جبر اور جمہوریت۔۔۔کلثوم نواز شریف کی سیاسی جدوجہد کی چشم کشا کہانی،خود انکی اپنی زبانی ... آٹھویں قسط
پانچ دسمبر کو چودھری شجاعت سے میری اور مریم کی ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں ہم دونوں نے میاں صاحب کا پیغام دینے کے علاوہ عمومی سیاسی صورتحال پر بھی گفتگو کی۔ چودھری شجاعت نے مجھ سے کہا ’’ آپ ہمیں کسی موقع پر اور کسی قسم کے حالات میں پیچھے نہیں پائیں گی‘‘
میری زندگی کا وہ لمحہ حد درجہ یادگار تھا جب میں 7 دسمبر کو پشاور گئی اور ظفر جھگڑا صاحب کی رہائش گاہ پر متعدد وفود سے میری ملاقات ہوئی۔ کارکنوں اور رہنماؤں کے یہ وفود صرف اور صرف مجھے یہ کہہ رہے تھے کہ آپ نواز شریف صاحبہ کو یہ پیغام پہنچادیں کہ ہم ہر مشکل گھڑی میں ان کے ساتھ ہیں اور ان شاء اللہ ہمارے پائے استقلال میں لغزش نہیں آئے گی۔ صابر شاہ اور سرانجام خان کی طرف بھی جانا ہوا۔ ان دونوں کے ثابت قدم رہنے کے عزم نے مجھے بڑا حوصلہ دیا۔
جبر اور جمہوریت۔۔۔کلثوم نواز شریف کی سیاسی جدوجہد کی چشم کشا کہانی،خود انکی اپنی زبانی ... ساتویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
جب مسلم لیگ سرحد کے اجلاس میں صابر شاہ نے میرے سر پر دوپٹہ رکھنے کی پختون رسم ادا کی تو اس وقت انہوں نے کہا کہ ہم نے سر پر دوپٹہ رکھ کر مرنے کی قسم کھائی ہے۔ ان تمام افراد کا جذبہ اور عمل میری توقعات سے کہیں بڑھ کر تھا۔
ابھی میں لاہور پہنچی ہی تھی کہ مجھے علم ہوا کہ میری والدہ سخت علیل ہیں۔ یہ سن کر میرے ہاتھ پاؤں سے جیسے جان ہی نکل گئی ہو ،اندیشوں اور وسوسوں نے ذہن پر قبضہ کرلیا۔ میں اپنی والدہ سے ملی تو ان کا چہرہ آنے والے جانگسل لمحات کی آمد کی پیش گوئی کرتا ہوا صاف محسوس ہورہا تھا۔ اسی رات ان کو دل کا دورہ پڑا اور ہم ان کو پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی لے گئے۔ ابھی تو مجھ سے میرے والد کا سایہ شفقت جدا ہوا تھا کہ 15 دسمبر کو ماں کی مامتا سے بھی سدا کی جدائی ہوگئی اور میں اپنے آپ کو ان لمحوں میں اس بچے کی طرح محسوس کرنے لگی جو کارواں سے کسی جنگل، بیاباں میں بچھڑ جائے، ہم نے مشرف کے نمائندہ سے رابطہ کرکے کہا کہ میاں صاحب اور شہباز بھائی کو کم از کم جنازے میں ہی شرکت کرنے کی اجازت دے دو مگر ادھر سے سوائے سنگدالہ طرز عمل کے اور کچھ نہ تھا۔ چنانچہ ان دونوں حضرات کو جنازے میں شرکت سے محروم رکھا گیا مگر اپنی خجالت پر پردہ ڈالنے کی غرض سے جنازے کے بعد تھوڑی دیر کے لئے شدید پابندیوں کے ساتھ دونوں بھائیوں کو یہ لوگ لے کر آگئے۔
پارٹی کو متحرک کرنے کی میری سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ جن کی ہدایت میاں صاحب نے کی تھی اور جس کی تائید راجہ ظفر الحق صاحب کررہے تھے، پارٹی میں پھوٹ ڈالنے والے عناصر بھی مشرف کے قرب کا شرف حاصل کرنے کے لئے تگ و دو میں لگے ہوئے تھے۔ خورشید قصوری کے گھر 20 دسمبر کو ان لوگوں کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں یہ درفطنی چھوڑی گئی کہ نواز شریف کو لچک دکھانے کا کہیں گے اور اسی اجلاس میں ایسا انداز اپنایا گیا کہ جس سے یہ تاثر قائم ہو کہ فوج کا 12 اکتوبر کا اقدام درست تھا۔
