اسرائیلی بربریت، مہذب دنیا، اپنی غلطیوں کی تلافی کرے
انسانی زندگی کے ہر شعبہ میں ضروریات کے مطابق بہتر منصوبہ بندی اور عملدرآمدسے ہی مثبت اور مطلوبہ مقاصد حاصل ہو سکتے ہیں۔ قواعد و ضوابط نظر انداز کرنے یا اپنی من مرضی کی روش اختیار کرنے سے کارآمد مقاصدکا حصول بسا اوقات مشکل ہو جاتا ہے۔ اس لئے کرہ ارض پر جن ممالک اور معاشروں میں انسانی زندگی کے حالات تعمیر و ترقی پر مبنی نظر آتے ہیں وہاں متعلقہ اصول و ضوابط پر ضروری اور کافی حد تک توجہ دی جاتی ہے۔ جبکہ غریب اور پسماندگی کے مسائل میں الجھے رہنے والے ملکوں کے لوگوں کو بیرونی حکمران طاقتوں کے تسلط کے تحت آزادی، تعلیم، ذہنی شعور اور جدید سائنس و ٹیکنالوجی کے علوم و اطلاعات سے مستفید ہونے سے محروم رکھا گیا تاکہ ان کو محکوم رکھ کر اپنی برتری کے مقاصد کا حصول جاری رکھا جائے۔ ایشیاء، افریقہ اور دیگر خطہ ہائے ارض پر آج کل کے جدید دور میں بھی بعض علاقوں میں ایسی جاہلانہ اور غیر انسانی اقدار کے تسلسل کا رجحان دیکھنے اور پڑھنے میں آتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پون صدی کا عرصہ گزرنے کے باوجود اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ کے تحت اس کے اہم اور بنیادی مقاصد پر عمل درآمد سے تا حال اجتناب کر کے مقبوضہ جموں و کشمیر اور فلسطین کے لا تعداد لوگوں کو حقوق آزادی دینے اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حق رائے دہی کے ذریعے اہل کشمیر کو پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کا جائز حق کئی سال قبل تک مل جانا چاہئے تھا جبکہ بھارتی حکومت اپنی 9 لاکھ مسلح افواج کو مقبوضہ کشمیر میں تعینات کر کے ان پر شب و روز ظلم و جبر اور بربریت کے ارتکاب کی کارروائیوں سے عذاب و مصائب کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔ اہل کشمیر اور فلسطینی عوام کو غیر ملکی طاقتوں کی غلامی میں رکھنے سے یہ حقائق واضح ہو رہے ہیں کہ اقوام متحدہ کا ادارہ اپنے بنیادی مقاصد کی عملداری میں تا حال سراسر انحراف کی روش اپنا کر بڑی طاقتوں کے بعض مخصوص و مذموم عزائم کی ڈگر پر گامزن ہے۔
فلسطینی عوام پر اسرائیل حکومت کی جارحیت عرصہ ایک سال سے جاری ہے۔ اس معاملہ پر بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں 78 سال پہلے منظور کی گئی تھیں۔ لیکن ان پر عمل درآمد سے اجتناب کر کے بڑی طاقتوں کی جانب سے یہ عندیہ دیا گیا کہ فلسطین کے لوگوں کو آزادی کی عظیم نعمت سے محروم رکھنے کا تسلسل ابھی جاری رہے گا۔ جبکہ اقوام متحدہ کے 24 اکتوبر 1945ء کے قیام کا بڑا مقصد یہ تھا کہ انسانی آبادی کو آزادی اور برابری کے حقوق دے کر عالمی امن کے حصول کی تگ و دو کی جائے اور بین الاقوامی سطح پر غیر انسانی رویوں اور عمل داری میں انسانوں سے عزت و احترام کے برتاؤ کی اقدار کو پروان چڑھایا جائے۔ لیکن بدقسمتی سے اسرائیلی وزیر اعظم کی جانب سے فلسطینی عوام پر تواتر سے بمباری اور گولہ باری بلا کسی تعطل اور توقف کے جاری رکھی گئی ہے۔ حالانکہ تا حال کوئی چالیس ہزار سے زیادہ فلسطینی خواتین اور بچے شہید ہو گئے ہیں۔ تقریباً ایک لاکھ افراد شدید زخمی اور معذور ہو گئے ہیں۔ غزہ اور دیگر فلسطینی بستیوں میں بیشتر مکان، سکول، تجارتی مراکز، دفاتر، ہسپتال اور مساجد دن رات کی بمباری سے مسمار کر کے ملبے کے ڈھیروں میں تبدیل کر دی گئی ہیں۔ اسرائیلی فوجی روزانہ کئی نوجوان فلسطینی لوگوں کو گرفتار کر کے لے جاتے ہیں ان کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔ اب وہاں کوئی بھی رہائشی عمارت یا دیگر تعمیرات صحیح ایستادہ حالت میں دیکھنے میں نہیں آتیں۔ فلسطینی عوام کے رہائشی علاقوں میں ہر سو بمباری اور میزائیلوں کی تباہی و بربادی کے اثرات دور سے نظر آتے ہیں۔ ان حالات کے باوجود امریکہ کی معاونت سے اسرائیلی وزیر اعظم وہاں جنگ بندی پر آمادہ نہیں ہوئے کیونکہ وہ اپنی شرائط پر ہی جنگ بندی قبول کرنے پر اصرار کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
اسرائیلی حکومت کی بربریت آمیز مسلسل بمباری سے ہسپتالوں میں علاج اور مریضوں کو رکھنے کی کوئی جگہ اور سہولت موجود نہیں رہی ٹی وی چینلز پر روزانہ خواتین اپنے شہید بچوں کو لئے دفن کرنے کی جگہیں تلاش کرتی پھرتی ہیں۔ قبرستانوں میں کوئی جگہ نہیں بچی بلکہ لا تعداد نعشوں کو اکٹھے ایک ہی قبر میں دفن کیا جا رہا ہے۔ امریکہ مسلسل اسرائیل کی سرپرستی کر رہا ہے اور نیتن یاہو کسی جنگ بندی سے قبل اپنے اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کی شرط تسلیم کرنے پر ہی زور دیتا ہے۔ بصورت دیگر انہیں کوئی جنگ بندی قبول نہیں ہے۔ یہ بہت المناک صورت حال ہے۔ اس قتل عام پر یورپی ممالک امریکہ، ایشیاء، افریقہ اور دیگر ملکوں میں کئی بار احتجاجی مظاہرے کر کے اسرائیلی حکومت سے فوری جنگ بندی کی بار بار اپیلیں کی گئیں لیکن تادم تحریر وہاں کے وزیر اعظم نے سب احتجاجی اپیلوں کو یکسر مسترد کر کے یہ تاثر دیا ہے۔ امریکہ نے چند بار ویٹو کا اختیار استعمال کر کے جنگ بندی کی کئی قراردادوں کو ناکام کیا ہے۔ امریکہ کی پیش کی گئی ایک قرارداد کئی ہفتے قبل سلامتی کوسنل کے 14 رکن ممالک کی حمایت اور بغیر کسی مخالفت کے منظور کی گئی لیکن قابل ذکر امر یہ ہے کہ اس پر بھی اب تک عمل درآمد کے کوئی سنجیدہ آثار اور حالات نظر نہیں آتے۔