پروفیسر خورشید احمد، عالم اسلام کی عظیم شخصیت

آہ، پروفیسر خوشید احمد بھی ہم سے جدا ہوگئے۔ انا للہ و انا الہ راجعون۔ وہ 23 مارچ 1932ء کو دہلی میں پیدا ہوئے تھے، وہ کئی کتابوں کے مصنف تھے جن میں اسلامی نظریہ حیات، تذکرہ زندان، پاکستان بنگلادیش اور جنوبی ایشیا کی سیاست سمیت درجنوں اردو اور انگریزی کتابیں شامل ہیں۔ انہوں نے قانون اور اس کے مبادیات میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔
انہوں نے بی اے میں اپنی گریجویشن اکنامکس (1952) میں فرسٹ کلاس آنرز میں حاصل کی۔ انہوں نے ابوالاعلیٰ مولانا مودودیؒ کے فلسفیانہ کام کو پڑھنا شروع کیا اور ان کی جماعت، جماعت اسلامی کے کارکن رہے۔ 1952ء میں، انہوں نے بار کا امتحان دیا اور اسلامی قانون اور فقہ پر زور دیتے ہوئے جی سی یو کے لاء پروگرام میں داخلہ لیا۔ اپنی یونیورسٹی میں، وہ اسلامی علوم میں ٹیوشن کی پیشکش کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے طالب علم کارکن رہے۔ لاہور میں پرتشدد فسادات کے نتیجے میں، پروفیسر صاحب نے جی سی یو چھوڑ دیا تاکہ پنجاب پولیس ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے جے آئی کے کارکنوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاری اور حراست سے بچ سکیں، اور مستقل طور پر کراچی چلے گئے۔ جہاں انہوں نے کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور اپنے مقالے کا دفاع کرنے کے بعد معاشیات میں آنرز کے ساتھ ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔
1962ء میں، خورشید احمد نے کراچی یونیورسٹی سے اسلامیات میں آنرز کے ساتھ ایم اے کے ساتھ گریجویشن کیا اور 1965ء میں برطانیہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے اسکالرشپ حاصل کیا۔ پروفیسر خورشیداحمد نے لیسٹر یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور اپنی ڈاکٹریٹ کی تعلیم کے لیے فیکلٹی آف اکنامکس میں شمولیت اختیار کی۔ انھوں نے 1967-68 میں معاشیات میں پی ایچ ڈی کے لیے اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے کا کامیابی سے دفاع کیا۔ ان کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ اسلامی معاشی فقہ پر تھا۔ 1970ء میں، خواندگی کو فروغ دینے کے لیے ان کی خدمات کو لیسٹر یونیورسٹی نے تسلیم کیا، جس نے انھیں تعلیم میں اعزازی ڈاکٹریٹ سے نوازا۔ 1970ء میں، وہ انگلینڈ چلے گئے اور لیسٹر یونیورسٹی میں عصری فلسفہ پڑھانے کے لیے فلسفہ کے شعبہ میں شامل ہوئے۔
پروفیسر صاحب 1949ء میں اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن بنے۔ 1953ء میں انہیں جمعیت کا ناظم اعلیٰ منتخب کیا گیا۔ وہ 1956ء میں باضابطہ جماعت اسلامی میں شامل ہوئے۔ پروفیسر خورشید احمد 1985ء، 1997ء اور 2002 سے 2011 میں سینیٹ آف پاکستان کے رکن منتخب ہوئے اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور اقتصادی و منصوبہ بندی کے چیئرمین کے طور پر کام بھی کیا۔
1978ء میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی کے طور پر فرائض انجام دیے۔ وہ حکومت پاکستان کے پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین بھی رہے۔ وہ دنیا بھر میں ماہر ِ اقتصادیات اور ماہر ِ تعلیم کے طور پر جانے جاتے تھے۔ انہیں 23 مارچ 2011ء کو علمی خدمات پر پاکستان کا اعلیٰ سول ایوارڈ نشان امتیاز عطا کیا گیا جبکہ 1990ء میں انہیں اسلام کی خدمات کے اعتراف میں کنگ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔
پروفیسر خورشید احمد، ایک انوکھے پاکستانی جن کے تیار کردہ اسلامی معیشت کے منصوبوں سے کئی ممالک مستفید ہو رہے ہیں، مغرب میں جن کے قائم کردہ تعلیمی،اسلامی تحقیقات اور دعوت ابلاغ کے کئی مراکز چل رہے ہیں جن کو بین الاقوامی سطح پر عالمی خدمات کے اعتراف میں شاہ فیصل ایوارڈ، اور اسلامی ترقیاتی بنک کے اعلیٰ ترین ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان کی فکر رہنمائی اور منصوبہ بندی سے لاکھوں بے سہارا اور یتیم بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں جدید طرز کی جامعات کے قیام کے خاکے تیار کئے۔
پروفیسر خورشید احمد جماعت اسلامی کے بزرگ اعلیٰ اوصاف کے حامل سیاسی رہنما انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ڈائریکٹر شاہ فیصل ایوارڈ اور نشان امتیاز کے حامل عالمی معاشی دانشور کئی کتابوں کے مصنف اور متعدد عالمی اداروں کے ڈائریکٹر تھے۔ جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے کہا پروفیسر خورشید احمد کی ملی قومی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
انہوں نے اسلام کی تبلیغ و ترویج کے لیے برطانیہ میں اسلامک فاونڈیشن کی بنیاد رکھی۔ پروفیسر خورشید کو پہلا اسلامی ترقیاتی بینک ایوارڈ اور امریکن فنانس ہاؤس پرائز بھی ملا تھا۔ انہوں نے کراچی یونیورسٹی، یونیورسٹی آف لیسٹر برطانیہ اور شاہ عبدالعزیز یونیورسٹی جدہ میں بھی خدمات انجام دیں۔
راقم الحروف سے پروفیسر صاحب کی گاہے بگاہے بہت سی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔جب وہ وزیر تھے تو کئی بار لاہور اور اسلام آباد میں ان سے ملاقاتیں ہوئیں اور اس کے علاوہ کراچی، ملتان اور دیگر شہروں میں ان سے اہم معاملات پر بات کرنے کا شرف حاصل رہا۔
پروفیسر خورشید احمد منجملہ ان اصحاب میں شامل تھے جنہیں سید ابوالاعلیٰ مودودی کی قریبی رفاقت حاصل تھی، حقیقت یہ ہے کہ ان کے انتقال سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ تادیر پُر نہیں ہوسکے گا۔ انہوں نے پوری زندگی اقامت ِ دین کے لیے جدوجہد کی۔ ان کی زندگی اخلاص، للہیت اور جدوجہد سے عبارت تھی، تادمِ واپسیں وہ ماہنامہ ترجمان القرآن کے مدیر کے طور پر فرائض انجام دے رہے تھے۔ اللہ ربّ العزت ان کی مغفرت فرمائے۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نور ستہ اس گھر کی نگہبانی کرے