واقعہ کربلا تاریخ اسلامی کا اندوہناک سانحہ!
واقعہ کربلا تاریخ اسلامی کا وہ اندوہناک سانحہ ہے جو 10محرم الحرام 61 ہجری کو عراق میں کربلا کے مقام پر پیش آیا سانحہ کربلا میں سیدنا حضرت حسین ؓ نے اپنے اہل بیتؓ اور رفقاء کے ساتھ دین اسلام کی سربلندی کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے۔
آپ ؓ کی سب سے بڑی فضیلت یہی ہے کہ آپ نواسہ رسول، جگر گوشہ بتول اور شیرِخدا ؓ کے لختِ جگر اور رتبہ صحابیت پر فائز ہیں، سیدنا حضرت حسین ؓ اپنے نانا حضرت محبوب ِ رب العالمین کی محبتوں، شفقتوں اور توجہات کے محور و مرکز رہے۔ رسولِ خداؐ کی اپنے ان لاڈلوں سے اُلفت و موانست اور لاڈپیار بے مثال ہے۔
سیدنا حضرت حسین ؓ خاندانِ نبوت کے چشم و چراغ اور باغِ نبوت کے مہکتے پھول تھے، جس ماحول میں آپؓ نے پرورش پائی، اس سے پاکیزہ اور اچھے ماحول کا تصور ممکن ہی نہیں ہے، سیدنا حضرت حسین ابن علی رضی اللّٰہ عنہما نے اپنے رفقاء کے ساتھ نفلی حج پر جہاد فی سبیل اللّٰہ کو ترجیح دیتے ہوئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر دیے۔ مختصر انداز میں واقعہ کربلا یوں ہے کہ کاتب وحی،جلیل القدر صحابی سیدناحضرت امیر معاویہ ؓ کی وفات کے وقت حضرت حسین ؓ مدینے میں موجود تھے۔ یزید جب تخت نشیں ہوا تو اس نے والی مدینہ ولید بن عتبہ کو حکم دیا کہ حسین ؓ، عبداللہ بن زبیر اور عبداللہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہما سے اس کی خلافت کے لیے بیعت لی جائے والی مدینہ نے جب ان ہستیوں کو بلا کر یزید کا پیغام سنایا تو انہوں نے حالات کے پیش نظر مدینہ منورہ کو چھوڑ دیا اور مکہ مکرمہ چلے آئے۔
مکہ مکرمہ میں حضرت حسین ؓ موجود تھے تو کوفہ والوں کے خط آنا شروع ہوگئے کہ یزید تخت پر بیٹھ چکا ہے وہ دین میں طرح طرح کی خرابیاں پیدا کرنے کا مرتکب ہو رہا ہے اس کو اگر نہ روکا گیا تو دین اسلام کا شیرازہ بکھر سکتا ہے ہم آپؓ کو اپنی پوری معاونت کا یقین دلاتے ہیں لہذا آپؓ کوفہ تشریف لے آئیں اسی طرح کے مضامین پر مشتمل تقریبا 900 خطوط سیدناحضرت حسین ؓ کو موصول ہوئے حضرت حسین ؓ نے کوفہ جانے کا فیصلہ کرلیا، حضرت حسین ؓ کوفے کی جانب عازم سفر ہوئے، یہاں تک کہ کربلا کے میدان میں پہنچ گئے۔سات محرم کو سیدناحضرت حسین ؓ کے لشکر پر پانی بند کردیا گیا دریائے فرآت ٹھاٹیں مارتا ہے اور وہاں سے حضرت حسین ؓ یا ان کا کوئی بھی لشکری پانی نہیں پی سکتا فوج اشقیاء فرآت کے کناے موجود تھے سیدناحضرت حسین ؓپر پانی کی مکمل بندش کر دی گئی نومحرم کو شمر کربلا پہنچ گیا،سیدناحضرت حسین ؓکی کچھ دیر کے لیے آنکھ لگی تو اٹھ کر اپنی صاحبزادی حضرت سیدہ زینبؓ سے کہا کہ مجھے خواب میں رسول اکرم ؐ کی زیارت ہوئی ہے اور انہوں نے فرمایا ہے کہ تم ہم سے ملنے والے ہو۔دس محرم کی صبح حر نے یزیدی لشکر کو چھوڑ کرسیدناحضرت حسین ؓ کے لشکر میں شمولیت اختیار کرلی، حضرت حسین ؓ نے دشمن فوج کے سامنے خطبہ دیا پہلے اہل بیت ؓکے مناقب بیان کیے پھر اپنے بارے میں نبی اکرم ؐ کی احادیث مبارکہ بیان کیں اور فرمایا کہ ہم شباب اہل جنت ہیں حضور ؐ کے نواسے اور حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا ؓ او ر سیدنا حضرت علی ؓ کے بیٹے ہیں تمہارے لیے کسی طور پر بھی جائز نہیں کہ میرے خون سے اپنے ہاتھ رنگ دو،کیا میں نے کسی کو قتل کیا ہے جس کے قصاص میں تم مجھے قتل کر رہے ہو کیا میں نے کسی کا مال لوٹا یا کسی کو زخم لگایا؟ سیدناحضرت حسین ؓنے ایک ایک کوفی کو نام لیکر پکارا اور کہا اے فلاں بن فلاں اے فلاں بن فلاں اے فلاں بن فلاں کیا تم نے مجھے خط نہیں لکھے تھے، کیا مجھے آنے کا نہیں بولا تھا، یہ لوگ یزیدی فوج میں موجود تھے تو وہ لوگ مکر گئے،سیدناحضرت حسین ؓ نے وہ خطوط کے تھیلے عمر بن سعد اور شمر کو بھی دکھائے جو ان کو لکھے گئے تھے...10 محرم کی شام پھیلنے لگی تھی حضرت حسین ؓکے ساتھیوں نے میدان کربلا میں بڑی بہادری اور شجاعت دکھائی اب آخری باری حضرت حسین بن علی رضی اللّٰہ عنہما کی آئی۔ حضرت حسینؓ میدان جنگ میں پہنچتے ہیں سیدناحضرت علی ؓکا شیر جب حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا عمامہ اور پٹکا باندھے سیدناحضرت علی ؓکی ذوالفقار لیکر میدان کربلا میں پہنچااور ایک ایک کو بھیڑ بکریوں کی طرح کاٹنے لگا اور کربلا کی فضاء نے وہ منظر دیکھا تین دن کے بھوکے اور پیاسے کی جنگ دیکھی، علی ؓکے فرزند کی جنگ دیکھی،دشمن کی فوج میدان چھوڑ کر بھاگنے لگی.بالآخر حضرت حسین ؓ آنحضرت ؐ کے نواسے حضرت سیدہ فاطمہ الزھرا ؓ ا کے لخت جگر حضورؐ کے نور نظر اور سیدنا علی المرتضی ؓ کے فرزند ارجمند، جنتی نوجوانوں کے سردار جام شہادت نوش فرما کر اس دار فانی سے رخصت ہوئے اور خالق حقیقی سے جا ملے۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔ مؤرخین میں سے خلیفہ ابن خیاط نے لکھا ہے کہ سیدنا حسین ؓ کی شہادت 10 محرم الحرام 61 ھ بروز چہار شنبہ کو ہوئی، اور حافظ ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں لکھا ہے کہ سیدنا حسین ؓ کی شہادت دس محرم الحرام 61 ھ بروز جمعۃ المبارک ہوئی،ؓ۔
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حُسینؓ، ابتدا ہے اسمٰعِیل
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسین ؓ، ابتدا ہے اسمٰعیل ؑ