔ جب نظر بندی کا خاتمہ ہوا تو بہت جلد میرے علم میں آیا کہ وہ لوگ جو میاں صاحب کی تعریف میں رطب اللسان رہتے تھے اور زمین و آسمان کے قلابے ملاتے تھے، طوطا چشم ہوچکے ہیں۔ ابھی جمہوریت پر تلوار چلے ایک دن بھی نہیں گزرا تھا کہ کچھ اپنوں کے ایسے بیانات آنے شروع ہوگئے کہ جیسے وہ مدتوں سے ان حالات کے متمنی ہوں۔ انشاء اللہ کبھی اس موضوع پر تفصیلاً یادداشتیں مرتب کروں گی کہ 12 اکتوبر کے بعد کن افراد نے کیسی قلابازیاں کھائیں مگر ابھی صرف مختصراً چند واقعات کا تذکرہ کرنا چاہوں گی تاکہ قارئین کرام میری تقاریر کا مطالعہ کرتے ہوئے اس وقت کی سیاسی و ملکی حالات سے واقف ہوں اور میری گفتگو کو حالات کے تناظر میں پرکھ سکیں اور اپنی دیانتدارانہ رائے قائم کرسکیں۔
میں اس امر پر سخت متعجب تھی کہ 12 اکتوبر کے بالکل اگلے روز ہی اعجاز الحق نے بیان دیا تھا جس سے ان کی فوجی اقدام پر خوشی چھپائے نہ چھپتی تھی اور یہ صرف ان ہی تک محدود نہ تھا بلکہ کچھ دیگر افراد بھی پرویز مشرف کے سامنے نمبر بنانے کی دوڑ میں صاف نظر آرہے تھے اور ان لوگوں کی سرگرمیاں تو میاں اظہر کے گھر 9 نومبر کو ہونے والے اجلاس میں ہی طشت ازبان ہوگئی تھیں جس میں انہوں نے آمریت سے مفاہمت کی خواہش کا اظہار کرنا شروع کردیا تھا۔
نومبر کے وسط میں جب ظفر علی شاہ نے فوجی اقدام کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا تو اس عمل کی تعریف کرنے کی بجائے اعجاز الحق نے اس کو ان کا ذاتی اقدام قرار دیا بلکہ یہاں تک ہی قصہ محدود نہ رہا اسی دن اعجاز الحق نے اراکین اسمبلی کے اعزاز میں عشائیہ دیا اور برملا آمریت سے اپنے رابطوں کی تصدیق کرتے ہوئے اپنے آپ کو میاں صاحب کے متبادل کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی کیونکہ ان کو یہ یقین دہانی کروائی جارہی تھی کہ اگر وہ پارٹی میں پھوٹ ڈالنے میں کامیاب ہوگئے تو اقتدار کا ہما ان کے سر پر بیٹھ سکتا ہے۔ اس سلسلے کی کڑی 16 نومبر کو ہونے والے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں بھی سامنے آئی جس میں پارٹی قیادت کے حوالے سے اعتراضات اتھائے گئے۔ مگر خوش آئندہ بات یہ تھی کہ پارلیمانی پارٹی نے فوجی اقدام کی مذمت کرکے اپنا بھرم کم از کم اس وقت محفوظ کرلیا تھا۔(جاری ہے )