سکول سے واپسی پر نعمان اور عدنان نے آنکھوں آنکھوں میں طے کر لیا کہ وہ آج ہوم ورک اکٹھے کرنے کے بہانے گھر کےقریب پارک میں ملیں گے۔۔۔ آنکھوں کے اس اشارے میں نعمان ایک خاص ادا سے اپنا ہاتھ ہونٹوں کے قریب لے گیا اور دونوں زور دار قہقہ لگا تے ہوئے وین سے اتر کر اپنے اپنے گھر چلے گئے۔۔۔
آٹھویں کلاس کے یہ دونوں کلاس فیلو شام کو باغ کے مشرقی حصے میں قدرے ویران سی جگہ پر لکڑی کے بنچ پر بیٹھے تھے۔۔۔ نعان نے بیگ سے ایک بسکٹ کا پیکٹ نکالا لیکن جب وہ پیکٹ کھولا گیا تو اس میں بسکٹ نہیں بلکہ دو سگریٹ تھے۔۔۔ دونوں نے سگریٹ جلائی اور کش لگانے لگے۔۔۔ دونوں کو خوب کھانسی ہوئی لیکن پھر دونوں سنبھل گئے۔۔۔ یار تم لاتے کہاں سے ہو یہ ؟ ابو کے پیکٹ گھر پر پڑے ہیں، انہی میں سے نکال کر لاتا ہوں، عدنان کے سوال پر نعمان نے اطمینان سے جواب دیا ۔ چند دن یہ سلسلہ دو چار کش تک محدود رہا لیکن جب عادت پکی ہونے پر دونوں دوست اب زندگی بھر کے لئے ٹوبیکو انڈسٹری کے مستقل کسٹمر بن چکے تھے جب تک وہ اپنے رب کی مدد سے اس لعنت سے چھٹکارا حاصل نہ کر لیں۔۔۔
بظاہر یہ ان دو بچوں کی کہانی ہے لیکن ہمارے معاشرے میں تمباکو نوشی کرنے والے زیادہ تر افراد اس برائی کاآغاز ایسے ہی کرتے ہیں۔۔۔ کم عمری میں لوگ صرف شوق میں یا تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر اور بعض اوقات مختلف پریشانیوں سے بھاگ کر سکون کی تلاش میں سگریٹ کی طرف پہلا قدم بڑھاتے ہیں جو بہت جلد ضرورت کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔۔۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں پانچ سے 15سال کی عمر کے 1200 بچے ہر روزسگریٹ نوشی میں مبتلا ہو رہے ہیں۔۔۔ ہر روز 450 افراد تمباکو نوشی سے جڑی بیماریوں سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، دو کروڑ نوے لاکھ پاکستانی دن رات اس زہر کو اپنی رگوں میں اتارنے میں مصروف ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ سگریٹ نوشوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔۔۔۔پاکستان میں اس وقت ایک نان کی اوسط قیمت 15 سے 20 روپے تک پہنچ چکی ہے لیکن سگریٹ کے کئی برانڈز کا ایک سگریٹ 10 سے 15 روپے میں مل جاتا ہے۔۔۔ جس معاشرے میں عوام غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی بسر کر رہے ہوں، وہاں سالانہ 100 ارب سے زیادہ سگریٹ نوشی کی مد میں خرچ ہوجانا ناصرف باعث افسوس بلکہ قومی المیہ اور مقام فکر ہے۔۔۔
ایک تحقیق کے مطابق ہر روز 450 افراد صرف تمباکو نوشی کے باعث مختلف سنگین بیماریوں میں مبتلا ہوکر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔۔۔ اس کا اثر نہ صرف ان کےگھرانوں پر پڑتاہےبلکہ قومی بجٹ اور شعبہ صحت بھی متاثر ہوتے ہیں۔۔۔ تمباکونوشی سے متاثرہ افرادکے علاج پر حکومت کے 615 ارب روپے سالانہ خرچ ہوتے ہیں۔ سگریٹ کےدھویں میں موجود تقریبا 4000 زہریلے کیمیائی مادےنہ صرف سگریٹ نوش کے لئےسلوپوائزن کا کام کرتے ہیں بلکہ اس کےارد گرد رہنے والے اس کے پیاروں کی صحت کی تباہی کا باعث بھی بنتے ہیں۔۔۔ تمباکو نوشی نوجوانوں کے دماغ کی نشوونما پر دیرپا اثرات مرتب کرتی ہے۔۔۔ بچوں اور نوعمروں کے سانس لینے میں دشواری کا باعث بنتی ہے اور قوت برداشت کم ہو جاتی ہے۔۔۔ صحت کے یہ دونوں ہی مسائل کھیلوں میں لڑکے اور لڑکیوں کی کارکردگی اور دیگر جسمانی طور پر فعال سرگرمیوں کو متاثر کر سکتے ہیں۔۔۔پھیپھڑوں کی صحت کم ہوتی ہے۔۔۔ نوجوان یہ سمجھتے ہیں کہ ٹینشن اور ڈپریشن تمباکو نوشی سے ختم ہو جاتا ہے لیکن یہ حقیقت نہیں بلکہ کچھ دیر کے لئے توجہ بٹ جاتی ہے۔۔۔
امریکا میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق جن لوگوں کے والدین سیگریٹ پیتے ہیں، وہ اس لت میں جلدی پڑ جاتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ نئی نسل کو بچانے کے لئے والدین کو بھی فوری طور پر سیگریٹ نوشی ترک کرنا ہو گی۔ تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ ہر سال ایک لاکھ غیر سگریٹ نوش افراد کی اموات میں سات ایسے افراد کا اضافہ ہو سکتا ہے جو بچپن میں سگریٹ کے دھوئیں سے متاثر ہوئے ہوں لیکن خود انھوں نے کبھی سگریٹ کو ہاتھ نہیں لگایا۔۔ امریکا کی کینسر سوسائٹی کی اس تحقیق میں 70 ہزار نو سو سگریٹ نہ پینے والے مرد اور خواتین کو شامل کیا گیا تھا۔۔۔ سگریٹ نہ پینے والے افراد کے درمیان میں رہنے والوں کے مقابلے میں ایسے افراد ،جو سگریٹ کے دھوئیں سے ہر ہفتے دس یا اس سے زیادہ گھنٹے متاثر ہوئے ہوں، ان کے دل کے امراض میں مبتلا ہو کر مرنے کے امکانات 27 گنا فالج ہونے کے امکانات 23 گنا اور پھیپڑوں کی بیماریاں ہونے کے امکانات 42 گنا بڑھ جاتے ہیں۔۔۔
سگریٹ کے ساتھ ساتھ یہاں جدید برائیوں کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے۔۔۔ روایتی سیگریٹ کی جگہ اب ای سگریٹ نے لے لی ہے۔۔۔ای کامرس اور ای بزنس تو کمال کے آئیڈیاز ہیں لیکن ای سگریٹ برائی کی قدرے جدید قسم ہے۔۔۔ ای سگریٹ عام طور پر نکوٹین اور پروپائلین گلائیکول کے علاوہ سبزیوں کی گلیسرین پر مشتمل محلول کو گرم کرتے ہیں۔
وزارت صحت میں پاکستان ٹوبیکو کنٹرول سیل کے سابق انچارج ڈاکٹر ضیا اسلام کہتے ہیں ایک طاقت ور مافیا اپنے مقاصد کے لئے حکومتی اداروں کو استعمال کرتا ہے اور فوائد حاصل کرتا ہے۔ اس سلسلے میں عوام میں آگاہی مہم کو تیز کرکے حکومت کو بتانا ہو گا کہ تمباکو نوشی کے خلاف سخت قانون سازی کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ڈاکٹر ضیاء اسلام کے مطابق "تمباکو نوشی کی صنعت سے متعلق افراد حکومت پر وقتاً فوقتاً اپنا اثرو رسوخ استعمال کرتے ییں اور حکومتی اداروں کو گمراہ کرتے ہیں تاکہ موثر قانون سازی نہ ہو سکے"
آزادانہ طور پر کئے گئے ایک جائزے کے مطابق ای سگریٹ تمباکو نوشی کے مقابلے میں 95 فیصد کم نقصان دہ ہےلیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہ مکمل طور پر خطرے سے خالی ہیں۔ ای سگریٹ میں مائع اور بھاپ کے دھوئیں میں بھلے ہی بہت کم سطح پر ،مگر ممکنہ طور پر نقصان دہ کیمیکل شامل ہو سکتے ہیں۔لیبارٹری میں کئے جانے والے ایک ابتدائی مطالعے میں برطانوی سائنسدانوں کو پتہ چلا کہ بخارات پھیپڑوں کی مدافعتی خلیوں کو تبدیل کر سکتی ہے۔
