روشنی کا مینار…… مرزا ادیب            (2)

   روشنی کا مینار…… مرزا ادیب            (2)
    روشنی کا مینار…… مرزا ادیب            (2)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مرزا ادیب کی کہانیوں میں حقیقت نگاری، سماجی مسائل کے اثرات نمایاں ہیں، احاطہ بھرپور طریقے سے کیا وہ زندگی کو ہر رنگ کے ساتھ دیکھنا چاہتے تھے مگر اس کو اخلاقی نظام کے تابع بھی رکھنا چاہتے تھے۔ اُن کی کہانیوں میں معاشرتی مسائل کے ساتھ ساتھ اخلاق اور رویوں پر بھی زور دیا جاتا ہے۔ اُنہوں نے گھریلو پیچیدگیوں کو فنکارانہ معصومیت کے ساتھ دیکھا اور پیش کیا۔ 

مرزا ادیب کے ادبی فن میں ارتقاء کا پہلو اُن کی وسعتِ نظر کی دلیل ہے۔ اُنہوں نے اپنے فنی سفر کو نئے منظر سے ہم آہنگ رکھا ہے اُن کی یہی وسعتِ نظر اور زندگی کی حقیقتوں سے قربت اُن کی تمام تحریروں کی بنیادی خوبی اور فنی عظمت کی دلیل ہے۔ 

”لمحوں کی راکھ“ مرزا ادیب کا ناول فنی تازگی کا 

صحرا نورد کے خطوط سے لمحوں کی راکھ تک مرزا ادیب کا فنی سفر مسلسل ارتقاء کے عمل سے گزرتا رہا اُن کے یہ کارہائے نمایاں اُن کی انتھک لگن کا ثمر تھے۔ 

اُنہیں ناول کی بُنت کاری میں بہت کمال حاصل تھا وہ کہانی کو اتنے سلیقے اور عمدگی سے ترتیب دیتے کہ کہیں جھول کا احساس نہ ہوتا۔ 

مرزا ادیب کے یہاں ایک اسرار شروع سے موجود رہا جو روحانیت سے اُن کے لگاؤ کا نتیجہ تھا وہ کہانی کو دوہری معنویت سے آشنا کرتے لمحوں کی راکھ میں سائیں جی کے کردار کا ایک مکالمہ ملاحظہ ہو۔ 

دنیا میں ہر جگہ وہ کوہِ ندا ہے، کوئی بھی یہ نہیں جان سکتا وہ کہاں ہے،سب کو پکارتی رہتی ہے دن کے اُجالے میں، رات کے اندھیرے میں کوئی نہیں سنتا یہ آواز مگر جسے پکارا جاتا ہے وہ رک نہیں سکتا چلا جاتا ہے۔“

حرا نورد کے خطوط سے لے کر ساتواں چراغ تک ان کی مختلف طویل اور مختصر کہانیوں میں کہیں کرداروں کے ذریعے اور کہیں ماحول کے ذریعے اس روحانی کیف کا سراغ ملتا ہے۔ 

مرزا ادیب نے نہ صرف خود کہانیاں لکھ کر اردو کہانی کو فنی اور معنوی تقویت دی ہے اور ادب لطیف کے زمانہئ ادارت میں نئے لکھنے والوں کو ادبی دنیا سے متعارف کروایا اُن کا یہ رویہ نئی نسل کے ساتھ اُن کی ہم آہنگی اور نئے خیالات کو قبول کرنے کی دلیل تھا وہ کہیں نہیں رکے اُنہوں نے ہمیشہ اُردو کہانی کے ارتقاء کا ساتھ دیا۔ طویل تر سفر کے بعد بھی وہ تازہ دم اور ولولہ انگیز اور سرگرمِ سفر رہے۔ 

بلاشبہ مرزا ادیب ایک ادیب ہی نہیں ایک ادارہ تھے، ایک انجمن تھے، نوجوان ادیبوں میں وہ شمع کی طرح دکھائی دیتے۔ وہ نوجوان ادیبوں کے حوصلے بڑھاتے اُن کے نقائص اور کمزوریوں سے اُن کو آگاہ کرتے وہ ہمیشہ نصیحت کرتے کہ سچی محبت و خلوص سے ہی آپ فن کی خدمت کرسکتے ہو۔ 1935ء میں انہوں نے ادب لطیف سے عملی زندگی کی ابتدا کی کئی برس ریڈیو سے بھی منسلک رہے۔ مرزا ادیب نے صحرا صحرا چھان مارا نگری نگری خاک اُڑائی۔ اُنہوں نے بہادروں، آزادی کے متوالوں، حریت پسند اور انقلابیوں کے افسانے لکھے، اُن کا قلم کورے کاغذوں، مرزا ادیب اَدب کے کوہِ گراں ہیں۔ ادب کے حوالے سے اُن کا قد اتنا بلند ہے کہ اس کو ناپنا مشکل ہے۔ اُن کی بے مثال تصنیف ”صحرا نورد کے خطوط“ پچاس برس میں کئی بار چھپ چکی ہے۔ وہ آج بھی اسی طرح جادوبھری، خوشبو سے لدی، خوابوں سے بھری معلوم ہوتی ہے۔ 

