بہتر نمائندے، مشکلات میں کمی
عام انتخابات کے انعقاد کے لئے پر امن حالات کے قیام اور تسلسل پر توجہ دینا موجودہ وفاقی اور صوبائی نگران حکومتوں کے علاوہ انتخاب میں حصہ لینے والے امیدواروں کی بھی اہم ذمہ داری ہے۔ اس لئے سیاسی جماعتوں کے قائدین کو اس معاملے پر بھی سنجیدگی سے غور و فکر کر کے اپنے نامزد امیدوار حضرات کو الیکشن کمیشن کے تازہ جاری کردہ ضابطہ اخلاق کی شرائط و ہدایات پر عمل درآمد کرانا ضروری ہے تاکہ گرد و نواح کے لوگوں کے معمولات طالب علموں کی تعلیمی کارکردگی اور کاروباری امور کی سرگرمیاں کسی غیر ضروری، شور شرابے اور بد امنی کے حالات سے متاثر نہ ہونے پائیں۔ سیاسی جلسوں اور کارنر اجتماعات کے لئے ایسے محفوظ مقامات اور کشادہ احاطے مخصوص اور استعمال کئے جائیں۔ جن کو بعد ازاں صاف کرنے کے انتظامات جلد کئے جائیں تاکہ خورد و نوش کی تقریبات میں وہاں کے مکینوں کو آمد و رفت اور ماحول کو صاف رکھنے کی خاطر کسی تکلیف اور اذیت سے دو چار نہ ہونا پڑے، اس ضمن میں ایک گزارش یہ کرنا بھی مناسب لگتی ہے کہ خورد و نوش کے دوران سیاسی کارکنوں کو شائستگی اور تہذیب کے آداب کے طور پر اختیار کرنا چاہئے۔ برتنوں اور پلیٹوں کو طریقے اور سلیقے سے استعمال کر کے مخصوص جگہوں پر رکھا جائے۔ ڈشوں اور کرسیوں یا میزوں کو ایک دوسرے پر پھینک کر توڑنے یا الٹانے سے اجتناب کیا جائے۔ اس بارے میں ہمیں اپنی سابقہ خراب مثالوں سے سبق حاصل کر کے، شائستگی کے اطوار کو مستقل طور پر اپنانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ موجودہ دور میں غلط اور قابل اعتراض کارروائیاں، فوری ریکارڈ ہو جاتی ہیں۔ جن پر ہر شخص اپنا ردعمل ظاہر کر سکتا ہے۔ یوں ملک و قوم کی عزت و حرمت متاثر ہوتی ہے۔ لہٰذا آئندہ انتخابی سرگرمیوں کو پروقار بنانے کی ممکن سعی کی جائے۔
بعض لوگ انتخابات کو ملتوی کرنے یا کرانے کے بارے میں اپنی خواہشات کا اظہار کر رہے ہیں جبکہ الیکشن کمیشن کو تادم تحریر فنڈز جاری کر دیئے گئے ہیں۔ وزارت خزانہ کی جانب سے ایک تازہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ مزید ضروری فنڈز بھی ضرورت کے وقت جاری کر دیئے جائیں گے تاکہ مجوزہ انتخابات کا انعقاد مورخہ 8 فروری 2024ء کو ہو سکے۔ بعض لوگوں نے انتخابی عمل کو ملتوی کرانے کے لئے 17 درخواستیں دائر کیں اس معاملہ پر فیصلوں پر عمل کیا جائے اگر کچھ لوگ اعلیٰ عدالتوں میں جانا چاہیں تو پھر ان فیصلوں کا انتظار کیا جائے۔ مولانا فضل الرحمن نے بھی اپنے حالیہ بیان میں بلوچستان اور کے پی کے میں امن کی موجودہ صورت حال میں انتخابی مہم کی سرگرمیوں کو مشکلات سے دو چار ہونے کا عندیہ دیا ہے۔ جبکہ وفاقی وزیر داخلہ نے بھی مولانا فضل الرحمن کے بیان سے اتفاق کرتے ہوئے کہا ہے کہ حال ہی میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں 78 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ایسے واقعات کے تسلسل سے امن و امان کے حالات تو ابتر ہوتے ہیں۔ ان علاقوں کے ضلعی حکام کو ایسی ملک دشمن کارروائیوں پر عوام کی جان و مال کے تحفظ کے لئے بروقت اور موثر اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ انتخابات اپنے مقررہ روز منعقد کرائے جا سکیں۔ یاد رہے کہ عام انتخابات کی تاریخ سیاسی رہنماؤں الیکشن کمیشن اور فاضل سپریم کورٹ کے جج صاحبان کے غور و خوض کے بعد طے کی گئی ہے۔ لہٰذا اب اسے ملتوی کرانے سے حتی الوسع گریز کیا جانا چاہئے۔ کیونکہ موسمی حالات ملک کے بعض حصوں میں اگر کچھ سرد بھی ہوں تو ان لوگوں کو بھی ہمت سے ووٹ ڈالنے کے آئینی عمل میں حصہ لینا چاہئے۔
سیاست میں کسی سے اختلاف رائے ذاتی رنجش یا دشمنی کی طرح مستقل طور پر جاری رکھنے کا رجحان سراسر بلا جواز ہے، اسی طرح دھڑے بازی کی روایت کو بھی طویل عرصوں تک قائم رکھنا کوئی مثبت طرز عمل نہیں، انتخابات میں ذاتی یا گروہی سطح تک مفاد کی سوچ و فکر کو بلا تاخیر ترک کر کے ملکی اور اجتماعی مفادات کے حصول کو ترجیح دیتے ہوئے محنتی، دیانتدار اور مختلف شعبوں کے تعلیم یافتہ اور ماہر حضرات و خواتین کو ووٹ دے کر کامیاب کرانے پر توجہ دی جائے۔ واضح رہے کہ وطنِ عزیز معاشی طور پر گزشتہ چند سال سے بہت مشکل حالات سے دو چار ہے۔ سرکاری اداروں میں تعمیر و ترقی کے امور میں بد عنوانی اور خیانت کاری کے واقعات آئے روز ذرائع ابلاغ میں دیکھنے اور پڑھنے میں آتے ہیں۔ اس طرح وطن عزیز کے گرانقدر مالی اثاثے اور بڑی رقوم بد دیانت عناصر کی غیر قانونی حرکات سے ذاتی مفاد کے لئے ہڑپ کر لی جاتی ہیں۔ جرائم پیشہ افراد، بددیانت سرکاری افسروں اور ملازموں سے ملی بھگت کر کے قومی خزانے کو روزانہ اربوں روپے کے نقصانات سے دو چار کرتے ہیں۔ عدالتوں میں مقدمات کی سماعت میں کئی سال کا عرصہ لگ جاتا ہے، یوں کئی ملزمان ساز باز کر کے اکثر اوقات اپنے سنگین جرائم سے بھی بری ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا مقدمات کی سماعت کا عرصہ چند ماہ تک محدود کیا جائے تاکہ بے قصور افراد جلد بری ہو سکیں۔ بڑی عدالتوں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں ضلعی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں کی سماعت بھی ان کے دائر کرنے کے بعد یا چند ماہ کے اندر ہی شروع کر کے فیصلے صادر کئے جائیں تاکہ فریقین طوالت کی اذیت اور عداوت کے حالات سے جلد نجات پا کر اپنے دیگر امور پر توجہ دیں سکیں۔