یقیناً میرے قارئین حیران ہوں گے کہ جب صورتحال اس قدر خراب اور سنگین ہے تو کیا یہاں کوئی قانون موجود نہیں؟ آپ کی یہ سوچ منطقی طور پر درست ہے لیکن یہ بات آپ کو حیرت میں ڈال دے گی کہ زمینی حقائق اس سے مختلف ہیں۔۔۔ پاکستان میں 2002ء میں سگریٹ نوشی کی ممانعت کے لئے قانون منظور کیا گیا تھا مگر اس کے بارے میں عوام میں آگاہی نہ ہونے کے برابر رہی۔ پھر2017 ء میں بننے والے قانون کے مطابق عوامی مقامات ، پبلک ٹرانسپورٹ، تفریح مقامات اوردفاتر میں سگریٹ تمباکو نوشی نہیں کی جا سکتی۔۔۔قانون کے مطابق ابتدائی طور پر سگریٹ کی ڈبی کے 85 فیصد حصے پر تمباکو نوشی کے مضر اثرات کے بارے میں تصویری انتباہ چھاپنا لازمی قرار دیا گیا تھا، لیکن بعد میں اچانک فیصلہ ہوا کہ 85 فیصد کے بجائے تصویری انتباہ کو 10 فیصد تک محدود کردیا جائے۔
انسدادِ تمباکو نوشی قانون کے سیکشن چھ کے تحت پبلک ٹرانسپورٹ مثلاً بس، ٹرین اور ویگن میں سگریٹ نوشی غیر قانونی ہے۔ سیکشن سات کہتی ہے کہ سگریٹ کے حوالے سے کسی بھی قسم کی اشتہار مہم منع ہے۔سیکشن آٹھ کے مطابق 18 سال سے کم عمر بچوں کو سگریٹ یا تمباکو کی کوئی اور مصنوعات بیچنا منع ہے۔سیکشن آٹھ ہی کے تحت کھلی سگریٹ بیچنا منع ہے۔ ایک اہم سیکشن نو کے مطابق کسی بھی سکول، کالج اور تعلیمی ادارے کے 50 میٹر کے دائرے میں سگریٹ بیچنا یا فراہم کرنا ممنوع ہے۔ پوری دنیا میں 30 سال سے تمباکو اور سگریٹ کےا شتہارات پر پابندی ہےلیکن پاکستان میں حالت یہ ہے کہ شاپنگ مالز ، بڑی شاہراہوں اور چھوٹی بڑی دکانوں پر لگے بینرز ترغیب کے راستے ہیں۔
اگرچہ تمباکو نوشی کے منفی اثرات کے بارے میں میڈیا شعور اجاگر کرنے میں بہت اہم کردار ادا کر رہا ہے تاہم اس مہم کو کسی ایک دن تک محدود نہیں کیا جانا چاہیئے۔ صرف انسداد تمباکو نوشی کے دن، ورلڈہیلتھ ڈے پر یا بیماریوں سے آگاہی کا کوئی دن مناتےہوئے ہی تمباکو نوشی کے منفی اثرات پر بات نہیں کرنی چاہیئے بلکہ حکومت کے ساتھ مل کر سپیشل پروگرامز ترتیب دیئے جائیں اور یوتھ کو آگاہی دی جائے۔ تمباکو نوشی کے خلاف کام کرنے والی تنظیم کرومیٹک ٹرسٹ نے حال ہی میں ماہرین کی کانفرنس کا اہتمام کیا ہے جس میں تمام شرکاء نے اس بات پر اتفا ق کیا کہ پاکستان کے محفوظ مستقبل کے لئے نوجوانوں کو خاص طو رپر تمباکو نوشی جیسے لعنت سے بچانا ضروری ہے۔کرومیٹک کے سی ای او شارق خان کے مطابق ہر سال ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد افراد تمباکو نوشی یا اس سے جڑی بیماریوں کے باعث موت کے منہ میں جار ہے ہیں۔ اس وقت سگریٹ پرمزید ٹیکس نہ لگانا پاکستان کے نوجوانوں کے ساتھ بڑی زیادتی ہے۔
