پنجاب کا جدیدنہری نظا م کب اور کیسے وجود میں آیا؟

کہاتو یہی جاتا ہے کہ انگریزیہاں ہندوستان کی دولت لوٹنے اور مستقل قبضہ جمانے کی غرض سے آئے تھے۔ لیکن انہوں نے اپنا قبضہ مضبوط کرنے کے بعد وہ کثیرالمقاصد کا م کیے ہیں، جن کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔سب سے پہلے ان کے جس کارنامے کی میں تعریف کروں گا، اس کارنامے کا نام برصغیر پاک وہند میں ریل کا نظام ہے جو ہزاروں میل تک ریل کی پٹڑی بچھانا،بڑے بڑے دریاؤں (جن کو دیکھ کر آج بھی دل دہل جاتا ہے، ان دریاؤں پر اتنے مضبوط پل بنانا کہ آج بھی ڈیڑھ سو سال گزرنے کے بعد ان پلوں سے دوڑتی ہوئی تیزرفتار ٹرینیں آسانی سے گزرتی ہیں۔پھر برصغیر پاک وہند میں بلدیاتی نظام اور پارلیمانی نظام قائم کرنا، صوبے،ڈویژن، اضلاع، تحصیلیں اور سب تحصیلوں بنا کر ایک مضبوط نظام کرنے کی جستجو بھی یقینا قابل تعریف ہے۔پھر یہاں ایک جدید ترین نہری نظام قائم کرنا اور دریاؤں پر بند باندھ کر چھوٹی بڑی نہریں نکالنا اور ان نہروں کو بطور خاص پنجاب کی سرزمین کو سیراب کرنے کے لیے استعمال کرنا یقینا قابل تعریف بات ہے۔جنگلوں، ویرانوں، غیرآباد علاقوں کو کاشتکاری کے قابل بنا کر آباد کرنا اور وسیع پیمانے پر روزگار کے مواقع پیدا کرنا تعریف اور توصیف کے زمرے میں ہی آتا ہے۔یہ سب کچھ انہوں نے اتنا آسانی سے نہیں بنایا بلکہ اس کے لیے انہیں بے بہا سرمایہ خرچ کرنا پڑا اور ہر شعبے کے ماہرین کو انگلینڈ سے لاکر یہاں بسانا اور ان کی خدمات اور تکنیک سے فائدہ اٹھانا بھی یقینا توصیف کی بات ہے۔ ان تمام خدمات کے بعد برصغیر پاک وہند کے رہنے والوں کو اچھی اور بہ سہولت زندگی گزارانے کے طریقوں سے آشنا بھی کیا۔ لیکن تاریخ کا ایک طالب علم ہونے کی وجہ سے مجھے یہ بات فخریہ کہنی پڑتی ہے کہ اگر انگریز یہاں نہ آتے تو برصیغیر پاک وہند کا پورا خطہ چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹا ہوتا،نہ یہاں موٹرویز اور سڑکیں تعمیر ہوتیں اور نہ پاکستان،ہندوستان اور بنگلہ دیش میں ریل کا جدید ترین نظام ہی قائم ہوتا۔ نہ دریا ؤں پر ڈیم بنتے اور نہ جدید نہری نظام اور کھیتی بڑی کی بنیاد ہی رکھی جاتی اور ہم کسی نہ کسی راجہ کی رعایا بن کے غلاموں جیسی زندگی گزار رہے ہوتے اور ہمیں دوسری ریاست میں جانے کی بھی اجازت نہ ہوتی۔اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ پنجاب میں دنیا کے سب سے بڑے اور جدید نہری نظام کی وجہ ہی سے آج برصغیر پاک وہند اجناس کے حوالے سے خود کفیل ہے۔پروفیسر اسد سلیم شیخ کی کتاب ”نگر نگر پنجاب“کے مطابق سب سے پہلی نہر انگریزی دور میں 1859ء میں دریائے راوی سے نکالی گئی جو اپرباری دوآب کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے بعد متعدد اور نہریں بھی نکالی گئیں۔ پاکستان اور ہندوستان کے مابین سندھ طاس پانی کے معاہدہ نے نہری نظام کے ڈھانچے کو ایک نئی صورت دی۔نہری نظام کے اجراکے ساتھ ہی پنجاب کی ہزاروں ایکڑ اراضی جو بے آباد، بنجر اور ویران پڑی تھی اور ہر طرف جنگل پھیلے ہوئے تھے، آباد ہونا شروع ہوگئی۔اب زرعی پیداوار کی خرید و فروخت اور دوسرے علاقوں تک پہنچانے کی ضرورت محسوس کی جانے لگی۔چنانچہ ریلوے اسٹیشنوں کے ساتھ ساتھ غلہ منڈیوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔اس طرح نئے سے نئے شہر وجود میں آنے لگے۔ پنجاب کے دور دراز علاقوں سے محنت کش،کسان اور زمیندار اور تاجر باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت بننے والے ان نئے شہروں اور قصبات میں لاکر بسائے جانے لگے۔اس سلسلے کا سب سے بڑا منصوبہ لائلپور کالونی کا تھا۔انیسویں صدی کے آخر میں دریائے چناب سے نہریں نکالی گئیں۔