وقت اسی طرح گزرتا چلا گیا اسی دوران میں پاسپورٹ کی ضبطی کے سبب دیگر اہلخانہ کے ہمراہ عمرے کی سعادت حاصل کرنے سے محروم رہی۔ میری حد درجہ کوشش کے باوجود مجھے پاسپورٹ نہ مل سکا، عید آئی، جس میں نواز شریف اور میرے بیٹے حسین کو نماز عید بھی ادا نہ کرنے دی گئی۔
25 جنوری کے ایام بھی میں کبھی نہ بھلاسکوں گی کیونکہ25 تاریخ کو ایک اجلاس ماڈل ٹاؤن میں ہوا۔ جس میں صابر شاہ اور تہمینہ دولتانہ نے مجھے مجلس عاملہ کا رکن بنانے کی باضابطہ تجویز پیش کی۔ اس تجویز کا سبب یہ تھا کہ میں وہ واحد فرد تھی جس کی میاں صاحب سے ملاقات ہوئی تھی۔ یہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ میری مجلس عاملہ کے رکن کی حیثیت سے تقرری کرنے سے میاں صاحب اور پارٹی کے درمیان مشاورت کے لئے بہت سہولت پیدا ہوجائے گی۔ مجلس عاملہ کے رکن کی حیثیت سے میں اس مینڈیٹ کو بھرپور استعمال کرسکوں گی جو مجھے میاں نواز شریف صاحب اور رابطہ کمیٹی کے سربراہ راجہ ظفر الحق صاحب کی طرف سے حاصل تھا۔ ابھی یہ تجویز زیر غور ہی تھی کہ کچھ ارکان کو اپنا کھیل بگڑتا ہوا محسوس ہونے لگا۔
چودھری شجاعت اور خورشید قصوری وغیرہ نے یکدم انتہائی مخالفانہ رویہ اختیار کرلیا۔ گویا کہ انہوں نے کوئی ایسی تجویز پیش کردی تھی جو پارٹی آئین سے مطابقت نہ رکھتی ہو۔ انہوں نے کچھ ردوکد کے ساتھ یہ کہا کہ اگر بیگم صاحبہ (میں) چاہیں تو خصوصی مندوب کے طور پر آسکتی ہیں مگر کچھ کہنے کا انداز ایسا تھا کہ مجھے اپنا استقبال خوشدلی کے ساتھ ہونے کی کوئی توقع نہ تھی۔ اگلے دن جب مجلس عاملہ کا اجلاس منعقد ہوا تو بعض افراد نے میرے کل کے اجلاس پر سخت تنقید کی حالانکہ وہ اجلاس کسی ضابطے کی خلاف ورزی نہ تھا اور اس میں مَیں نے ان گنت بار کی طرح ان شوشوں کی بھی تردید کی کہ مجھے پارٹی کا صدر بنایا جارہا ہے۔
جنوری کے آخر میں ہی پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ دن گزرا جب پرویز مشرف نے پارلیمنٹ کے بعد عدلیہ کی پیٹھ میں بھی چھرا گھونپ دیا۔ عدلیہ کے تمام ججوں کو پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کا حکم دیا گیا۔ انکار کرنے کی پاداش میں چیف جسٹس آف پاکستان، عدالت عظمیٰ کے 9 اور عدالت عالیہ کے 7 ججوں کو برطرف کردیا گیا۔ چیف جسٹس کو پہلے لالچ دیا گیا مگر جب وہ کسی لالچ میں نہ آئے تو ان کے ساتھ یہ سلوک روا رکھا گیا کہ ان کو ان کی رہائش گاہ سے باہر جانے سے منع کردیا گیا۔ مبادا وہ کوئی ایسا اقدام کرنے کے قابل ہوجائیں جس سے پرویز کی آمریت کو کوئی خطرہ لاحق ہوجائے۔ جب اس سارے تکلیف دہ واقعہ کی خبر نواز شریف صاحب کو ہوئی تو انہوں نے مجھے انتہائی دل گرفتہ انداز میں کہا کہ اگر ان لوگوں کو نہ روکا گیا تو ایک ایک کرکے یہ ملک کی تمام جڑوں کو کھوکھلا کردیں گے اور خدانخواستہ ایک اور 16 دسمبر 1971ء ہمارامقدر بن جائے گا۔
(جاری ہے ۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)