78کتابوں کے مصنف مرزا ادیب کی ایک کتاب مرزا ادیب کے جائزے اکاون مضامین پر مشتمل ہے۔ جن میں اقبالیات، اُردو زبان، ڈرامہ، افسانہ، شاعر اور دیگر اصنافِ ادب پر تنقیدی جائزے اور شخصی خاکے شامل ہیں۔ اُن کے ہر جائزے میں قاری کو محسوس ہوتا ہے کہ اُس کی کسی سے ملاقات ہوگئی، کوئی ہیولہ، کوئی خاک، کوئی رمز، کوئی اشارہ، کوئی خیال یا کوئی بھی کمال ہوسکتا ہے۔ 

مرزا ادیب نے اندرونِ لاہور کے جس مکان میں جنم لیا وہاں مسائل کی ایک طویل رُت نے ڈیرہ جما رکھا تھا یہی وجہ تھی کہ مرزا ادیب روشنی سے محبت کرتے تھے۔ تاریک گھر میں جلنے والے چھوٹے سے مٹی کے دئیے سے لے کر علم و عرفان کی روشنی تک مرزا ادیب نے ہر روشنی سے محبت کی۔ یہ اسی محبت کا فیض تھا مفلسی کے اندھیروں میں جنم لینے والے بچے دلاور علی کی راہِ حیات پر آج بے شمار کامیابیوں کے چراغ روشن ہیں۔ جنہوں نے دلاور علی کو مرزا ادیب بنا دیا اور دنیائے ادب میں ایک مینارہئ نور کی سی حیثیت عطا کردی ہے۔ 

مرزا ادیب پاکستان کے علاوہ چین، روس، بنگلہ دیش اور بھارت وغیرہ میں بھی مقبول ہیں۔ ان تمام ممالک میں مرزا ادیب کی کتابوں کے ترجمے چھپ چکے ہیں۔ بھارت میں اُن پر پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لیے شخصیت اور فن پر مقالات لکھے جاچکے ہیں۔ 

ایمانداری اور ذمہ داری سے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ 31جولائی 1999ء کو اپنے خالق حقیقی سے جاملے اور اپنی تحریروں کے حوالے سے آئندہ نسلوں کو مختلف ایسے راستوں پر ڈال گئے جن پر چل کر منزل کا ملنا یقینی ہے۔ 

اُن کی معروفِ زمانہ کتب کی ترتیب کچھ یوں ہے: 

رومانوی افسانے، صحرا نوردوں کے خطوط، صحرانوردوں کے رومان، صحرا نورد کا خط۔ اُن کے مختصر افسانے، لاؤ جنگل، ڈرامے، آنسو اور ستارے، لہو اور قالین، فصیلِ شب، پسِ پردہ، شیشہ و سنگ، شیشے کی دیوار تنقیدی مقالات کے ضمن میں مطالعہ اقبال کے چند پہلو تالیفات میں تنقیدی مقالات مشتمل کبر دو جلدیں انمول کتابیں، عودِ ہندی۔ بچوں کے لیے اُن کے ناول چچا چونچ، شہر سے دورمشہور ہیں۔ بچوں کے ڈراموں میں پانچ ڈرامے، نانی اماں کی عینک، اور امیر خسرو پر سیرحاصل کام کیا۔ 

کہانیوں کے مجموعوں میں ایک آدمی اور باپ کی خدمت نے بڑا نام کمایا۔ اُن کی ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومتی سطح پر اور اداروں کی سطح پر اُن کو کئی اعزازات سے نوازا گیا۔ جن کی تفصیل کچھ یوں ہے: 14اگست1981 کو پرائڈ آف پرفارمنس، آدم جی ایوارڈ، رائٹر گلڈ کے دو ایوارڈز، ڈرامہ پس پردہ افسانے پر دئیے گئے۔ یونائیٹڈ بک پرائز ایوارڈ بھی دیا گیا۔ 

بقول بشریٰ رحمن ”مجھے یقین ہے کہ اُردو ادب کی تاریخ کا مؤرخ بھی یہی لکھے گا کہ مرزا ادیب کا لکھا ہوا ادب آنے والی نسلوں کے لیے ایک مثال ہے۔“ 

(ختم شد)

مزید :

رائے -کالم -