ایک نہر اپر چناب ہے جو ضلع سیالکوٹ میں مرالہ کے مقام سے نکالی گئی۔اس نہر کی مجموعی لمبائی 1249میل ہے۔دوسری نہر لوئر چناب ہے جو ضلع گوجرانوالہ میں خانکی کے مقام سے نکالی گئی۔یہ پنجاب بلکہ پاکستان کی تمام نہروں میں سے کشادگی اور لمبائی کے اعتبار سے بڑی ہے۔اس سے گوجرانوالہ،شیخوپورہ،حافظ آباد،فیصل آباد،جھنگ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے اضلاع میں تقریبا 25لاکھ ایکڑ اراضی کو سیراب کیا جاتا ہے۔اس نہر کی چار ذیلی شاخیں گوگیرہ برانچ،برالا برانچ،رکھ برانچ اور جھنگ برانچ ہیں جن میں ہر ایک اپنے طور پر کسی نہر سے کم نہیں ہیں۔یہ عظیم نہر 1900ء میں مکمل ہوکر روانی آب کا سبب بنی۔ان نہروں کے ساتھ ہی لائلپور شہر کی بنیاد رکھی گئی۔جالندھر،گورداسپور اور سیالکوٹ کے اضلاع سے لوگوں کو لاکر یہاں آباد کیا گیا۔محض ایک صدی کے اندر اس شہر نے حیرت انگیز طور پر ترقی کی اور آج یہ پنجاب کا دوسرا بڑا اور پاکستان کا تیسرا بڑا شہر بن چکاہے بلکہ یہ صنعتی اعتبار سے تو یہ پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کہلاتا ہے۔ چناب کالونی کے منصوبے کے تحت ہی فیصل آباد (لائلپور) اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے اضلاع کے دیگر قصبات بھی بسائے گئے۔جن میں جڑانوالہ، تاندلیانوالہ،چک جھمرہ، سمندری،ڈجکوٹ،گوجرہ وغیرہ شامل ہیں۔جبکہ ضلع حافظ آباد کے قصبات، سکھیکی منڈی،کالیکی منڈی اور ضلع ننکانہ کا شہراور سانگلہ ہل بھی اسی دور میں نہری اور ریلوے نظام کے باعث وجود میں آئے۔ان تمام شہروں اور قصبات کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت تعمیر کیا گیا۔ رہائشی آبادیاں قائم ہوئیں اور صنعتی اور تجارتی علاقے الگ الگ رکھے گئے۔ بازار قائم ہوئے، سرکاری دفتر وجود میں آئے، آبپاشی اور نکاسی آب کا انتظام ہوا،ان شہروں کی سڑکیں اور گلیاں کشادہ رکھی گئیں۔دریائے راوی سے سدھنائی کے مقام پر ایک نہر 1887ء میں نکالی گئی،جس سے خانیوال، ملتان اور وہاڑی کے اضلاع کو سیراب کیا گیا۔نہر سدھنائی کے دائیں کنارے سے نکالی گئی جبکہ بائیں کنارے سے فاضل شاہ نہر جاری کی گئی۔اسی طرح ایک اور نہر جو عبدالحکیم نہر کہلاتی ہے۔دریاکے اوپرساڑھے تین میل پر بائیں کنارے سے نکالی گئی۔اس نہر کے جاری ہونے سے جو اراضی پا نی کی کمی کی وجہ سے بنجراور غیرآباد رہ گئی تھی،آباد ہوگئی۔اس کے بعد نہر لوئر باری دوآب کے جاری ہونے سے اس کی گزر گاہ کے علاقہ میں خوب ترقی ہوئی۔دریائے جہلم سے دو نہریں،نہر جہلم اور نہر اپرجہلم نکالی گئیں۔نہر لوئر جہلم موجود ضلع منڈی بہاؤالدین میں مونگ رسول کے مقام سے 1901ء میں نکالی گئی۔اس نہر سے ضلع گجرات، منڈی بہاؤالدین اور سرگودھا کے وسیع علاقوں کو سیراب کیا گیا۔نہر اپر جہلم منگلا کے مقام سے 1915ء میں نکالی گئی۔ان نہروں اور ریلوے نظام کے اجراء سے منڈی بہاؤ الدین، ملکوال،پھلروان،بھلوال،سرگودھا اور سلانوالی کے چھوٹے بڑے شہر اور قصبات وجود میں آئے۔اسی طرح ستلج ویلی پراجیکٹ کے تحت چار بند تعمیر کیے گئے۔ ان بندوں میں فیروز پور،سلیمانکی،اسلام اور پنجند وغیرہ شامل ہیں۔یہاں سے بارہ نہریں نکالی گئیں جن میں نہر دیپالپور،نہر فورڈواہ،نہر صادقیہ،نہر بہاولپور،نہر قائم پور، نہرعباسیہ اور نہر پنجندوغیر ہ بھی شامل ہیں۔ان نہروں کے جاری ہونے کے بعد پاکپتن، بہاولنگر،،وہاڑی،بہاولپور، ساہیوال اور ملتان کے علاقوں کی وسیع و عریض اراضی کو سیراب کرنے میں بڑی مدد ملی اور ان علاقوں میں جہاں پہلے سے آباد قصبوں اور شہروں کو ترقی ملی، وہاں چند نئے شہر اورقصبات بھی وجود میں آئے۔ جیسے وہاڑی، بورے والا، منچن آباد، فورٹ عباس، لودھراں، بہاولنگر، منڈی صادق گنج، عارف والااور اوکاڑہ۔
٭٭٭٭٭