جبر اور جمہوریت۔۔۔کلثوم نواز شریف کی سیاسی جدوجہد کی چشم کشا کہانی،خود انکی اپنی زبانی ... ساتویں قسط
نظر بندی کے اختتام پر میں، میری دونوں بیٹیاں او رمیری ساس کراچی پہنچے اور اگلے روز 22 نومبر کو ہماری نواز شریف صاحب سے ملاقات کروائی گئی۔ میری نظر میاں صاحب پر پڑی تو میں نے دیکھا کہ حالات کی سختیاں ان کے اعضاء و جوارح سے صاف نظر آرہی تھیں مگر ان بدترین حالات کے باوجود ان کے مزاج کی لطافت اور بلند ہمتی اپنی جگہ پر قائم تھی۔ انہوں نے ہم سے بالکل عمومی حالات کی طرح خیریت دریافت کی۔ بچیوں کے برستے آنسوؤں کو دیکھ کر حوصلے سے کام لینے کی تلقین کرتے رہے۔ ان کا چہرہ اس امر کی گواہی دے رہا تھا کہ وہ آئین کی بالا دستی کے لئے ان بدترین حالات کے لئے پہلے سے ہی تیار تھے۔ ہم سب کا اس وقت تو فرط جذبات سے برا حال ہوگیا جب میرے نواسے، جو میاں صاحب کی گود میں تھا، نے ملاقات کے آخر میں اترنے سے انکار کرکے رو رو کر اپنا برا حال کرلیا مگر میاں صاحب ہم سب کو تسلی دیتے رہے کہ حق کے راستے میں کربلا، کوفہ اور شام آتے ہیں مگر قافلہ حق رکتا نہیں بلکہ منزل کی جانب رواں دواں رہتا ہے اور ہمیں بھی ان جنت کی مالک پاک ہستیوں کے نقش قدم پر چلنا ہے کہ جن کی گردراہ ہونا بھی جنت کی دھول سے کم نہیں۔
جبر اور جمہوریت۔۔۔کلثوم نواز شریف کی سیاسی جدوجہد کی چشم کشا کہانی،خود انکی اپنی زبانی ... چھٹی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
کراچی سے واپسی پر چوہدری شجاعت حسین بھی ہمارے ساتھ جہاز میں تھے۔ ان سے اس سے پہلے کراچی میں ملاقات ہوچکی تھی۔ انہوں نے کراچی میں بھی اور دوران سفر بھی پارٹی قیادت کے حوالے سے میرے خیالات سے آگاہی حاصل کرنے کے لئے متواتر اس موضوع کو زیر بحث رکھا۔ میں نے ان کو صاف بتادیا کہ میں پارٹی کی قیادت تو کجا مستقلاً سیاست میں رہنے کی بھی خواہش مند نہیں ہوں بلکہ میری تمام سرگرمیاں صرف اس وقت تک رہیں جب تک شریف خاندان کے مرد پابند سلاسل ہیں۔ جونہی حالات نے پلٹا کھایا میں واپس گھر ہستی سنبھال لوں گی۔ چودھری شجاعت نے میری فیصلہ کن انداز کی گفتگو کو بڑے غور سے سنا اور غالباً دل میں اس سے نتائج اخذ کرتے رہے۔ انہوں نے میرے ان تمام خیالات کو لاہور پہنچتے ہی صحافیوں کے گوش گزار بھی کردیا۔ اس واقعہ کے ذکر کا سبب صرف یہ ہے کہ چودھری برادران شروع ہی سے جانتے تھے کہ ہمارے خاندان یا پارٹی کی سطح پر کوئی ایسی سرگرمی نہیں کی جارہی کہ جس کا مقصد مجھے پارٹی کی سربراہی دینا ہو۔
چودھری شجاعت سے ملاقات کے بعد میری نواز شریف صاحب سے جب دوبارہ ملاقات ہوئی تو اس وقت تک امین اللہ چودھری وعدہ معاف گواہ بن چکے تھے۔ اس لئے یہ صاف نظر آرہا تھا کہ آمریت جمہوریت کو سزا دینے پر ادھار کھائے بیٹھی ہے۔ میاں صاحب نے مجھے کہا ’’پارٹی کو آپ میری طرف سے یہ پیغام دیں کہ ہمیں متحدہ رہنا ہے اور مجھ پر حالات جتنے مرضی پرآشوب ہوجائیں مگر ہمیں آئین کی بالادستی اور حرمت پر کوئی سودے بازی نہیں کرنی‘‘
جب میں نے ان کو پارٹی کے مختلف عہدیداروں کی منفی سرگرمیوں سے آگاہ کیا تو وہ بولے ’’ میں جانتا ہوں کون کون اقتدار کی بھوک میں مبتلا ہے؟ مگر ہمارا فرض ہے کہ امکانی حد تک ان کی سرگرمیوں سے چشم پوشی کریں توکہ مسلم لیگ کا اتحاد پارہ پارہ کرنے کی خواہش رکھنے والے عناصر اپنے مذموم ارادوں کو روبہ عمل نہ لاسکیں اور اگر پھر بھی وہ ایسا کرہی گزریں تو ان کا جمہوریت دوست ہونے کا نقاب برسرعوام خود اترجائے گا‘‘
میاں صاحب کی یہ تمام گفتگو میں پارٹی کے سرکردہ عہدیداروں تک فوراً پہنچادی۔ اس کے بعد میاں صاحب کی ہدایت پر میں پارٹی کے مختلف عہدیداروں سے ملاقات کرنے لگی تاکہ بالمشافہ مسلم لیگ کے سربراہ کا پیغام ان تمام اصحاب تک پہنچادوں۔ (جاری ہے )