ا قوام متحدہ خود کہتی ہے کہ اگر سالانہ سیگریٹ کی قیمت 30 فیصد بڑھائی جائے یا اس پر ٹیکس لگا دیا جائے تو 10 فیصد استعمال خود بخود کم ہو جائے گا۔ قوانین پر موثر عملدرآمد کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے بڑے بڑے مافیا ز سے ٹکر لی ہے جو قابل قدر ہے لیکن اس مافیا کے خلاف بھی وہ باہر نکلیں، نوجوان نسل اُن کے ساتھ ہے۔ انہوں نے نوجوانوں سے کہا ہے کہ وہ اپنے مستقبل اور اپنے والدین کا خیال رکھیں ۔ شارق خان کے مطابق کھلی سگریٹ بیچنا بھی قانوناً جرم ہے کیونکہ کھلی سگریٹ زیادہ تر بچے خریدتے ہیں۔ ان کے پاس عموماً سگریٹ کا پورا پیکٹ خریدنے کے پیسے نہیں ہوتے اور یہ پیکٹ گھر والوں سے چھپانا بھی بڑا مسئلہ ہوتا ہے، اس لیے بچے کھلی سگریٹ خریدتے ہیں۔
سٹڈی بتاتی ہے کہ جو بچہ یا لڑکا ایک بار سموکر بنتا ہے، ایک طرح سے وہ زندگی بھر اس لت کا شکار ہو جاتا ہے۔۔۔ والدین نظر رکھیں کہ بچہ جس سکول یا کالج جاتا ہے اس کے اردگرد سگریٹ کی دکانیں تو موجود نہیں، اگر ہیں تو فوراًقریبی تھانے میں اطلاع دیں۔ عوامی مقامات پر لوگ سگریٹ پیتے نظر آئیں تو انہیں نرمی سے منع کریں۔اس سنگین مسئلے پر کام کرنے والے ماہر عرفان خان کہتے ہیں کہ بچوں اور بڑوں میں شعور اجاگر کرنے میں سوشل میڈیا بہت بنیادی اور اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ میڈیا پر عوام یقین کرتےہیں، اسی لئے اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ آگاہی پیدا کرنے میں مزید کام کرے۔
ایک سٹڈی کے مطابق غریب یا ترقی پذیر ممالک میں ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ سات سال سے 15 سال کی عمر تک سگریٹ پینے والے کو سگریٹ بہت سستے میسر ہیں ، اگر قوانین پر سختی سے عمل ہو اور سیگریٹ کی قیمت بڑھا دی جائے تو سیگریٹ خریدنے کے لئے بچوں کے پاس پیسے نہیں ہوں گے، اور پاکٹ منی کم ہونے کے باعث وہ اس لعنت سے بچ سکتا ہے۔
پاکستان میں سی ٹی ایف کے کی نمائندہ صوفیہ منصوری پُر امید ہیں ان کی کوششیں رنگ لائیں گی ۔ پاکستان میں اچھی پالیسیاں موجود ہیں لیکن ان پر موثر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ یہ ایک خطرناک صورتحال ہے، اس وبا پر قابو پانے کے لئے ریاست کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ نوجوان نسل کو اس لعنت سے بچانے کےلئے موثر اقدامات مزید بہتر اور تیز کرنے ہوں گے ۔
نوجوان نسل کو تمباکو نوشی جیسے زہرسے بچانے کی کوشش میں مصروف اور کرومیٹک ٹرسٹ سے منسلک طیب نے کہا کہ کوئی ایک شخص اس میں زیادہ کامیاب نہیں ہو سکتا بلکہ ٹی وی چینلز ، اخبارات اورسوشل میڈیا اس میں بہت اہم کردار ادا کر سکتا ہے ۔ تعلیمی اداروں میں بھی آگاہی مہمات شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ میڈیا صرف ظاہری صحت کا ہی نہیں بلکہ دماغی صحت کا بھی بار بار بتائے۔ بچوں میں تمباکو نوشی کے سماجی زندگی پر منفی اثرات اجاگر کئے جائیں اور صحت مند زندگی کے بارے میں مہم چلائی جائے۔ اسی طرح والدین کا کردار بھی بہت مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔
اگر ہم بات کریں ددیگر ممالک کی تو تازہ ترین رپورٹ یہ ہے کہ نیوزی لینڈ نے اپنی اگلی نسل کو تمباکو نوشی سے بچانے کےلئے اس کی فروخت پر پابندی عائدکرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ تمباکو نوشی کو ختم کیا جا سکے۔ حکومتی فیصلے کے مطابق 2008ء کے بعد پیدا ہونے والا کوئی بھی شخص اپنی زندگی میں سگریٹ یا تمباکو کی مصنوعات نہیں خرید سکے گا۔ یہ قانون 2022ءمیں نافذ ہونے کی توقع ہے۔ حکومت نے سگریٹ نوشی کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ بھی کیا ہے۔۔۔ پورے ملک میں حکومت کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا جا رہا ہے جس سے تمباکو تک رسائی کم ہو جائے گی اور سگریٹ میں نیکوٹین کی سطح محدود ہو جائے گی۔ اوٹاگو یونیورسٹی کے پروفیسر جینیٹ ہک کا خیال ہے، "اس سے لوگوں کو کم نقصان دہ مصنوعات چھوڑنے یا تبدیل کرنے میں مدد ملے گی اور نوجوانوں کے نکوٹین کے عادی ہونے کا امکان بہت کم ہو جائے گا"۔ ۔۔
اس وقت ایک اور اہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ سگرنیٹ بذات خود بھی ماحولا تی آلودگی کا باعث بن رہے ہں ۔ ایک انداز ے کے مطابق صرف پاکستان میں دو کروڑ افراد تمباکو نوشی کرتے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ وہ 90 ارب ماچس کی تیلیاں استعمال کرتے ہیں۔ سگریٹ پینے کے بعد پھینک دیئے جانے والے سگریٹ کے بٹ ،عام کچرا نہیں بلکہ یہ زیریلے فضلے میں شمار کئے جاتے ہیں جو زمین اور آبی وسائل کی آلودگی کا سبب بنتے ہیں ۔ بہت سے پرندے اور جاندار انہںہ کھا کر موت کے منہ میں بھی پہنچ جاتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق تمباکو کی صنعت 20 لاکھ ٹن ٹھوس فضلہ پدہا کرتی ہے جس میں سے تین لاکھ ٹن کچرا ایسا ہے جس کو دوبارہ استعمال نہیں کیا جا سکتا، یہ صنعت دو لاکھ ٹن فضلہ پد ا کرتی ہے۔ علمائے کرام بھی اس بات پر متفق ہںٹ کہ دین اسلام میں سگریٹ سمت کسی بھی نشے کی اجازت نہں ہے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے مذہبی امور علامہ طاہر اشرفی کےمطابق اسلام نے بالکل واضح حکم دیا ہے کہ کوئی شخص اپنے ہاتھوں سے اپنی جان کو ہلاکت میں نہ ڈالے۔ سگریٹ نوشی سمیت کوئی بھی نشہ شرعاً کسی عمر میں جائز نہیں ہے۔ میں نے اس تحریر کے آغاز میں جن دو دوستوں کا کا ذکر کیا تھا، انہیں نشے کی لت کہاں سے لگی؟ دراصل یہ دونوں دوست مین سٹریم میڈ یا اور سوشل میڈ یا پر ڈراموں وغیرہ میں دکھائے گئے ہرکش کی طرح دھویں سے گول گول چھلے بناکر کول نظر آنا چاہتےہیں۔
ٹی وی ڈراموں میں یہ کام اس قدر مہارت سے ہو رہا ہے اور اس غیر محسوس طریقے سے سگریٹ کی تشہیر ہوتی ہے کہ اس کو سمجھنے کےلئے بھی ایک ماہر ذہن کی ضرورت ہے۔ بعض اوقات ایسے بے ساختہ ڈائیلاگ ہوتے ہیں جن سے نوجوانوں کو تمباکو نوشی کا پیغام تو چلا جاتا ہے لیکن اشتہار کی یہ صورت پیمرا اور دیگر اداروں کے گرفت میں نہیں آتی جسے "سنو، تمہیں تو پتا ہے ناں، اب تو میں دھوئیں میں ڈوبا رہتا ہوں"
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